آج ہم گفتگو کر رہے ہیں ایک ایسی تعارفی کتاب پر جو ملک کے ۴۶مایہ ناز شخصیات پر مشتمل ہے۔ ان میں بیشتر توتحریک اسلامی کی سعید رحوں ہیں۔کچھ تحریک اسلامی کو پسند کرنے والے ہیں۔ اور الحمد اللہ سارے کے سارے سیکولر، لیبرر اور عقلیت پسند نہیں بلکہ، نظریہ پاکستان پر کامل یقین رکھنے والے ہیں جس میں سے کچھ تو وفات پا چکے ہیں اور کچھ زندہ ہیں ۔ اس لحاظ سے یہ کتاب پھولوں کا ایک گلدستہ ہے، اسلام سے محبت کرنے والوں کا، جسے نہایت عرق ریزی سے احمد حاطب صدیقی صاحب ،جو قلمی نام ابو نثر کے تحت زیرو زبر کے عنوان سے جسارت اوردیگر اخبارات میں لکھتے ہیں نے ترتیب دیا ہے۔ ہم نے تحفے میں ملنے پر شکریہ ادا کرتے ہوئے اس کتاب کے پبلیشر شاہد اعوان صاحب جو دل لگتے گیٹ اپ والی کتابیں شائع کرنے میں مشہور ہیں، ایمل پبلیکیشیز۔اسلام آباد فون نمبر ۰۵۱۲۸۰۳۰۹۶ سے کہا: بھائی آپ کے مزاح نگارلکھاری ابو نشر صاحب جو اول و آخر سچے مسلمان، نظریہ پاکستان پر مر مٹنے والے او ر کھرے پاکستانی ہیں، نے اس کتاب میں مردوں اور زندوں کو جمع کر دیا ہے۔ حسبِ معمول کتاب نفیس گیٹ اپ کے ساتھ درآمد شدہ آف سیٹ کاغذ پر چھاپی گئی ہے۔ ہماری ناقص رائے کے مطابق اس کتاب کو کم از کم نظریہ پاکستان سے محبت کرنے والے پاکستانیوں کی لائبریریوں کا حصہ ضروربنناچاہیے۔اس کتاب میں شامل متذکرہ سب حضرات کے انچ ضرب انچ کے فوٹو سر ورق پر لگاکر ایک نئی جدت پیدا کی گئی ہے۔ سرے ورق کے نیچے ایک کونے میں ابو نثر صاحب کا مزاح بھرا فوٹو لگا کر واقعی ہی کتاب کو اسٹائلش بنا دیا گیا ہے ۔ویسے بھی ایمل پبلیکیشیز کی کتابیں اسٹائلش قسم کی ہوتی ہیں۔اور پھر کیا کہنا: ابو نثر صاحب کا کہ آپ نے مردوں اور زندوں کے ساتھ برابر کا انصاف کر کے ایک عظیم کام کیا ہے۔ رسم تو یہ ہے کہ جب لوگ مر جاتے ہیں تو لوگ ان کو تحریروں میں یا د کیا کرتے ہیں۔ شاید ایسے کسی موقعہ پر اس صدی کے عظیم مجدد سید مودودیؒ نے کسی ساتھی کی شکایت پر کسی کارکن کے لیے کہا تھا! بھائی یہ چلتے پھرتے آدمی ہیں کتابی آدمی(مرحوم) نہیں ہیں کہ لوگ ان کی تعریف ہی تعریف کریں۔ زندہ انسان ہیں۔ زندہ انسان جب کام کر رہا ہوتا ہے تو اُس سے غلطیاں بھی ہوتیں ہیں۔ شاید پنجابی کی یہ کہاوت بھی اس بات پر فٹ بیٹھتی ہے کہ مرے ہوئے بیٹے کی اتنی مو ٹی موٹی آنکھیں تھیں۔بہر حال اس کتاب میں ایک ہی جگہ پاکستان کے مشہور اُساتذہ،شاعروں دانشوروں،صحافیوں،سیاست دانوں ،علماء اور مزاح نگاروں کو پڑھ کر علم میں گراں قدر اضافہ ہوا۔ ساری کتاب کو پڑھنے کے بعد اس رائے پر پہنچا ہوں کہ ابو نثر صاحب اتنے بڑے مزاح نگار اور اتنے بڑے لوگوں سے ذاتی مراسم رکھنے کے باوجود کہیں بھی بڑ بولے نظر نہیں آئے ۔ بل کہ اپنی انکساری یا کم علمی کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں ایک د فعہ اُستادِ محترم سحر انصاری صاحب کی سفارشی پرچی لیکر نوکری کے لیے پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن کے مشہور پروگرام کسوٹی کے افتخار عارف صاحب کے پاس گئے توا نہوں نے کہا کہ کاپی رائٹر کا جاب کر لو گے۔ کاپی راٹر کو’’ نقل نویس‘‘ سمجھ کر منع کر دیا بعد میں اپنی کم علمی کا معلوم ہوا تو پیشمانی ہوئی کہ یہ تو تخلیقی کام تھا اور پیسے بھی خوب ملتے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو صرف اور صرف اپنے پسندیدہ کام سے ہی لگاؤ ہوتا ہے۔ وہ روز روز اسٹائل بدلنے والے نہیں ہوتے۔ ان کی نظر صرف پیسہ کمانے پر نہیں ہوتی ۔وہ اپنی واضع قطع اوراپنے خاندانی وقار کے لیے اپنا قیمتی وقت صرف کرتے رہتے ہیں ۔ ایسے ہی ابو نثر صاحب ہیں۔ ان کو جسارت میں جو بھی معاوضہ ملتا ہو گا اُس سے کئی گنا زیادہ کما سکتے ہیں مگر ان کا اپنی نظریاتی اخبار سے دلی لگاؤ ہے کہ وہ ایک عرصہ سے اس میں مزاح پر لکھ لکھ کر اس ملکِ پاکستان کے دکھی لوگوں کو مزاح کی پھل جھڑیوں کے ساتھ محظوظ کرتے رہتے ہیں۔میں ایک عام سا نیا نیا کالم نگار ہوں میر ا ابونثر صاحب سے کوئی تعارف نہیں ہے۔ میں اتنا جانتا ہوں کہ جسارت میں ان کے مزاضیہ کالم زیر و زبر کے عنوان کے تحت شائع ہوتے ہیں۔ اسی صفحہ پر میرے بھی کالم شائع ہوتے ہیں۔سچی بات ہے کہ میں نے طبیعتاً ابو نثر صاحب کے کالموں پر کبھی بھی زیادہ دھیان نہیں دیا اور ان کا کالم سرسری طور پر ہی د یکھا۔ ذہن میں انہیں صرف ایک عام سامزاقیا کالم نگارہی سمجھا۔ مگر میں نے جب ’’جو اکثر یاد آتے ہیں‘‘ کا سطر بہ سطر بغور مطالعہ کیا تو میں نے ابو نثرصاحب کو ایک عظیم انسان پایا اور انہیں زیادہ سے سمجھنے کا ذوق بڑھتا گیا۔ یہ جان کر ہماری غلط فہمی دور ہو گئی کہ ابو نثر صاحب عام سے کالم نگار نہیں ہیں۔ نہ ہی وہ عام سے مزاح نگار ہیں۔ بڑے بڑے مزاح نگاروں جیسے مزاح نگار ہیں جن پر انہوں نے اس کتاب پر قلم بھی اُٹھایا ہے۔ ایک اہل زبان علمی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ۔ان کا حلقہ احباب بہت ہی وسیع ہے۔ وہ صرف مزاح نگار نہیں ہیں بل کہ ان کے کالموں میں اکثرنظریہ پاکستان نظر آتا ہے۔ یہ جان کر بھی بے حدخوشی ہوئی کہ ابو نثر
صاحب شاعر بھی ہیں۔ بڑے بڑے مشاہروں میں بڑے بڑے شعرء کے ساتھ مل کر اپنا کلام سناتے رہے ہیں۔ بچوں کے لیے کہانیاں اور نظمیں بھی لکھتے رہے ہیں۔ بچوں کے کئی رسالوں میں بچوں کے لیے کہانیاں لکھتے رہے ہیں۔ کئی اخباروں اور رسائل میں بھی رہ چکے ہیں۔ابو نثر صاحب کے پاس معلومات کا ایک خزانہ ہے۔ اس کتاب میں ذکر کردہ عظیم ہستیوں کو ذاتی طور پر جانتے ہیں۔ کئی کے ساتھ ان کے ذاتی تعلوقات بھی ہیں۔ کئی نے ان کے اشعار سن کر ان کو داد بھی دی ہے۔ کئی نے ان کی تعریف بھی کی ہے۔ میرے نزدیک ابو نثر صاحب ایک عظیم انسان ہیں۔ مگر بُرا ہو اس امریکی فنڈدالیکٹرونک میڈیا کا کہ جس کی تشہیر سے بڑے بڑے نام نہاد عقلیت پسند، سیکولر، لیبرر اور دین بیزار نا اہل لوگ بھی اہل بن گئے ہیں مگر ابو نثر صاحب جیسے نظریہ اسلام اور نظریہ پاکستان کے دلدادہ لوگ اپنی انکسار ی کی وجہ سے گودھڑی میں چھپے لال کے مصداق مشہور نہ ہو سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ داد دیتا ہوں ایمل پبلیکیشز کے شاہد اعوان جیسے اصحاب کوکہ وہ ان گودھڑیوں میں چھپے لالوں کو ڈھونڈ دھونڈ کر قوم کے سامنے پیش کر رہے ہیں اور تواقع رکھتا ہوں کہ ان شاء اللہ آیندہ بھی پیش کرتے رہیں گے ۔میرے نزدیک یہی ’’ جو اکثر یاد آتے ہیں‘‘ کتاب کا تعارف ہے۔