لاہور صوبہ پنجاب (پاکستان) کا دارالحکومت اور پاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ یہ پاکستان کا ثقافتی، تعلیمی اور تاریخی مرکز ہے۔ اسے پاکستان کا دل بھی کہتے ہیں۔ یہ شہر دریائے راوی کے کنارے واقع ہے۔ اس شہر کی کل آبادی تقریباً سوا کروڑ کے قریب ہے۔اور کل رقبہ تقریباً684مربع میل یعنی 1772 مربع کلو میٹر ہے۔ سطح سمندر سے اِس شہر کی بلندی 217 میٹر یعنی 712 فٹ ہے۔ اس کے متناسقات 3117632’59”این7417620’37”ای ہیں۔شاہی قلعہ، شالامار باغ، بادشاہی مسجد، مقبرہ جہانگیر اور مقبرہ نور جہاں مغل دور کی یادگار ہیں۔ سکھ اور برطانوی دور کی بھی تاریخی عمارتیں موجود ہیں۔بھارت کا شہر امرتسر، لاہور سے صرف 31 میل یعنی 50کلومیٹر کے فاضلے پر واقع ہے جو کہ سکھوں کی مقدس ترین جگہ ہے۔لاہور کے بارے میں سب سے پہلے چین کے باشندے سوزو زینگ نے لکھا ، جو ہندوستان جاتے ہوئے لاہور سے 630 ء میں گزرا۔ اس شہر کی ابتدائی تاریخ کے بارے میں عوام میں مشہور ہے (لیکن اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے )کہ رام چندر جی کے بیٹے “لوہو” نے یہ بستی آباد کی تھی۔ قدیم ہندو “پرانوں” میں لاہور کا نام “لوہ پور” یعنی لوہ کا شہر ملتا ہے۔ راجپوت دستاویزات میں اسے “لوہ کوٹ” یعنی لوہ کا قلعہ کے نام سے پکارا گیا ہے۔ نویں صدی عیسوی کے مشہور سیاح “الادریسی” نے اسے “لہاور” کے نام سے موسوم کیا ہے۔ یہ قدیم حوالہ جات اس بات کے غماز ہیں کہ اوائل تاریخ سے ہی یہ شہر اہمیت کا حامل تھا۔ درحقیقت اس کا دریا کے کنارے پر اور ایک ایسے راستے پر جو صدیوں سے بیرونی حملہ آوروں کی رہگزر رہا ہو، واقع ہونا اس کی اہمیت کا ضامن رہا ہے۔”فتح البلادن” میں درج 664 ء کے واقعات میں لاہور کا ذکر ملتا ہے جس سے اس کی اہمیت کا واضح ہوتی ہے۔
ساتویں صدی عیسوی کے آخر میں لاہور ایک راجپوت چوہان بادشاہ کا پایہ تخت تھا۔ فرشتہ کے مطابق 682 ء میں کرمان اور پشاورکے مسلم پٹھان قبا ئل راجہ پر حملہ آور ہوئے۔ پانچ ماہ تک لڑائی جاری رہی اور بالآخر سالٹ رینج کے گکھڑ راجپوتوں کے تعاون سے وہ راجہ سے اس کے کچھ علاقے چھیننے میں کامیاب ہو گئے۔ نویں صدی عیسوی میں لاہور کے ہندو راجپوت چتوڑ کے دفاع کے لئے مقامی فوجوں کی مدد کو پہنچے۔دسویں صدی عیسوی میں خراسان کا صوبہ دارسبکتگین اس پر حملہ آور ہوا۔ لاہور کا راجہ جے پال جس کی سلطنت سرہند سے لمگھان تک اور کشمیر سے ملتان تک وسیع تھی مقابلہ کے لئے آیا۔ایک بھٹی راجہ کے مشورے پر راجہ جے پال نے پٹھانوں کے ساتھ اتحاد کر لیا اور اس طرح وہ حملہ آور فوج کو شکست دینے میں کامیاب رہا۔ غزنی کے تخت پر قابض ہونے کے بعد سبکتگین ایک دفعہ پھر حملہ آور ہوا۔ لمگھان کے قریب گھمسان کا رن پڑا اور راجہ جے پال ملغوب ہو کر امن کا طالب ہوا۔ طے یہ پایا کہ راجہ جے پال تاوان جنگ کی ادائیگی کرے گا اور سلطان نے اس مقصد کے لئے ہرکارے راجہ کے ہم رکاب کئے۔ لاہور پہنچ کر راجہ نے معاہدے سے انحراف کیا اور سبکتگین کے ہرکاروں کو مقید کر دیا۔ اس اطلاع پر سلطان غیض وغضب میں دوبارہ لاہور پر حملہ آور ہوا۔ ایک دفعہ پھر میدانِ کارزار گرم ہوا اور ایک دفعہ پھر جے پال کو شکست ہوئی اور دریائے سندھ سے پرے کا علاقہ اس کے ہاتھ سے نکل گیا۔ دوسری دفعہ مسلسل شکست پر دلبرداشتہ ہو کر راجہ جے پال نے لاہور کے باہر خود سوزی کر لی۔ معلوم ہوتا ہے کہ سلطان کا مقصد صرف راجہ کو سبق سکھانا تھا کیونکہ اس نے مفتوحہ علاقوں کو اپنی سلطنت میں شامل نہیں کیا اور 1008ء میں جب سبکتگین کا بیٹا محمود ہندوستان پر حملہ آور ہوا تو جے پال کا بیٹا آنند پال ایک لشکر جرار لے کر پشاور کے قریب مقابلہ کے لئے آیا۔ محمود کی فوج نے آتش گیر مادے کی گولہ باری کی جس سے آنند پال کے لشکر میں بھگدڑ مچ گئی اور ان کی ہمت ٹوٹ گئی۔ نتیجتاًکچھ فوج بھاگ نکلی اور باقی کام آئی۔ اس شکست کے باوجود لاہور بدستور محفوظ رہا۔ آنند پال کے بعد اس کا بیٹا جے پال تخت نشین ہوا اور لاہور پر اس خاندان کی عملداری 1022 ء تک برقرار رہی حتیٰ کہ محمود اچانک کشمیر سے ہوتا ہوا لاہور پر حملہ آور ہوا۔ جے پال اور اس کا خاندان اجمیر پناہ گزین ہوا۔ اس شکست کے بعد لاہور غزنوی سلطنت کا حصہ بنا اور پھر کبھی بھی کسی ہندو سلطنت کا حصہ نہیں رہا۔محمود کے پوتے مودود کے عہدِ حکومت میں راجپوتوں نے شہر کو واپس لینے کے لئے چڑھائی کی مگر چھ ماہ کے محاصرے کے بعد ناکام واپس ہوئے۔ لاہور پر قبضہ کرنے کے بعد محمود غزنوی نے اپنے پسندیدہ غلام ملک ایاز کو لاہور کا گورنر مقرر کیا جِس نے شہرکے گرد دیوار قائم کرنے کے ساتھ ساتھ قلعہ لاہور کی بھی بنیاد رکھی۔ شہر کے گرد تعمیر بلند بالا دیوار میں تیرہ دروازے رکھے گئے۔ جن کے نام دہلی دروازہ، اکبری دروازہ، شاہ عالمی دروازہ، لوہاری دروازہ، بھاٹی دروازہ، ٹکسالی دروازہ، روشنائی دروازہ، مستی دروازہ، کشمیری دروازہ، خضری دروازہ، ذکی المعروف یکی دروازہ، شیراں والا دروازہ اور موری دروازہ ہیں۔ ملک ایاز کا مزار آج بھی بیرون ٹکسالی دروازہ لاہور کے پہلے مسلمان حکمران کے مزار کے طور پر جانا جاتا ہے۔ غزنوی حکمرانوں کے ابتدئی آٹھ حکمرانوں کے دور میں لاہور کا انتظام صوبہ داروں کے ذریعہ چلایا جاتا تھا تاہم مسعود ثانی کے دور میں(1098-1114ء) دارالحکومت عارضی طور پر لاہور منتقل کر دیا گیا۔اس کے بعد غزنوی خاندان کے بارہویں تاجدار خسرو کے دور میں لاہور ایک دفعہ پھر پایہِ تخت بنا دیا گیا اور اس کی یہ حیثیت 1186ء میں غزنوی خاندان کے زوال تک برقرار رہی۔ غزنوی خاندان کے زوال کے بعد غوری خاندان اور خاندانِ غلاماں کے دور میں لاہور سلطنت کے خلاف سازشوں کا مرکز رہا۔ درحقیقت لاہور ہمیشہ پٹھانوں کے مقابلہ میں مغل حکمرانوں کی حمایت کرتا رہا۔1241 ء میں چنگیز خان کی فوجوں نے سلطان غیاث الدین بلبن کے بیٹے شہزادہ محمد کی فوج کو راوی کے کنارے شکست دی اور حضرت امیر خسرو کو گرفتار کیا۔ اس فتح کے بعد چنگیز خان کی فوج نے لاہور کو تاراج کر دیا۔
