تحریر ۔۔۔ شاہد شکیل ۔۔۔جرمنی
تعلیم کا اہم ترین مقصد ہے انسان کو باشعور بنا نا تاکہ وہ دوسرے انسانوں میں مل جل کر رہے نفرت ،اشتعال ،مسابقتی اور معاندانہ جذبات کی بجائے امدادِباہمی پیدا ہو،بلاشبہ موجودہ دور میں ایک ٹیچر جانتا ہے کہ اس کے شاگرد وں کی ذہنی صلاحیت کیا ہے وہ کتنا سیکھ چکے ہیں اور ان کو دی جانے والی تعلیم و دیگر معلومات کو کس طرح ان کے ماحول اور دورِ جدید سے مربوط کرنا چاہئے،تعلیم کا مقصد نہ صرف اوپر بیان کئے گئے ان چند الفاظ پر عمل کرنا بلکہ استفادہ کرنا مثلاً سائنسی ایجادات میں شراکت داری بھی اہم جز ہے یہی وجہ ہے کہ ایک غیر تعلیم یافتہ انسان سائنسی ترقی کو مانتا ہے لیکن مصصم یقین نہیں رکھتاجبکہ تعلیم یافتہ افراد سائنس کو تحقیق اور ایجادات گردانتے ہوئے مکمل یقین رکھتے اور انسانی ترقی کی راہ میں ایک آعلیٰ درجہ دیتے ہیں۔اگرچہ سائنس نے برق رفتاری سے اپنا مقام بنا لیا ہے اور مزید تجربات و ایجادات کی طرف گامزن بھی ہے لیکن اسی سائنس کے کرشمات کی بدولت دنیا بھر میں انسانوں کیلئے ایک طرف آسانیاں اور دوسری طرف بے شمار مصیبتیں اور پریشانیاں بھی پیدا ہوئیں ہیں اور ان گنت افراد کئی بیماریوں میں مبتلا ہونے کے علاوہ موت کا شکار بھی ہو چکے ہیں،باوجود ماہرین کی پیش گوئیوں کے کہ دور جدید میں میڈیا کی تیز رفتاری دو طرفہ کردار ادا کر تی ہے ایک طرف ترقی اور انسانی ذہن کیلئے کئی ایجادات مثبت اور دوسری طرف اسی تیزرفتار میڈیا کی بدولت منفی اثرات بھی پیدا ہو رہے ہیں مثلاً ٹیلی ویژن یا سمارٹ فونز کو انسان اور بالخصوص بچوں کیلئے نہایت خطرناک کونزیوم قرار دیا ہے ان دونوں آلات سے پیدا ہونے والی برقی و مقناطیسی لہریں کینسر جیسی جان لیوا بیماری میں مبتلا کرتی ہیں،ٹیلی ویژن اور سمارٹ فونز کے منفی اثرات پر دنیا بھر میں تحقیق کی گئی اور جاری ہے ،ماہرین کا کہنا ہے کہ جو بچے بہت زیادہ ٹی وی دیکھتے ہیں انہیں تعلیم حاصل کرنے میں دشواری پیش آتی ہے اور اکثر اچھے مارکس یا تعلیمی سرٹیفیکیٹ حاصل نہیں کر پاتے اور اُن بچوں کی تعلیم اور مستقبل کیلئے انتہائی خطرناک قرار دیا ہے جن کے والدین نے ان بچوں کے کمروں میں ٹی وی رکھے ہوئے ہیں ماہرین نے یہاں تک کہا ہے کہ زیادہ ٹی وی دیکھنے سے بچے بے وقوف ہو نے کے علاوہ انکی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
امریکی اکیڈمی برائے شعبہ اطفال نے ایک رپورٹ میں بتایا کہ زیادہ ٹی وی دیکھنے سے وزن میں اضافہ ہوتا اور ذیابیطس ٹائپ ۔۲ کا سبب بنتا ہے،بچوں میں جارحیت پیدا ہوتی ہے ،پرائمری سکول کی تعلیم حاصل کرنے تک اگر بچے تشدد سے بھرپور پروگرامز جن میں نیوز وغیرہ بھی شامل ہیں تو وہ مخصوص عمر سے پہلے ہی تمباکو نوشی اور دیگر منشیات کے علاوہ جنسی جرائم کی طرف راغب ہو سکتے ہیں،نیوزی لینڈ کی یونیورسٹی آف اوٹیگو کے ایک پروفیسر نے انیس بہتر اور انیس سو تیراسی کے عشروں میں پیدا ہونے والے تقریباً ایک ہزار افراد کا مشاہدہ کرنے کے بعد ایک میڈیا میگزین کو بتایا کہ یہ افراد پانچ، سات ،نو ، گیارہ ، تیرہ اور پندرہ سال کی عمر تک بہت زیادہ ٹی وی دیکھتے رہے اور آج اس کے نتائج سامنے آئے کہ ان میں سے کوئی میٹرک تک بھی تعلیم حاصل نہ کر سکا، جے ہوپکنس بلوم برگ آف پبلک ہیلتھ بالٹی مور میں ایک نئی تحقیق کے بعد پتہ چلا کہ جو افراد بالخصوص بچے زیادہ ٹی وی دیکھتے ہیں وہ مطالعہ کے علاوہ ریاضی میں کمزور ہوتے ہیں،یونیورسٹی آف
