پندرہ مارچ کومیری بیٹی کی رخصتی تھی جس کی بناپر دو ہفتے پہلے ہی کالم لکھنا چھوڑدیئے ۔وجہ یہ تھی کہ بیٹی سے بچھڑنے کاغم میرے پورے وجودپر حاوی ہوگیا ۔یہ ایک ماں ہی جان سکتی ہے کہ اپنی بیٹی کو’’پیادیس‘‘ بھیجنے کے بعد دِل کی کیاحالت ہوتی ہے ۔سچ کہاہے عباس تابش نے کہ
ایک مدت سے میری ماں نہیں سوئی تابش
میں نے اِک روز کہا تھا ، مجھے ڈر لگتا ہے
لیکن کیاکیجئے کہ رسمِ دُنیایہی ہے ،دستوربھی یہی اورمیرے دین کاحکم بھی یہی کہ بیٹیاں تو ہوتی ہی پرایادھن ہیں۔فرض کی ادائیگی کی خوشی کے ساتھ بچھڑنے کے غم کی تلاطم خیزموجوں نے دِل کی دُنیااجاڑ کے رکھ دی ۔سات سمندرپار جانے والی بیٹی کے سامنے توضبط کیے کھڑی رہی لیکن جب گھرپہنچی تو مہمانوں کی موجودگی کے باوجودضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے اورمیں جی بھرکے رودی ۔مجھے گھرکے درودیوار سے عجیب سی وحشت ٹپکتی ہوئی محسوس ہوئی اوریوں لگاکہ جیسے
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر
اداسی بال کھولے سو رہی ہے
دو ،تین دِن اسی کیفیت میں گزرے اورپھر جب طبیعت ذراسنبھلی توقلم تھا م لیاکہ قلم کاقرض ابھی باقی تھااور اُن اصحاب کابھی جوطوفانِ بادوباراں کی پرواہ کیے بغیرانتہائی خلوص سے اِس تقریب میں شریک ہوئے۔میں شکر گزارہوں محترم بھائی عطاء الحق قاسمی ،جناب مجیب الرحمٰن شامی ،بھائی رؤف طاہر ،محترم حفیظ اللہ نیازی ،محترم نجم ولی خاں، بھائی فرید احمد پراچہ، محترم احسان اللہ وقاص ،جسٹس(ر)ظفراقبال چودھری ، ناصرمحمودملک ،پی ایف یوجے کے محترم میاں رفعت قادری،محترمہ عمرانہ مشتاق ، پی ایف یوسی کے محترم عبد الماجدملک ،فرخ شہباز، نور الہدیٰ اوردیگر احباب کا جوبیٹی کے لیے اپنی ڈھیروں ڈھیر دعاؤں کے ساتھ پہنچے ۔محترم صدیق الفاروق ،الطاف حسن قریشی ،سجادمیر اور ارشادعارف کی راہ میں طوفانِ بادوباراں سدِسکندری بَن کرکھڑا ہوگیا لیکن اُن کی دعائیں ہم تک پہنچ گئیں ۔محترم بھائی لیاقت بلوچ صاحب نے ننکانہ صاحب سے فون کرکے بتایاکہ وہ بارش کے طوفان میں پھنسے ہوئے ہیں لیکن اُن کی دعائیں بیٹی کے ساتھ ہیں ۔شکرگزار ہوں ربِّ لَم یزل کی کہ جس نے ہمیں اِس فرض کی ادائیگی کے قابل بنایا اورایک دفعہ پھردِل کی گہرائیوں سے شکرگزار ہوں اُن تمام مہمانانِ گرامی کی جنہوں نے اِس تقریب میں شرکت فرمائی۔
پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیاسے ٹوٹارابطہ جب بحال ہواتوپتہ چلاکہ پاکستانی سیاست میں کئی طوفان آکر گزرچکے ، ایم کیوایم کے مرکزی دفترنائین زیروپر رینجرزنے چھاپامار کربہت ساجدیدترین اسلحہ برآمدکیا اورسینکڑوں کارکُن گرفتارہوئے ۔رینجرزکو قتل کی دھمکیاں دینے پرالطاف حسین کے خلاف کرنل طاہرمحمودکی تحریری درخواست پردہشت گردی کامقدمہ درج ہواجس پرجنابِ آصف زرداری نے ایم کیوایم کوصوبائی حکومت میں شامل کرنے کافیصلہ کرتے ہوئے فرمایا’’پیپلزپارٹی کڑے وقت میں ایم کیوایم کوتنہا نہیں چھوڑے گی‘‘۔ لیکن سارامعاملہ اُلٹ پلٹ تواُس وقت ہواجب پھانسی سے چندگھنٹے قبل ایم کیوایم کے ٹارگٹ کلرصولت مرزاکا ویڈیوبیان الیکٹرانک میڈیاکی زینت بنا۔اپنے بیان میں صولت مرزانے ایم کیوایم کے قائدالطاف حسین صاحب کوموردِالزام ٹھہراتے ہوئے کہاکہ اُس نے سارے قتل الطاف حسین کے حکم پرکیے اورالطاف حسین صاحب کی طرف سے سارے احکامات بابرغوری صاحب کے ذریعے ملاکرتے تھے ۔