کسووال کا ستارہ جو کوئٹہ جا کے چمکا

Published on March 4, 2015 by    ·(TOTAL VIEWS 721)      No Comments

akh log
ہمارے ایک دوست ہمارے شہر کسووال سے کوئٹہ جا بسے ہیں وہاں انہوں نے اردو ادب کے لیے جو کام کیا ہے کسووال کا نام\” پاکستان سے دنیا تک \” جیسے روشن کیا ہے اس کی مثال نہیں ہے ۔چند دن قبل سانحہ پشاور کے حوالے سے ،کوئٹہ رائیٹر فورم ،\”عالمی جریدہ حرف\” ،اورترقی پسند مصنفین کی جانب سے \”کل پاکستان یک جہتی مشاعرے\” کا انعقاد کیا گیا ۔جس میں صدر پاکستان ممنون حسین نے بھی شرکت کی،صدارت جناب امجداسلام امجد نے کی ۔یہ مشاعرہ اس لیے بھی قابل توجہ ہے کہ یہ مشاعرہ شہدائے پشاور کی یاد میں پہلا مشاعرہ تھا ۔اس کے انعقاد میں عالمی ادبی جریدہ حرف کے روح رواں جناب نوید حیدر ہاشمی نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔
سید نوید حیدر ہاشمی کا تعلق بنیادی طور پر میرے شہر کسووال سے ہے ، اس عظیم شاعر ،نقاد، کالم سنگار، صحافی، اینکر پرسن اورپی ٹی وی کوئٹہ سنٹر کے بہترین مذہبی سکالر نے میرے شہر کسووال اور اہل کسووال کی عظمت کو کوئٹہ شہر ہی نہیں پورے پاکستان بلکہ ساری دنیا میں بھی سر بلند کر رکھا ہے۔سید نوید حیدر ہاشمی میرے ملک کا وہ ادبی سرمایہ ہے جن پر میں جتنا ناز کروں کم ہے۔میرا شہر کسووال ہے اور میں اس شہر سے تعلق رکھنے والے ہر فرد کی دل سے قدر کرتا ہوں ۔جو اس کے شاعر ہیں ،ادیب ہیں ، کالم نگار ہیں سب سے ۔بات ہو رہی تھی نوید حیدر ہاشمی کی جو اپنے شعری سفر کے آغاز کا سبب وہ اپنے والد اور بھائی سجاد حیدر صاحب ملنے والے ذوق کو بتاتے ہیں ۔کالج میں میگزین ایڈیٹر رہے ،1990 میں باقاعدہ شاعری کی ابتدا کی اسی سال پہلی غزل اخبار میں شائع ہوئی ،ان کی شاعری میں ان ڈئریکٹ واقع کربلا جھلکتا ہے ۔نوید حیدر ہاشمی خود کو آمد کا شاعر کہتے ہیں ،کہتے ہیں کہ میں سوچتا ہوں ،کہنا کیا ہے ،اس کے لیے زمین منتخب کرتا ہوں اور پھر اپنی ذات کو آمد کے حوالے کر دیتا ہوں ،جب کیفیت بن جاتی ہے تو شعر اپنے آپ نازل ہونے لگتے ہیں ۔
میں یہاں ہجرکی تبلیغ کرنے آیا ہوں
دنیا والو میرامذہب،میرا مقصد،عشق ہے
یہ میرے بازو پڑے ہیں یہ میرا لاشہ ہے
میں نے بزدل کی طرح جنگ نہیں ہاری ہے
جو آنکھیں بند ہوں وہ آنکھیں دیکھ سکتی ہیں
تجھے دکھاوں میں ارض و سماء کا دروازہ
لہو میں بھیگے ہوئے سر دکھا رہا ہے مجھے
یہ میرے عہد کی کرب و بلا کا دروازہ ہے
