پاکستان کی سیاست بھی انوکھی ہے۔اس سیاست کا کوئی دین مذہب نہیں ہوتا۔ جو ملا یہ اسی کی ہوگئی۔ آج کے دوست کل کو دشمن بن جاتے ہیں اور کل کے دشمن آج دوست بن گئے۔ سیاست وہ کھیل ہے جس کو ہر کوئی کھیلتا ہے مگر اس میں ہار نے والے کی بھی جیت ہوتی ہے اور جیتنے والے کی ہارکیونکہ اس میدان میں سب ایک دوسرے کو زیر کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اور ہارکر بھی ہار نہیں مانتے۔
جب سال 2014 کاآغاز ہوا تھا تو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ اسلام آباد میں دھرنا دینے والی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف ملک میں طویل ترین دھرنے کی تاریخ رقم کرے گے ۔گو کہ دھرنا جن وجوہات کی بنا پر شروع ہوا تھا وہ آج بھی موجود ہیں اور دھرنوں کے بظاہر اختتام کے بعد حکومت نے سکھ کا سانس لیا۔پشاور کے المناک واقعے نے پاکستان کے سیاسی منظر نامے کی ہیئت کو ہی بدل کے رکھ دیا۔اْس سانحے کے بعد عمران خان نے جس رد عمل کا اظہار کیا، اس نے ان کے ’’کھیلن کو چاند مانگنے والے ضدی لاڈلے‘‘ کا تاثر بدل کر رکھ دیا۔یہ الگ بات ہے کہ لوگوں نے کہا تھا کہ عمران خان دھرنے سے جان چھڑانے کے لیے کسی بہانے کی تلاش میں تھے جوانہیں مل گیا۔
غور طلب بات یہ ہے کہ کچھ لوگ ہر بات کامنفی جواب کیوں سوچتے ہیں۔ان کی سوچ منفی کیوں ہوتی ہے؟ اگر عمران خان نے سانحہ پشاور کے بعد دھرنا ختم کردیا تو اس میں کونسی اچنبھے کی بات ہے۔ یہ ان کی مثبت سوچ تھی کیونکہ ایک تو یہ سانحہ پورے پاکستان کو غمگین کرگیا اور دوسرے اگر خدانخواستہ اس سانحہ کے بعد ایساسانحہ اس دھرنے میں ہوگیا تو پھرنہ جانے کتنا نقصان اٹھانا پڑتااورپھر نہ صرف سیاستدان بلکہ ہر شخص عمران خان کو برا بھلا کہتا دکھائی دیتا۔ میرے خیال میں عمران خان نے بھی ہرپاکستانی کی طرح اپنی سوچ کو مثبت رکھتے ہوئے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کرکے ایک ا چھا قدم اٹھایاکیونکہ اس دھرنے کے وجہ سے ہماری معیشت بری طرح متاثر ہورہی تھی۔ چین کے صدر نے بھی اپنا دورہ ہمارے ملکی حالات دیکھ کر کینسل کیا تھا جو ابھی تک پینڈنگ پڑا ہوا ہے۔
جب دھرنے کے د وران پی ٹی آئی نے اسمبلیوں سے استعفے دیے تو بہت سے سیاستدانوں نے بڑی بڑی باتیں کی اور بہت سے سیاستدانوں نے حکومت کو استعفے منظور نہ کرنے کی درخواست بھی کی۔ یہی وجہ ہے کہ تقریباً سات ماہ تک حکومت اور پی ٹی آئی میں الفاظوں کی جنگ ہوتی رہی۔ یہ الگ بات ہے کہ عمران خان نے دھرنوں کے دوران سیاسی میدان میں کافی ہلچل مچائے رکھے اور دوسرے سیاستدانوں کی طرح بڑی بڑی بڑھکیں ماری مثلاًنوازشریف کے استعفے کے بغیر دھرنا ختم نہیں ہوگا، اسمبلی جعلیاں ہیں،چار حلقے کے جانچ پڑتال کے بغیر حکومت سے بات نہیں ہوگی،جوڈیشنل کمیشن بنانا اسوقت تک بیکار ہے جب تک میاں صاحب استعفیٰ نہ دیں۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ سیاستدان بڑے بڑے دعوے کرنے کے قائل ہوتے ہیں اور جب تک یہ سیاستدان دعوے نہ کریں تو شائد ان کی روٹی ہضم نہیں ہوتی۔جو لوگ خانصاحب پر تنقید کررہے ہیں ان لوگوں کو سوچنا چاہیے کہ عمران خان بھی ایک سیاستدان ہیں۔ کیا پی پی کے دور میں خادم اعلیٰ نے کم بڑھکیں لگائیں تھیں؟ الیکشن میں کونسی جماعت ہے جس نے دعوے نہیں کیے؟ نوازشریف ، مولانا، چوہدری بردران اور دوسرے کئی سیاستدانوں کی تقاریر سب کے سامنے ہیں۔