خلجی اور تغلق شاہوں کے ادوار میں لاہور کو کوئی قابلِ ذکر اہمیت حاصل نہ تھی اور ایک دفعہ گکھڑ راجپوتوں نے اسے لوٹا۔ 1397ء میں امیر تیمور برصغیر پر حملہ آور ہوا اور اس کے لشکر نے لاہور فتح کیا۔ تاہم اپنے پیشرو کے برعکس امیر تیمور نے لاہور کو تاراج کرنے سے اجتناب کیا اور ایک افغان سردار خضر خان کو لاہور کا صوبہ دار مقرر کیا۔اس کے بعد سے لاہور کی حکومت کبھی حکمران خاندان اور کبھی گکھڑ راجپوتوں کے ہاتھ رہی یہاں تک کہ 1436 ء میں بہلول خان لودھی نے اسے فتح کیا اور اسے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ بہلول خان لودھی کے پوتے ابراہیم لودھی کے دورِ حکومت میں لاہور کے افغان صوبہ دار دولت خان لودھی نے علمِ بغاوت بلند کیا اور اپنی مدد کے لئے مغل شہزادے بابر کو پکارا۔تاریخ گواہ ہے کہ لاہور کو پہلے عروس البلد لاہور بھی کہتے تھے۔ اور یہ علاقہ ملتان کی عظیم سلطنت کا حصہ ہوتا تھا۔ اور اس وقت ملتان کی حدود ساحل سمندر تک پھیلی ہوئی تھی۔
بابر پہلے سے ہی ہندوستان پر حملہ کرنے کے بارے میں سوچ رہا تھا اور دولت خان لودھی کی دعوت نے اس پر مہمیز کا کام کیا۔ لاہور کے قریب بابر اور ابراہیم لودھی کی افواج میں پہلا ٹکراؤ ہوا جس میں بابر فتح یاب ہوا تاہم صرف چار روز کے وقفہ کے بعد اس نے دہلی کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔ ابھی بابر سرہند کے قریب ہی پہنچا تھا کہ اسے دولت خان لودھی کی سازش کی اطلاع ملی جس پر وہ اپنا ارادہ منسوخ کر کے لاہور کی جانب بڑھا اور مفتوحہ علاقوں کو اپنے وفادار سرداروں کے زیرِانتظام کرکے کابل واپس ہوا۔ اگلے برس لاہور میں سازشوں کا بازار گرم ہونے کی اطلاعات ملنے پر بابر دوبارہ عازمِ لاہور ہوا۔ مخالف افواج راوی کے قریب مقابلہ کے لئے سامنے آئیں مگر مقابلہ شروع ہونے سے پہلے ہی بھاگ نکلیں۔ لاہور میں داخل ہوئے بغیر بابر دہلی کی طرف بڑھا اور پانی پت کی لڑائی میں فیصلہ کن فتح حاصل کرکے دہلی کے تخت پر قابض ہوا۔ اس طرح ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کی ابتداء لاہور کے صوبہ دار کی بابر کو دعوت سے ہوئی۔
شہنشاہ جہانگیر کے زمانے میں بھی سکھ مت اتنا واضح اور الگ مذہب نہیں بنا تھا لیکن آثار نمایاں ہونے لگے تھے کہ اب سکھ مغلیہ سلطنت کے مرکز برائے پنجاب یعنی لاہور کے بجائے امرتسر کی جانب دیکھنے لگے تھے ۔ سکھ ذرائع کے مطابق شہنشاہ جہانگیر کے کہنے پر ادی گرنتھ میں ترامیم سے گرو ارجن کے انکار پر ، اس نے خسروکو امداد فراہم کرنے کا بہانا بنا کر ان کو قتل کروا دیا تھا اور اس بات نے ان کے بیٹے اور چھٹے گرو ہرگوبند (1595ء تا 1644ء) کو عسکری طاقت کی جانب مائل کردیا تھا جس کے ردعمل کے طور پر جہانگیر نے ایک بار امرتسر سے ہرگوبند کو گرفتار بھی کیا لیکن پھر آزاد کردیا۔ ہرگوبند نے مغلیہ سلطنت کو ناجائز قرار دے کر اپنے پیروکاروں کو اسے تسلیم کرنے سے منع کردیا تھا اور گرو کو خدا کی جانب سے دی جانے والی سلطنت کو جائز قرار دیا۔ شاہجہان کے دور (1628ء تا 1658ء ) میں رام داس پور (امرتسر) پر حملہ کیا گیا اور ہرگوبند نے امرتسر سے بھاگ کر کرتار پور میں سکونت اختیار کی۔ اورنگزیب کے تبدیل ہوتے ہوئے کردار نے مختلف واقعات کو جنم دیا جن میں سے ایک سکھوں سے معاملات کا واقع بھی ہے جس میں محصول یا جزیہ پر ہونے والی معاشیاتی کشمکش کو مذہب اور خودمختاری سے جوڑ دیا گیا۔ تیغ بہادر کے قتل کو متعدد تاریخی دستاویزات میں سکھ مسلم ناچاقی یا نفرت کا آغاز کہا جاتا ہے ۔
