تحریر۔۔۔ یاسراعوان
تنقید جمہوریت کا حسن ہے ۔جمہوریت میں حزبِ اختلاف حکومت کی منفی کاروائیوں اور ان کے منفی رویوں کو راہِ راست پر رکھنے کے لئے تنقیدی پالیسی اپناتی ہے۔ جس ملک میں تمام سیاسی پارٹیاں ایک ہی موقف رکھتی ہوں وہ ایک دوسرے کی خامیوں پر عموماً پردہ ڈال دیتی ہیں۔
موجودہ سیاسی نظام میں اگر تمام سیاسی ڈھانچے کا بغور مطالعہ کیا جائے تو حزبِ اقتداریعنی نون لیگ کی خامیوں اور منفی کارواؤں کو راہِ راست پر رکھنے کے لئے تحریکِ انصاف تنقیدی پالیسی اپنا ئی۔
پچھلے تقریباً دو سال میں حکومت کی کارکردگی پر نظر ڈالی جائے تو کوئی خاطر خواہ اقدامات سامنے نہیں آئے تھے ماسوائے چند ایک کے جس میں میٹرو منصوبہ اور ملک میں شاہراہ کی نئے سرے سے مرمت شامل تھے ان پر بھی بڑی سست روی سے عمل درآمد جاری تھا۔تحریک انصاف کی وجہ سے گزشتہ تین چار ماہ سے حکومت تمام اداروں پر چیک اینڈ بیلنس رکھے ہوئے نظر آتی ہے۔نئی بھرتیوں کا عمل بھی شروع کر رہی ہے۔تعلیم پر بھی توجہ دے رہی ہے۔ سکولوں اور کالجز میں ماسٹرز ،ہیڈ ماسٹرز اور پروفیسرز کی حا ضریوں کو بھی یقینی بنانے پر زور دے رہی ہے۔اسکے علاوہ صحت پر بھی زور دے رہی ہے۔پولیوسے بچاؤ کی مہم گھر گھر جاری ہے۔ اور پٹرولیم کی قیمتوں میں بھی کمی ہوئی ہے۔اگرچہ عالمی منڈی میں ہی قیمتوں میں کمی سہی لیکن کریڈت ان کے حصے میں ہی آتا ہے۔اسکے علاوہ پی ، ٹی ،اے کی خصوصی ہدایت پر تمام کمپنیوں کی سمز کو نام پر کروانے کا عمل تیزی سے جاری ہے ۔جو کہ دہشت گردی کو روکنے میں معاون ثابت ہو گا۔اس کے علاوہ نادرہ جعلی شناختی کارڈ جاری کرنے پر سخت نوٹس جاری کیے۔تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ملک آہستہ آہستہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو رہا ہے اس لئے مخالف پارٹیاں روایت سے خاموش نظر آتی ہیں۔
ایک سال اگر پیچھے چلے جائیں تو اتنی تیزی سے کام نہیں ہورہے تھے جتنی تیزی سے اب ہو رہے ہیں۔اب جب عوامی تحریک اور تحریک انصاف نے اپنی سیاسی سرگرمیاں تیز کیں تو حکومت نے سوشل اور فلاحی کاموں پر ذور دینا شروع کیا۔جو کہ حکومت کو پہلے کرنا چائیے تھاکیوں کہ جس ریاست کو اپنی عوام کے حقوق کا خیال نہیں وہ کیا سوشل اسٹیٹ ہو گی؟
تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے آنے سے عوام کو اپنی آواز بلند کرنے کے لئے ایک راستہ ملا ہے ۔اپنے حقوق طلب کرنے کا موقع ملا ہے ،حکومت کو اپنے فرائض پورے کرنے پر اکسانے کے لئے ایک لیڈرشپ ملی ہے۔وی آئی پی کلچر ختم کرنے کی بنیاد ڈال دی گءئی ہے۔عوام کو سر اٹھانے کا موقع ملا ہے۔ یہی جمہوریت کا حسن ہے۔دراصل عوام ہی طاقت کا سرچشمہ ہوتے ہیں اگر ان کے پاس لیڈر شپ ہو تو۔۔۔
اگر ہم اپنے چھوٹے چھوٹے ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر اجتماعی مفادات کے بارے میں سوچیں توملک میں بہت بڑی تبدیلی کا امکان ہے لیڈران کی درست سلیکشن،چناؤ ہی ہمارے ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے ۔خدا ہمارا حامی و ناصر ہو ۔آمین