ورلڈ کڈنی ڈے (عالمی یوم گردہ) منانے کا مقصد گردے کی اہمیت ، خرابیاں اور بیماریوں سے متعلق شعور و آگاہی دینا ہے۔ یہ ہر سال مارچ کی دوسری جمعرات کو منایا جاتا ہے۔پہلی بار 2006ء میں دنیا کے 66 ممالک نے اس دن کو منایا، آج دنیا کے 88سے زائد ممالک یہ دن منا رہے ہیں۔اس دن کو متعارف کروانے میں مشترکہ جدوجہد انٹرنیشنل سوسائٹی آف نیفرولوجی اور انٹرنیشنل فیڈریشن آف کڈنی فاؤنڈیشن نے کی۔
گردے کی ساخت:
گردے کی شکل لوبیے کے بیج کی طرح ہوتی ہے اور یہ پیٹ کی پچھلی دیوار کے قریب ریڑھ کی ہڈی کے اطراف میں ہوتے ہیں۔ گردے بارھویں ’’تھوراسک ورٹیبرا‘‘ کے لیول سے لے کر تیسرے ’’لمبر ورٹیبرا‘‘ کے لیول تک ہوتے ہیں۔ تاہم بایاں گردہ اوپر موجود جگر کی وجہ سے بائیں گردے سے نسبتاً تھوڑا نیچے واقع ہوتا ہے۔ ہر گردے کی لمبائی تقریباً 11سینٹی میٹر، چوڑائی تقریباً 6سینٹی میٹر اور موٹائی تقریباً 3 سینٹی میٹر ہوتی ہے۔ ایک گردے کا وزن تقریباً 100 گرام ہوتا ہے اور اس کے گرد کافی مقدار میں چکنائی پائی جاتی ہے، جسے ’’فیری رینل فیٹ‘‘ کہتے ہیں۔ ہر گردے کا اندرونی کنارہ مقعر ہوتا ہے جس کے درمیانی حصے کو ہائی لس کہتے ہیں۔ اس جگہ سے اعصاب اور خون کی نالیاں گردے کے اندر داخل ہوتی ہیں اور پیشاب کی نالی ’’یوریٹر‘‘ گردے سے باہر نکلتی ہے۔ گردے کے چاروں اطراف ایک فائبرس ٹشوز کا کیپسول ہوتا ہے۔ اگر گردے کے عمودی تراشے کا معائنہ کیا جائے تو دو حصے واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ باہر والا گہرے زرد رنگ کا حصہ ’’کارٹیکس‘‘ اور اندرونی ہلکے زرد رنگ کا حصہ ’’میڈولا‘‘ کہلاتا ہے۔ ہائی لس کی طرف ایک کیویٹی ہوتی ہے جس میں تیار شدہ پیشاب جمع ہوتا ہے اس حصے کو گردے کا ’’پیلوس ‘‘کہتے ہیں۔
گردے کے اندر بے شمار چھوٹی چھوٹی خم دار نالیاں ہوتی ہیں، جنہیں نیفرون کہتے ہیں۔ ایک گردے میں ان کی تعداد 10 لاکھ سے زائد ہوتی ہے۔ ہر نیفرون کا ابتدائی حصہ پھیلا ہوا ہوتا ہے جسے ’’گلومیرولر کیپسول‘‘ کہتے ہیں اور یہ پیالہ نما ہوتا ہے۔ جس میں ’’رینل آرٹری‘‘ کی ایک شاخ تقسیم ہو کر چھوٹی چھوٹی کیپلریز کا گچھا بناتی ہے جسے ’’گلومیرولس‘‘ کہتے ہیں۔ خون کی وہ نالی جو ’’گلومیرولس‘‘ کی طرف خون لے کر آتی ہے’’افرنٹ نالی‘‘ کہلاتی ہے جبکہ جو یہاں سے خون لے کر جاتی ہے ’’ایفرنٹ نالی‘‘ کہلاتی ہے اور یہ اول الذکر نالی سے نسبتاً تنگ ہوتی ہے۔