میں تو پہلے بھی اپنے کالم میں واضح لکھ چکا ہوں کہ تمام سیاستدان ایک ہیں ان کا مقصد عوام کو بہلا پھسلا کر اپنا الو سیدھا کرنا ہوتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے، ہے کوئی دور جس میں عوام خوشحال رہی ہو؟ ہر دورکو گزرے دور سے بدتر ہی سمجھا جاتا ہے۔ پی پی کے دورمیں مشرف کے دور کو اچھا سمجھا جاتا تھا اور اب میاں صاحب کے دور میں زرداری دور کو بہتر جانا جارہا ہے۔
جب عمران خان اسمبلیوں میں نہیں آرہے تھے تو ہر کوئی ان کو اسمبلیوں میں بلارہا تھا اوراب جب آگئے تو ہر کوئی ان پر طنز کے تیر چلا رہا ہے۔دیر آید درست آید کے مصداق عمران خان نے بھی کچھ سوچ سمجھ کرہی اسمبلیوں میں آنے کا فیصلہ کیا ہوگا۔ لوگ ابھی تک پی ٹی آئی والوں کو اتنا لمبادھرنا دینے کے باوجود حاصل نہ حصول کا طعنہ دے رہے ہیں مگر اس فیصلے سے اور زیادہ انگلیاں اٹھنے لگی ہیں۔
کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے۔آخر کار ہمارے خان صاحب نے اسمبلیوں میں آکر یہ ثابت کردیا کہ موجودہ اسمبلیاں جعلی نہیں بلکہ عوام کے منتخب نمائندے ہی اس میں بیٹھے ہیں۔ خان صاحب کے فیصلے نے اس بات کو سچ ثابت کردیا کہ ’’کسی مرد کی کامیابی کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے‘‘ اورہمیں امید ہے کہ اب خان صاحب کے قدم کامیابی چوم لے گی۔ ریحام بھابھی کے مشورے عمران خان کو اب کسی کے انگلی کے اشاروں پر ناچنے نہیں دیں گے کیونکہ اب ان کی انگلیاں ہی کافی ہیں۔ ہوسکتاہے کہ جو خان صاحب کو الٹے سیدھے مشورے دے رہے تھے وہ اب ہماری بھابھی سے جیلس ہونا بھی شروع ہوگئے ہونگے۔
خانصاحب سے ایک بات ضرور کہوں گا کہ آپ کویہ بات اب ماننا پڑے گی کہ آپ بھی ایک روایتی سیاستدان ہیں۔نیا پاکستان ہو یا پرانا مگر سیاستدان سب ایک جیسے ہی ہیں۔ البتہ نواز شریف کی خاموش سیاست کہیں نہ کہیں کام ضروری دکھا گئی ۔ دوران دھرنا جاوید ہاشمی نے جو کچھ کہا اور کیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں اور اب میں سمجھ رہا ہوں کہ خانصاحب کے اس فیصلے میں ایک اور سابقہ لیگی چوہدری سرورکا رول بھی کم نہیں ہوگا۔
ہماری تو دعا ہے کہ تمام سیاستدان ذاتی انا اورمفادکو چھوڑ کر اپنے ملک کی ترقی کے لیے ایک ہوجائیں۔عوام کی بھلائی کے لیے دن رات ایک کردیں۔ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور اگر ہمارے سیاستدان متحد ہوجائیں تو اسلامی ممالک میں کسی کو بری نظر سے دیکھنے کی ہمت نہ ہو۔ آج ہماری کمزوریوں کی وجہ سے کفار ہمیں آپس میں لڑا کر اپنا مفاد پورا کررہے ہیں۔