صولت مرزانے یہ بھی کہاکہ وہ پھانسی کی سزاسے معافی کاخواست گارنہیں لیکن اتناضرور چاہتاہے کہ اُس کی پھانسی کچھ عرصے کے لیے مؤخرکی جائے تاکہ وہ سارے رازافشاء کرکے اپنے گناہوں کا بوجھ کچھ ہلکاکرسکے ۔الطاف بھائی اورایم کیوایم کے اکابرین نے تواِن الزامات کوجھوٹ کاپلنداقرار دیالیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ الزامات نئے نہیں بلکہ اِن کی بازگشت توگزشتہ دوعشروں سے جاری ہے اور ہم تواپنے کئی کالموں میں متحدہ کے عسکری ونگزکا ذکربھی کرچکے ۔حقیقت یہی ہے کہ پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیاکے بہت سے احباب ایم کیوایم کی سرگرمیوں سے واقف ہیں لیکن اِن کاذکر کرتے ہوئے اُن کے قلم تھرتھرانے لگتے ہیں اور زبانوں پر لکنت طاری ہوجاتی ہے لیکن اب شایدوہ وقت آن پہنچاہے جب دودھ کادودھ اورپانی کاپانی ہوکر رہے گا ۔
وزارتِ داخلہ نے صولت مرزا کی پھانسی کو90 روزتک مؤخرکرنے کی سمری ایوانِ صدربھیج دی ہے جس پرتاحال کوئی فیصلہ نہیں ہوا ۔صولت مرزاکو تواُس کے گناہوں کی سزاملنی ہی چاہیے ،آج نہیں تو 90 روزبعد سہی لیکن اگراِس معاملے کی تہ تک نہ پہنچاگیا توایسے صولت مرزاپیدا ہوتے ہی رہیں گے اورروشنیوں کا شہرکراچی خونم خون ہی رہے گا۔آج اگرحکومت اورفوج کراچی کی روشنیاں لوٹانے کے لیے ڈٹ چکے ہیں تو پھراُن کے بڑھتے ہوئے قدم رکنے نہیں چاہییں ۔ویسے حالات سے تویہی اندازہ ہوتاہے کہ اب کچھ نہ کچھ ہوکر ہی رہے گاکیونکہ شاطرانہ چالوں کے ماہرجناب آصف زرداری بھی اُلٹے پاؤں پھِر گئے اور پیپلزپارٹی کے اکابرین الیکٹرانک میڈیاپر زوروشورسے یہ بیانات دینے شروع کردیئے کہ جنابِ آصف زرداری نے تویہ کہاہی نہیں کہ ’’پیپلزپارٹی کڑے وقت میں ایم کیوایم کوتنہا نہیں چھوڑے گی‘‘۔اب تونوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ پیپلزپارٹی نے جنابِ آصف زرداری کی ہدایت پراب متحدہ قومی موومنٹ کی سندھ حکومت میں شمولیت کافیصلہ بھی مؤخر کردیاہے ۔اُدھر پرویزمشرف بھی اپنے ’’طبلے سارنگی‘‘کے ساتھ میدان میں اُتر آئے اوراُس سیاسی جماعت پربرس پڑے جسے وہ مُکّے لہرالہرا کراپنا دست وبازو قراردیتے رہے ۔اُنہوں نے کہا’’ایم کیوایم پردہشت گردی پھیلانے کاتاثر پورے ملک میں تقویت حاصل کرچکاہے ۔ میں نے اپنے دَورِحکومت میں ایم کیوایم کوبہت سمجھایاتھا جبکہ آج کل بہت کنفیوژن ہے ۔الطاف حسین کواِس بارے میں سوچنا ہوگاکہ ایم کیوایم پردہشت گردی کی چھاپ لگ چکی ہے ۔پنجاب ،سرحد ،ہرجگہ یہی تاثرہے ‘‘۔ملک میں تیسری سیاسی قوت کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں پرویزمشرف صاحب نے کہا ’’پیپلزپارٹی اورنوازلیگ چار، چاربار اقتدارحاصل کرچکے اوریوں ملک کابیڑا غرق ہوگیا ۔اب ایک نئی فورس کی ضرورت ہے اورمیں خودکو ایک بڑے رول کے حوالے سے دیکھ رہاہوں‘‘۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر پرویزمشرف صاحب کچھ محنت کریں تو’’طبلے سارنگی‘‘کے حوالے سے تواُن کاکوئی بڑارول ہوسکتاہے لیکن ملک کی خدمت کے حوالے سے نہیں کیونکہ اپنے دَورِ حکومت میں وہ ملک وقوم کی جو ’’خدمت‘‘کر چکے ہیں وہ کئی دہائیوں کے لیے کافی ہے ۔