پیشہ یا مجبوری

Published on April 15, 2015 by    ·(TOTAL VIEWS 588)      No Comments

Shahid
دنیا کے کسی بھی ملک میں گدا گری پر پابندی نہیں ہے بشرطیکہ اسے پیشہ نہ بنا یا جائے اور پابندی نہ ہونے کے سبب ہی آج دنیا بھر میں بھیک مانگنے کو پیشہ بنا لیا گیا ہے خوشی سے کوئی انسان بھیک نہیں مانگتا لیکن وقت اور حالات کی بے رحمی کئی خوددار لوگوں کو بھی بھیک مانگنے پر مجبور کر دیتی ہے بھیک مانگنے کی کئی وجوہات ہیں،خاص طور پر پسماندہ ممالک میں بے روزگاری،معذوری ،عمر کا تقاضا،اور سرپرست نہ ہونے کے علاوہ حکومتوں کا سماج میں باعزت زندگی گزارنے میں امداد سے انکار سر فہرست ہیں،بھیک مانگنے کے کئی طریقے ہیں غریب اور معذور تو دو روٹی کے لئے بھیک مانگتا ہے کہ زندہ رہ سکے لیکن دنیا کے غیر ترقی یافتہ ممالک کے لیڈرز بھی کسی بھکاری سے کم نہیں ،موازنہ کرنا اس لئے ضروری ہے کہ ایک طرف ایک غریب ،لاچار،معذور اور مجبور اگر اپنے پیٹ کی آگ بجھانے یا اپنے خاندان کی کفالت کیلئے گداگری کرتا ہے اور اس نفسانسی کے دور میں چند نیک صفت افراد اسکی مدد کرتے ہیں تو اسے بھیک مانگنا نہیں کہا جائے گا لیکن جو سیاسی لیڈرز ملک اور قوم کی بدحالی جو اِن لیڈران کی خود پیدا کردہ ہے ملکی بدحالی کی آڑ لے کر ڈپلومیٹک اور کونفیڈینشل طریقے سے بلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ
(پروفیشنل بھکاری) بن کر بھیک مانگتے ہیں کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی اور اربوں کھربوں ہڑپ کر جاتے ہیں ایسے میں بھکاری کون ہو ا وہ جو دن بھر بھیک مانگ کر چار افراد کی کفالت کرتا ہے یا وہ حکمران جو کروڑوں افراد کے نام پر بھیک مانگ کر اپنی جیبیں بھرنے والا ؟۔
ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں انیس سو اسی تک گداگری کو پیشے کے طور شمار کیا جاتا تھا دیگر پسماندہ ممالک کے علاوہ بھارت میں آج بھی انڈرورلڈ بھکاری مافیا راج ہے جو معصوم بچوں کو خرید کر یا اغواء کرنے کے بعد بھیک مانگنے کی ترغیب دیتا اور جرائم کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ جتنے قانون جرمنی میں ہیں شاید ہی دنیا کی کسی ریاست میں ہوں اور تمام قوانین پر عمل درامدکیا جاتا ہے ،جرمنی میں بھی بھیک مانگنے پر ممانعت نہیں لیکن اگر ریلوے سٹیشن پر کوئی ویل ڈریسڈ یہ کہے کہ اس کا پرس کھو گیا ہے اور گھر جانے کیلئے دس یورو چاہئیں یا سر چھپانے کی جگہ نہیں کچھ مدد کی جائے تو اسے دھوکہ دہی میں شمار کیا جاتا ہے اور حقائق سامنے آنے پر ایسے افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جاتی ہے جو اسے کافی مہنگی پڑتی ہے۔چند برس پہلے جرمن میڈیا نے برلن ،کولون ، فرینکفرٹ اور میونخ میں بھکاری مافیا پر ایک رپورٹ پیش کی تھی کہ مشرقی یورپ کے تارکینِ وطن کے کئی گروپس جرمنی میں سرگرم عمل ہیں اور نہ صرف حکومتی خرچے جس میں ماہانہ وظیفہ ،بچوں کی دیکھ بھال کی رقم بھی وصول کرتے ہیں غیر قانونی جاب کرنے کے علاوہ ویک اینڈ پر (سائڈ بزنس) گداگری بھی کرتے ہیں،صوبائی حکومتوں نے ایسے افراد کو جرائم پیشہ قرار دیا اور انہیں حراست میں لینے کے بعد قانونی جارہ جوئی کا حکم دیا علاوہ ازیں ہر فرد کو ان منظم گروہوں سے محتاط رہنے کی اپیل کی ،کئی بار جزوی طور پر جرمن اور آسٹریا کی حکومتوں نے گداگری کی مخالفت کرتے ہوئے پابندی عائد کرنے کی کوشش کی اور مشترکہ طور پر کئی آرگومنٹس دئے کہ جب حکومت تمام بے روزگاروں کو مکمل تحفظ فراہم کر رہی ہے تو بھیک کیوں مانگی جاتی ہے اور یہ کون لوگ ہیں جو بچوں اور خواتین سے بھیک منگوا کر سوشل ممالک کی پیشانی پر دھبہ لگا رہے ہیں ،بحث مباحثہ میں بلغاریہ ،رومانیہ ،سلوواکیہ اور البانیہ کے باشندوں کو زیرِ بحث لایا گیا،ایک کانفرنس میں انسانی حقوق اور ہمدردی کو مد نظر رکھتے ہوئے کئی اداروں کے نمائندوں نے تجزئے کے بعد