گردے میں موجود نیفرونز پیچدار صورت میں پڑی ہوتی ہیں۔ اس کے پہلے حصے کو ’’ابتدائی پیچ دار نالی‘‘ کہتے ہیں۔ جہاں سے یہ نالی گردے کے میڈولا کی طرف مڑ جاتی ہے اور کافی گہرا جانے کے بعد واپس پہلی جگہ کی طرف آتی ہے اور اس طرح ایک لمبی لوپ بنتی ہے جسے ’’لوپ آف ہنلے‘‘ کہتے ہیں۔ اس کے بعد والا حصہ ’’بعیدی پیچ دار نالی‘‘ کہلاتا ہے جو ایک اور نالی میں کھل جاتا ہے جسے ’’کولیکٹنگ ڈکٹ‘‘ کہتے ہیں۔ جبکہ ’’ایفرنٹ آرٹری‘‘ جو کہ گلومیرولس سے نکلتی ہے ایک مرتبہ پھر تقسیم ہو کر کیپلریز بناتی ہیں جو نیفرونز کے ارد گرد ترتیب پا جاتی ہیں۔ اس طرح گردوں میں ایک شریان دو دفعہ کیپلریز بناتی ہے اور ان کیپلریز سے خون وینز کے ذریعے گردے سے باہر چلا جاتا ہے۔
گردے کے افعال
گردے انسانی جسم میں درج ذیل افعال سر انجام دیتے ہیں؛
جسم کے تمام ناکارہ اور فاضل مادے خارج کرتے ہیں خاص طور پر وہ مرکبات جو کہ لحمیات کے میٹا بولزم میں بنتے ہیں مثلاً یوریا اور یورک ایسڈ وغیرہ۔
جسم کے مائعات میں ہائیڈروجن آئین کی مقدار کو مستقل رکھتے ہیں۔
جسم کے اندر پانی کی مقدار کو کنٹرول کرتے ہیں۔
جسم کے اندر مختلف چیزوں کی تعداد کو ایک خاص حد تک برقرار رکھتے ہیں، مثلاً تمام نمکیات وغیرہ۔اگر جسم میں نمکیات کی زیادتی ہو جائے تو گردے انہیں زیادہ مقدار میں خارج کریں گے اور اس طرح جسم میں نمکیات کی مقدار ایک خاص حد تک رہتی ہے۔
بہت ساری دوائیوں اور نقصان دینے والے مرکبات کو خارج کر دیتے ہیں۔
چند ایک چیزیں خود بھی بناتے ہیں جیسا کہ امونیا اور غیر نامیاتی فاسفیٹ وغیرہ اور ان چیزوں کے جسم سے اخراج کا سبب بنتے ہیں۔
جسم کے اندر خون اور خلیات کے دوران آسماٹک پریشر برقرار رکھتے ہیں اسی کی بنیاد پر جسم کے مختلف حصے خوراک حاصل کرتے ہیں اور وہ زندہ رہتے ہیں اور اگر خون کا آسماٹک پریشر بڑھ جائے تو پانی بافتوں سے نکل کر خون میں شامل ہو گا اگر جسمانی بافتوں کا آسماٹک پریشر بڑھ جائے تو خون پانی سے نکل کر جسمانی بافتوں میں پھیل جائے گا اور خون کی نالیوں میں خون کا حجم کم ہو جائے گا۔
بلڈ پریشر کو کنٹرول کرتے ہیں اور بعض حالات میں جب بلڈ پریشر کم ہونے لگتا ہے تو یہ ’’رینن کمپاؤنڈ‘‘ بناتے ہیں۔ یہ مرکب دل اور پھیپھڑوں کے علاوہ تمام جگہوں کی خون کی نالیوں کو سکیڑ دیتا ہے جس سے بلڈ پریشر نارمل حالت میں آ جاتا ہے۔
یہ ریڈ بلڈ سیلز کے بننے کے عمل میں بھی حصہ لیتے ہیں۔ یہ ایک مرکب ’’اریتھرو پائی ٹین ‘‘ بناتے ہیں جو ریڈ بلڈ سیلز بننے کے عمل کو تیز کر دیتا ہے۔
گردے کی بیماریاں:
گردوں میں مختلف بیماریاں ہو سکتی ہیں۔ جس میں گردوں کا شدید اور پرانا ورم، گردوں کی ٹی بی اور گردوں کی رسولی قابلِ ذکر ہیں۔ گردوں میں ورم بھی ہو سکتا ہے اور بعض اوقات گردوں میں کنکریاں بھی بن جاتی ہیں جو کہ اگر چھوٹی ہوں تو خارج ہونے کی کوشش کرتی ہیں جس کی وجہ سے شدید درد ہوتا ہے۔ اگر کنکریاں بڑی ہوں تو آپریشن بھی کروانا پڑ سکتا ہے۔ بعض اوقات گردے اپنا کام بند کر دیتے ہیں یعنی گردے فیل ہو جاتے ہیں۔ اس بیماری میں پیشاب بننا بند ہو جاتا ہے اور خون میں گندے مادے خاص طور پر یوریا جمع ہو کر مختلف علامات پیدا کر دیتے ہیں۔ اس بیماری کو ’’یوریمیا ‘‘کہتے ہیں۔ چند مشہور بیماریاں قابلِ ذکر ہیں؛
