ایک اسلامی ملک میں خلاف شرح کوئی بھی عمل یا چیز انتہائی ناپسندیدہ تصور کی جاتی ہے چہ جائیکہ کھانے پینے کی اشیاء میں حرام اجزاء شامل ہوں ۔ کافی عرصہ سے مختلف ٹی وی چینلز پر مردہ مردہ جانوروں کی چربی اور آلائشوں سے گھی اور کوکنگ آئل کی تیاری ، ناقص اور مضر صحت اشیاء کی فروخت خاص کر مردہ اور حرام جانوروں کا گوشت بیچنے بارے پروگرامز تو نشر ہوتے آ رہے ہیں ۔ روز اخبارات ایسی خبروں سے بھرے ہوتے ہیں جن میں مردہ گائے بھینسوں ، بکریوں ، مرغیوں کے ساتھ ساتھ گھوڑوں ، گدھوں تک کا گوشت فروخت کئے جانے کا انکشاف ہوتا ہے ۔ پنجاب کے کئی شہروں میں محکمہ لائیو سٹاک کے عملے کی ملی بھگت سے کئی نامور ہوٹلوں ، شادی ہالوں کو مردہ جانورں کا گوشت سپلائی کیا جاتا ہے ۔ اور تو اور لاہور ، راولپنڈی، کراچی سمیت کئی بڑے شہروں میں بڑی بڑی اہم اور وی آئی پی پارٹیوں میں بھی مردار گوشت کھلانے کے انکشافات بھی ہو چکے ہیں ۔ خوشاب ، اوکاڑہ ، چیچہ وطنی ، کمالیہ ، ملتان ، فیصل آباد، گوجرانولی ، سیالکوٹ ، گجرات سمیت متعدد شہروں اور نواحی دیہات میں ہر ماہ ہزاروں من مردار گوشت شہریوں کو کھلا دیا جاتا ہے ۔
لیکن کبھی بھی حکومتی سطح پر اس مکروہ دھندے میں ملوث افراد کیخلاف کوئی مؤثر کارروائی نہیں ہوئی ، اگر میڈیا کے دباؤ پر کسی کیخلاف کوئی ایکشن لیا بھی گیا تو صرف وقتی طور پر اور دکھاوے کے لئے ۔ اگر کسی کو پکڑ لیا جائے تو تھانوں میں اس کے سفارشیوں کی لائنیں لگ جاتی ہیں اور وہ مک مکا کر کے ’’باعزت‘‘ رہا ہو جاتا ہے ۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے حالیہ اجلاس میں امریکہ ،برطانیہ، انڈونیشیاء سمیت دیگر ممالک سے درآمد کردہ 23حرام اجزاء والے پاکستانی مارکیٹ میں دستیاب فوڈ آئٹمز کی فروخت کا چشم کشا انکشاف ہوا ہے ۔ اس سلسلہ میں کمیٹی میں ان 23فوڈ آئٹمز کی لسٹ بھی پیش کی گئی لیکن کمیٹی میں پاکستان سٹینڈرڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی نے روک تھام سے معذوری ظاہرکر دی۔ کمیٹی میں کے اجلاس میں پاکستان سٹینڈرڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی نے 23حرام اجزاء والے درآمد کردہ ٹوڈ آئٹمز کی فہرست پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ہالینڈ،برطانیہ، انڈونیشیا، سپین، امریکہ ، فرانس اور ڈنمارک سے درآمد ہونے والے کنور چکن سوپ، فروٹ کاکٹیلز، گمی پیزا، چکن ٹونائٹ، ٹیولپ چکن، کپ سوپ ، پاستہ کریمی چکن ، فروٹ کاکٹیلز، اسٹرابری لیف ، سلما سوپ سمیت تئیس اشیا ایسی ہیں جنہیں حرام قرار دیا گیا ہے۔ جس پر کمیٹی نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اگلے اجلاس میں حرام اجزاء والے فوڈ آئٹمز کی درآمد روکنے کے حوالے سے کی جانے والی قانون سازی کی تفصیلات طلب کرلیں۔ ایڈیشنل سیکرٹری سائنس اینڈ ٹیکنالوجی محمد اعجاز کے مطابق پاکستان میں حلال اتھارٹی بنی ہی نہیں، قانونی طور پر حرام اجزاء والے فوڈ آئٹمز کیخلاف کارروائی نہیں کر سکتی، وزارت پالیسی دیتی ہے، قانونی اور انفورسٹمنٹ میکانیزم موجود نہیں، صوبائی حکومتوں کو حرام اجزاء والے فوڈ آئٹمز کی فہرست بھجوا دی ہے، سندھ اور پنجاب نے مارکیٹ سے یہ آئٹمزاٹھوا لئے ہیں جبکہ وفاقی دارالحکومت میں فروخت کئے جا رہے ہیں۔ بات صرف 23فوڈ آئٹمز تک محدود رہتی تو پھر بھی خیر تھی ۔ یہاں تو معلوم نہیں کس کس شے میں حرام اجزاء پائے جاتے ہیں ۔ ہزاروں کی تعداد میں مردہ مرغیاں فاسٹ فوڈ ہوٹلوں ، شوارما شاپس کو بیچی جاتی ہیں ۔
کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ ملک کا بظاہر ایک انتہائی اہم ادارہ ، عوام کی زندگی کا تحفظ جس کی ذمہ داری ہے ، ایک معتبر پلیٹ فارم پر اپنی بے بسی اور لاچارگی کا اظہار کر رہا ہے ۔ کیا ہم اس قدر بے ضمیر ہو گئے ہیں کہ اس قدر جان لیوا انکشاف پر بھی کبوتر کی طرح اپنی آنکھیں بند کر کے بیٹھے رہیں گے ۔ ہم کب تک کسی محمد بن قاسم کا انتظار کرتے رہیں گے ، عوام سڑسٹھ سال سے حرام اشیا کھا رہے ہیں اور کسی بھی بھی پتا نہیں ، کیا ملک میں حلال اتھارٹی ہی موجود نہیں ہے ۔ آخر اس غیر ذمہ داری کا کس کو قصور وار ٹھہرایا جائے ، عوام کس سے سوال کریں ، کون ہے جو عوام کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنائے گا ۔
ہم عوام ہر اپنے کرنے والے کام کی ذمہ داری حکومت پر ڈال کر خود بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ کیا من حیث القوم ہماری اپنی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ حکومت تو پہلے ہی ’’گوڈے گوڈے‘‘ بحرانوں میں گھری ہوئی ہے ۔ کبھی بجلی کا بحران تو کبھی گیس ، کبھی پٹرول نہیں ہے تو کبھی آٹا ، کہیں ٹارگٹ کلنگ ہے تو کہیں بھائی ہی اپنے بھائی کا گلا کاٹ رہا ہے ۔ کہیں بم دھماکے ہیں تو کہیں فورسز اور معصوم شہریوں پر حملے ، کرپشن اور بدعنوانی کا عفریت الگ ۔ ایسے میں کھانے پینے کی اشیاء میں حرام اجزاء کی شمولیت کا انکشاف ۔۔۔۔ لیکن ہم پاکستانی قوم ہیں جو مسائل اورانکشافات سے گھبرانے والی نہیں ۔ وطن عزیز میں تو ہر روز انکشافات ہوتے رہتے ہیں لیکن پاکستانی قوم ’’اتنی فارغ‘‘ نہیں کہ ایسی ’’چھوٹی موٹی‘‘ باتوں پر کان دھرے ۔ اور ان کے بارے میں سوچنے پراپنا ’’قیمتی وقت‘‘ ضائع کرے ۔ مسائل ومشکلات کے بارے میں سوچنا اور ان کا حل نکالنا تو حکومت کا کام ہے ۔ ان ساری ’’حقیقتوں‘‘ کے باوجود یہ افسوس کا مقام ہے کہ وفاق اور صوبوں میں وزیروں اور مشیروں کی اتنی بڑی تعداد ہونے کے باوجود ملک میں ایسا کوئی بااختیار ادارہ نہیں ہے جو پاکستانیوں کے بنیادی انسانی حقوق کا نگہبان، محافظ ہو ، جس پر قوم کو اعتماد ہو ۔