کہا کہ کمزور ، بیمار ،غریب یا اچانک کسی ناگہانی آفت سے دوچار ہونے والے افراد کی مدد کرنا ایک مثبت اور عظیم عمل ہے اور ایسے ستم زدہ افراد کو پہچاننے میں دیر نہیں لگتی لیکن ریاست میں بے شمار سرکاری و غیر سرکاری سماجی ادارے موجود ہیں جو ایمر جینسی میں ہر فرد کی مدد کے لئے تیار رہتے ہیں ہم گداگری کے اس عمل کو سمجھنے سے قاصر ہیں یہ لوگ پیشہ کرتے ہیں یا واقعی مجبوری میں بھیک مانگتے ہیں تہوارکے موقع پر گدا گری کے علاوہ چوری اور جیب تراشی بھی کی جاتی ہے اور سیکیورٹی اداروں کو چوبیس گھنٹے الرٹ رکھا جاتا ہے ۔
دھوکہ دہی کے الزام میں مشرقی یورپ کے باشندوں کو کئی بار گرفتار کیا گیا کیونکہ انہوں نے گونگے بہرے ہونے کا ڈھونگ رچا کر لوگوں سے رقم اینٹھنے کی کوشش کی ،پولیس نے ایک جعلی گونگے بہرے کو تمام رقم سمیت اس وقت گرفتار کیا جب وہ اپنے گھر میں دن بھر کی کمائی گن رہا تھا اور قہقہے لگاتے ہوئے اپنے ساتھیوں کو دن بھر کی روداد سنا رہا تھا ایسے واقعات آئے دن ہوتے رہتے ہیں ،پولیس کا کہنا ہے آج سے تیس چالیس سال قبل اِکا دُ کا جرائم پیشہ افراد سے واسطہ پڑتا تھا جبکہ آج کئی گنا زیادہ پولیس ہونے کے باوجود جرائم پیشہ افراد پر قابو پانا مشکل ہوتا ہے،نہ صرف جرمنی میں گداگری ایک متنازعہ موضوع ہے بلکہ ناروے میں بھی حکومت چاہتی ہے کہ عوامی مقامات پر گداگری پر پابندی عائد کی جائے سوئزر لینڈ میں ایک پمفلٹ جاری کیا گیا کہ گداگری کے اس عذاب پر پابندی عائد کی جائے،میڈرڈ میں قانون لاگو کر دیا گیا ہے کہ جو بھیک مانگتے ہوئے پکڑا جائے گا ساڑھے سات سو یورو جرمانہ ادا کرنا ہو گا،کئی یورپین اداروں کا کہنا ہے کہ بھکاریوں کے منظم گروہ کو پہچاننا مشکل ہے لیکن ان کے حامیوں اور تنظیموں پر ہاتھ ڈالنا زیادہ مشکل ہے ان بھکاریوں کے پس منظر میں ایک دو نہیں بلکہ ایک مکمل اورگنائزیشن ہے جو بیرون ممالک سے نظام چلاتی اور کنٹرول کرتی ہے مثلاً تمام جمع شدہ پونجی شام کو مخصوص لوگوں کے ہاتھ میں دے دی جاتی ہے جو فوراً تمام رقم بیرون ملک منتقل کر دیتے ہیں علاوہ ازیں پولیس ان بھکاریوں پر نظر نہیں رکھتی بلکہ یہ پولیس پر نظر رکھتے ہیں کون کب آیا کب گیا کونسی پولیس گاڑی کب ،کہاں، اور کتنے راؤنڈ لگاتی ہے وغیرہ وغیرہ،میونخ پولیس کے مطابق یہ لوگ ذہنی اور جسمانی معذور بچوں سے بھیک منگواتے ہیں ایک تحقیق کے مطابق ایک معذور بھکاری معذور نہیں ہوتا آج وہ بیساکھی کے سہارے چلتا ہے تو دوسرے دن کسی دوسرے مقام پر دوسری ٹانگ پر پلاستر چڑھا کر کھڑا ہو گا اور تیسرے دن کسی اور مقام پر سلامت ٹانگوں پر بیٹھا کافی پی رہا ہوتا ہے۔ یورپ میں گداگری کے خلاف کارروائی کرنے کے علاوہ جرمنی کے کئی بڑے شہروں میں بھی محض اس لئے انہیں حراست میں لیا جاتا ہے کہ اگر انہیں بھیک نہ ملے تو نازی جرمن جیسے الفاظ سے پکارا جاتا ہے،امریکا کے علاوہ جرمنی میں بھی کئی سالوں سے قانون نافذ کر دیا گیا تھا کہ کوئی کسی کو غیر مہذب الفاظ سے مخاطب نہیں کرے گاکسی غیر ملکی کو فارنر کہہ کر مخاطب نہیں کیا جائے گا سب انسان برابر ہیں اور کسی کو دوسرے کے خلاف نازیبا الفاظ کہنے کا حق نہیں۔یورپ میں مزید گداگری پھیلنے کے علاوہ جرائم میں بھی اضافہ ہونے کے امکانات ہیں کیونکہ مشرقی یورپ کے باشندے پیدائشی کریمینل ہیں برطانیہ میں ان کی بہت بڑی گینگ ہے جنہوں نے دو روز قبل ایک سپر مارکیٹ کو لوٹ لیا۔شاید مغربی ممالک میں جرائم پر قابو پالیا جائے لیکن ترقی پذیر ممالک کا کیا ہوگا؟۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

Free WordPress Theme