اکیوٹ نیفرائٹس
شدید سوزش گردہ عام طور پر گلے پکنے یا برونکائٹس کے بعد یا سردی لگ جانے کے باعث ہو سکتی ہے۔ بعض اوقات ٹائیفائیڈ بخاریا نمونیا کے بعد بھی ہو سکتی ہے۔ یہ ایک خطرناک بیماری ہے کیونکہ اس میں بلڈ پریشر ہائی ہو جاتاہے۔ تمام جسم خاص طور پر چہرہ متورم ہو جاتا ہے۔ یہ بیماری عام طور پر پانچ سے چھ ہفتے تک رہتی ہے اس کے بعد یا تو ٹھیک ہو جاتی ہے یا مزمن صورت اختیار کر جاتی ہے جس میں گردے سوج کر اور موٹے ہو جاتے ہیں۔ اور چہرے اور سارے جسم کا ورم اور بڑھ جاتا ہے۔جس کے ساتھ ہی خون کی شدید کمی بھی پائی جاتی ہے۔ شدید ورم کی صورت میں گردوں کے اندر کوئی جراثیم نہیں پائے جاتے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بیماری جراثیمی زہر کے ایک قسم کے ردعمل کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ جب بیماری شروع ہوتی ہے تو پیشاب کی مقدار کم ہو جاتی ہے۔ بعض اوقات سارے دن میں دس سے بیس اونس سے زیادہ پیشاب خارج نہیں ہوتا۔ پیشاب میں البیومن کا اخراج بہت بڑھ جاتاہے۔ البیومن کے علاوہ خون کے سرخ ذرات اور کاسٹ یعنی دھاگے وغیرہ بھی خارج ہوتے ہیں۔ چہرہ پیلا پڑ جاتا ہے اور آنکھوں کے گرد ورم زیادہ نظر آتا ہے۔ جو کہ صبح سویرے زیادہ دیکھا جا سکتا ہے۔ کم از کم تین چار دن تک معمولی بخار بھی رہتاہے۔ پیشاب کی کمی کی وجہ سے بعض اوقات خون میں یوریا کی مقدار زیادہ ہو جاتی ہے جو کہ 100 ملی گرام تک ہو سکتی ہے۔ ایسی حالت میں مریض کو الٹیاں آنے لگتی ہیں اور غنودگی سی طاری رہنے لگتی ہے۔
کرانک نیفرائٹس
سوزش گردہ مزمن عام طور سوزش گردہ شدید کے بعد ہو جاتی ہے۔ اگر مریض چھ آٹھ ہفتے تک ٹھیک نہ ہو تو گردہ متورم ہو کر بڑا ہو جاتاہے۔ پیشاب میں البیومن کی زیادتی ہو جاتی ہے، بلڈ پریشر ہائی ہو جاتا ہے، سارا جسم خاص طور پر چہرہ بہت زیادہ متورم ہو جاتا ہے۔ کبھی کبھی پیشاب میں خون بھی آسکتا ہے لیکن پیشاب میں کاسٹ بہت آتے ہیں۔ خون میں پروٹین اور ہیموگلوبن کی کمی ہو جاتی ہے۔ پیشاب کی مقدار بدستور کم رہتی ہے۔ بلڈ یوریا زیادہ اور مریض کافی کمزور حالت میں ہوتا ہے۔ پیشاب میں یوریٹ بھی کافی مقدار میں خارج ہوتے ہیں۔ پیشاب کا وزن مخصوص کافی زیادہ ہوتاہے جس کی وجہ البیومن کے اخراج کی بہت زیادتی ہوتی ہے۔
یوریمیا