نوید ہاشمی کا تعلق ایک علمی و ادبی اور معزز گھرانے سے ہے ،ان کے والد عالم دین تھے ،لڑکپن سے شاعر ی شروع کی اور ملک بھر میں اپنے کام سے نام بنایا ،\”دھوپ کا جنگل\” 1998 \”چلو جی بھر کے روتے ہیں\” 2006 ۔\”عشق سید ہے\” 2012 \”شہید با پ کی شہید بیٹی\” \”بلوچستان عالمی قوتوں کے نرغے میں\”لکھ کر شاعری اور نثر میں اپنا لوہا منوایا ،کالم بھی لکھتے ہیں جو قومی اخبارات میں شائع ہوتے ہیں ۔نوید ہاشمی ما شا اللہ صحت مند ہیں ،پہلوان ہونے کا گماں ہوتا ہے ،شاعر اتنا صحت مند بھی ہوتا ہے یہ دیکھنا ہو تو نوید حیدر ہاشمی کو دیکھ لیں،ہمارے کسووال کے ایک استاد شاعر ہیں ارشاد جالندھری ہیں جن کی صحت کو دیکھ کر پتہ چل جاتا ہے کہ شاعر ہیں ۔ایک نوید ہاشمی ہیں کہ لگتا ہے اکھاڑے سے آ رہے ہیں ۔صاف شفاف ،اجلے اجلے ،باتیں بھی اجلی اجلی ،عام شاعروں سے ہٹ کر ان میں جو دوسری بات ہے وہ ہے کہ اکثر دوسروں کو اپنی شاعری سے محفوظ رکھتے ہیں ،ملنے سے پہلے آپ کو شاعری سننے کے لیے خود کو تیار نہیں کرنا پڑتا ۔ادب کی باتیں ادب سے کرتے ہیں ،منکسر المزاج ہیں ،گماں ہی نہیں ہوتا ہے اتنے بڑے ادیب سے مل رہے ہیں آپ کی یہ غلط فہمی اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک ان کا ادبی مجلہ حرف آپ دیکھ نہیں لیتے ، حرف کو دیکھ کر پتا چلتا ہے کہ آپ کتنے بڑے ادیب ہیں ،\”حرف \”بھاری اتنا ہے کہ وقت ضرورت اس سے ہتھیار کا کام بھی لیا جا سکتا ہے ۔ نوید صاحب وسیع المطالعہ ہیں ۔کسی دانشور کا قول ہے کہ افسانہ، کالم، مکالمہ، شاعری، بلکہ یوں کہوں کہ فنون لطیفہ میں آنے والی ہر بات بنیادی طور پر تخیل کی بقا ہے(عالم تمام حلقہ دام خیال ہے) تخیل کے بقا کی جنگ ہے جس کو کسی صورت بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ دنوں جناب نوید ہاشمی اپنے گاؤں (شہرکسووال) آئے تو مجھے \”حرف نمبر \”5 تحفے میں دیا ۔سید نوید حیدر ہاشمی کے دئیے ہوئے سلسلہ وار ادبی جریدہ\” حرف\” کے مطالعہ نے حیرت میں ڈال دیا۔مجھے ان کی ادارت میں شائع ہونے والا حرف ملا اور اس پر تبصرہ لکھنے کا حکم ملا ،میں اپنا سا منہ دیکھ کر رہ گیا،۔
ہم کہاں کے دانا ہیں کس ہنر میں یکتا ہیں۔
؂جس پر تبصرہ لکھا جا چکا ہے جو پاکستان کی 30 سے زائد قومی ،لوکل اور آن لائن نیوز پیپرز میں شائع ہو چکا ہے \” عالمی ادبی جریدہ حرف کے لیے چند حروف \” کے عنواں سے، سید نوید حیدر ہاشمی کی اس ادبی خدمت کو سراہا جانا ضروری ہے \” حرف\” کے مطالعہ کے بعد میں نے نوید کو اس مقام پر دیکھا ہے کہ شاید ایسی سلسلہ وار ادبی دستاویز آپ کو ملکی سطح پر کبھی کہیں نظر نہ آئے۔حرف\” دنیائے ادب میں وہ مقام حاصل کرے جس پرہر اہل ادب نازاں ہو۔ سید نوید حیدر ہاشمی کسووال کا ایسا ستارہ ہیں جو کوئٹہ جا کے چمکے ہیں ہماری دعا ہے کہ وہ اپنے علم و ادب کی روشنی سے دوسروں کو مستفید کرتے رہیں ۔

Readers Comments (0)




Premium WordPress Themes

WordPress主题