واشنگٹن کے پروفیسر فریڈرک سِمر مین نے بتایا کہ بچوں کے پہلے پانچ سال میں زیادہ ٹی وی دیکھنے سے پرائمری سکول میں ریاضی اور مطالعہ میں دشواری پیش آتی ہے کئی بچے فیل ہو جاتے ہیں اور دوبارہ کلاس جوائن کرنا پڑتی ہے،جرمن سائنسدانوں نے دو ہزار چار میں تجزیہ کرنے کے بعد نتیجہ اخذ کیا کہ بچے اور خاص طور پر نوجوان لڑکے زیادہ ٹی وی دیکھنے اور کومپیوٹر استعمال کرنے سے دماغی نقصانات کا شکار ہوتے ہیں،ماہرین کا کہنا ہے حقیقت یہ ہے کہ ٹی وی، ویڈیو گیمز ، کمپیوٹر اور بالخصوص سمارٹ فونز بچوں اور نوجوان طبقے کی صحت پر بری طرح اثر انداز ہوتے ہیں جس کے نتائج واضح ہیں کہ وہ ہوم ورک پر توجہ نہیں دیتے ، بینائی کمزور ہوتی ہے اور تعلیم میں خلل پڑتا ہے،جرمن ہیلتھ انسٹیٹیوٹ نے والدین سے گزارش کی ہے کہ بچوں کو ایک گھنٹے سے زائد ٹی وی دیکھنے پر پابندی عائد کریں ہوم ورک کرتے ہوئے انہیں ڈسٹرب نہ کیا جائے اور سونے سے پہلے ٹی وی اور کمپیوٹر کے استعمال سے ممنوع قرار دیا ہے، کیونکہ میڈیا کا عمل تیز رفتار ہوتااور تعلیم کا آہستہ ہوتا ہے اور تیز رفتاری ذہن کو مسلسل دباؤ میں لاتی ہے علاوہ ازیں تجارتی اشتہارات بچوں کے ذہن کو تخیل میں کھونے میں منفی کردار ادا کرتے ہیں،الیکٹرونک گیمز کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ نوجوان خطرناک اعمال کے عادی ہو جاتے ہیں گیمز سے جو کچھ وہ سیکھتے ہیں اس کا روزمرہ زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور مختلف ہنگامی حالات کا شکار ہو کر ذہنی دباؤ میں آتے ہیں اور انہیں اعمال کو دہراتے ہیں اور اسکے نتائج عام طور پر نہایت خطرناک ہوتے ہیں مثلاً امریکا میں کئی بار ایسا ہوا کہ نوجوان بھرا پستول یا شاٹ گن لے کر کلاس روم میں داخل ہوا اور بغیر کسی رنجش کے اشتعال میں آکر اپنے ساتھیو ں کو گولیوں سے بھون ڈالاحالانکہ اس سے پہلے اس نے کبھی پسٹل یا ریوولور نہیں چلایا قتل وغارت کی یہ تعلیم اس نے اسی گیمز سے حاصل کی۔
سمارٹ فونز۔ماہرین نے سمارٹ فونز بچوں کیلئے انتہائی خطرناک قرار دیا ہے کیونکہ اس سے برآمد ہونے والی ریڈیو ایکٹو لہریں موت سے ہمکنار کر سکتی ہیں تحقیق کے مطابق سمارٹ فونز کے استعمال سے کئی افراد جلد کے کینسر میں مبتلا ہو چکے ہیں ،ماہرین کا کہنا ہے نظر نہ آنے والی ان برقی و مقناطیسی لہروں کو مذاق نہ سمجھا جائے ،تحقیق کے مطابق جو افراد ریڈار مشینوں پر کام کرتے ہیں ایکسرے کے بعد کینسر کے مرض میں مبتلا ہو جاتے ہیں برقی لہریں جنہیں یو ۔وی کہا جاتا ہے صحت کے لئے شدید خطرہ ہیں،ماہر اطفال کا کہنا ہے سمارٹ فونز اینڈ کمپنی وغیرہ بچوں کے کھیلنے یا دل بہلانے کا کھلونا نہیں بلکہ موت کی علامت ہے۔
گزشتہ دنوں فیس بک پر ایک پاکستانی نے اپنی مردہ بیٹی کے ساتھ تصویر اپ لوڈ کی اور تحریر کیا۔یہ پیاری بچی بجلی کا کرنٹ لگنے سے فوت ہو چکی ہے کیونکہ اس پیاری بچی نے موبائل چارجر کی پن اپنے منہ میں ڈال لی تھی اور وہ چارجر بجلی کے بورڈ سے منسلک تھا آپ سب سے گزارش ہے کہ برائے مہربانی ایسی چیزیں بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں اور اس معلومات کو زیادہ سے زیادہ شئیر کریں۔
ماہرین کی ممکنہ تمام تفصیلات تحریر کر چکا ہوں ،فیس بک پر اپ لوڈ کی ہوئی تصویر دکھانے سے قاصر ہوں،لیکن کوشش کیجئے کہ ٹی وی ، الیکٹرونک گیمز ، کمپیوٹر اور خاص طور پر سمارٹ فونز اور آئی پیڈ وغیرہ بچوں سے دو ر رکھیں نہیں تو۔۔۔۔