یوریمیا میں گردے فیل ہو جاتے ہیں یعنی گردے پیشاب بنانا بند کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے خون میں گندے مادے خاص طور پر یوریا جمع ہونے لگتے ہیں جس کی وجہ سے کئی قسم کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ یوریمیا نیفرائٹس، پرانے بخار، ہائی بلڈ پریشر، شاک، پراسٹیٹ گلینڈ کے بڑھ جانے اور کنجیسٹو ہارٹ فیلئیر کی وجہ سے ہو سکتی ہے۔ یوریمیا کا مریض نڈھال رہتاہے، جسم میں دردیں ہوتی ہیں، ہچکی آتی ہے، پٹھے پھڑکتے ہیں، سردرد رہتا ہے، الٹیاں آتی ہیں، زیادہ تر قبض لیکن بعض اوقات دست لگ جاتے ہیں، چکر آتے ہیں، پیشاب بہت کم اور شدید حالت میں بالکل بند ہو جاتا ہے۔ اکیوٹ یوریمیا میں تشنج کے دورے پڑتے ہیں، مریض مدہوش یا بے ہوش ہو جاتاہے، سانس پھولنے کے دورے بھی پڑ سکتے ہیں۔ آخری حالتوں میں دل کی حرکت بے قاعدہ ہو جاتی ہے، موت عموماً حرکت قلب بند ہونے سے ہوتی ہے۔
رینل کیلکیولس (گردے کی پتھری)۔
گردے کی پتھری انفیکشن، سوزش گردہ، غیرمتوازن غذا، پانی کے استعمال میں کمی، گاڑھا پیشاب، وٹامن کی کمی، زیادہ گوشت خوری، پیشاب میں تیزابیت کی زیادتی، ورزش کی کمی یا پراسٹیٹ کے بڑھ جانے سے ہو سکتی ہے۔ گردے میں پتھری عموماًکیلشیم آگزے لیٹ اور یورک ایسڈ وغیرہ سے بنتی ہے۔ پیشاب میں اگر تیزابیت زیادہ ہو تو کنکری اور ریت بننے میں مدد ملتی ہے۔ اگر گردے میں انفیکشن کی وجہ سے سوزش ہو، پیشاب کھاری ہو تو فاسفیٹ کی پتھری بن سکتی ہے۔ پیشاب کا زیادہ گاڑھا ہونا بھی کنکریاں اور ریت بنانے میں مدد دیتا ہے۔ بعض اوقات کنکریاں گردوں کی نالی بند کر کے گردوں کو خراب کر سکتی ہیں۔ گوشت خوری کی زیادتی سے پیشاب میں یورک ایسڈ کی زیادتی ہو سکتی ہے اور پالک، ساگ اور چائے کی زیادتی سے آگزے لیٹ کی زیادتی ہو سکتی ہے۔
رینل کالک
یہ درد قولنج کی صورت میں ہوتا ہے۔ نہائیت شدید دردوں میں سے ایک ہے۔ جب کوئی کنکری گردے سے نکل کر مثانے کی طرف چلنا شروع کر دے تو یہ درد ہوتا ہے۔ کمر میں پچھلی طرف گردے کے مقام سے شروع ہو کر آگے کو چلتا ہوا پیٹ کے نچلے حصے میں مثانے تک پہنچ جاتاہے ۔ بلکہ ران کھے اندر کی طرف بھی محسوس ہوتاہے۔ مریض بستر پر لوٹنے لگتا ہے، الٹیاں آتی ہیں، ٹھنڈے پسینے آتے ہیں، دل گھٹتا ہے، پیشاب تھوڑا تھوڑا اور بار بار آتا ہے۔
سوزش حوض گردہ
یہ نفرائی ٹس کے بعد، گردے کی پتھری کے بعد، پراسٹیٹ گلینڈ کے بڑھنے سے، عورتوں میں حمل کے دنوں میں، یا سوزاک کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے۔ اس میں کمر درد ہوتا ہے، پیشاب بار بار آتا ہے، ہلکا ہلکا بخار اور بعض اوقات کافی تیز ہو جاتاہے اور پیشاب میں پیپ خارج ہوتی ہے۔ مریض سست رہتا ہے اور صحت دن بدن بگڑتی جاتی ہے۔