لاہور کے اسلامی مراکزمیں لاہور کی مسجدیں، مزارات، مدرسے و اسلامی علوم کی درسگاہیں مشہور ہیں۔ ابتداسے ہی لاہور علم اور عمل کا مرکز رہا ہے۔ مسلمانوں کی آمد کے ساتھ ہی بڑے بڑے علماء اور مشایخ نے لاہور میں تبلیغ دین کے لیے سفر کئے۔ سید علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش ؒ کا مزار داتا دربار بہت مشہور ہے۔اسلامی علوم کی درسگاہیں و جامعات میں بادشاہی مسجد لاہور، مرکزسراجیہ، جامعہ اشرفیہ، جامعیہ مدنیہ (کریم پارک)، جامعہ ہجویریہ (داتا دربار کے ساتھ منسلک ایک مسجد و جامعہ)، جامع المنتظر(اہل تشیع کی مرکزی مسجد و جامعہ) اور جامعہ اسلامیہ رضویہ قابلِ ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ غیر مسلموں کے مقدس مقامات بھی بے شمار ہیں۔ کنہیالال لکھتا ہے کے پرانی عمارات کے مندر اور ہندؤ وں کی عبادت گاہیں بہت ہیں جن کا شمار نہیں ہو سکتا۔چھوٹے چھوٹے شوالے و ٹھاکر دوارے و دیوی دوارے بے شمار ہیں۔ جن میں شوالہ باواٹھاکرگر، شوالہ راجہ دینا ناتھ راجہ کلانور، شوالہ بخشی بھگت رام، مکان دھرم سالہ بابا خدا سنگھ، ٹھاکر دوارہ راجہ تیجا سنگھ،شوالے گلاب رائے جمعدار، کرشنا مندر اور والمیکی کا مندر قابلِ ذکر ہیں۔ کرشنا مندر اور والمیکی کے مندر میں اب بھی عبادت ہوتی ہے۔ سکھوں کے مقدس مقامات میں مڑی رنجیت سنگھ، سمادھ مہاراجہ رنجیت سنگھ، گردوارہ ڈیرہ صاحب، گردوارہ کانھ کاچھ، گردوارہ شہید گنج اور جنم استان گرو رام داس قابلِ ذکر ہیں۔
لاہور کے مشہور علاقوں میں گلبرگ، باٹاپور، اچھرہ، سمن آباد، ماڈل ٹاؤن، مسلم ٹاؤن، ٹاؤن شپ، گوالمنڈی، کھاڑک نالہ، اقبال ٹاؤن، سبزہ زار سکیم مصطفےٰ ٹاؤن، گلشنِ راوی، گرین ٹاؤن، شاد باغ، چاہ میراں، پنجاب کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی، واپڈا ٹاؤن، قلعہ گوجر سنگھ، رائل پارک، اسلام پورہ، باغبانپورہ، جوہر ٹاؤن، ہربنس پورہ، ویلینشیا ٹاؤن، ٹھوکرنیاز بیگ، ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی، کینال ویو ہاؤسنگ سوسائٹی، نشاط کالونی، شادمان، یوحناآباد، سنت نگر، ساندہ، انارکلی، شاہدرہ، مغلپورہ، بادامی باغ اور ٹاؤن شپ کے علاقے قابلِ ذکر ہیں۔ پاکستان کا دل (لاہور) تعلیمی لحاظ سے بھی خاص اہمیت رکھتا ہے۔ یہاں کے مشہور تعلیمی اداروں میں ، یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، گورنمنٹ ایم اے او کالج ، گورنمنٹ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ ، پنجاب یونیورسٹی، گورنمنٹ کالج لاہور، علامہ اقبال میڈیکل کالج، کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی، دیال سنگھ کالج، امیر الدین میڈیکل کالج، ایچی سن کالج، جامعہ وسطی پنجاب، سروسز انسٹیٹوٹ آف میڈیکل سائنسز، علامہ اقبال میڈیکل کالج، فارمین کرسچین کالج، فاطمہ جناح میڈیکل کالج، نیشنل کالج آف آرٹس، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی ، یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز، نیشنل یونیورسٹی آف کمپیوٹر اینڈّ ایمرجنگ سائنسز اور لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز سمیت بے شمار گورنمنٹ اور پرائیویٹ سیکٹر کے تعلیمی ادارے علم کی روشنی بانٹ رہے ہیں اور اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیشہ علم کی روشنی بانٹتے رہیں اور پاکستان کا یہ دل اور اس دل میں بسنے والے ہمیشہ شاد باد رہیں۔