وہ جب بھی بھاڑ جھونکتی اپنی بوڑھی ماں کے پسینہ سے شرابور چہرے کی طرف دیکھتا تو دوسرے ہی لمحے وہ اپنے وجود کی طرف بھی دیکھتا کہ وہ کتنا بڑا ہو گیا ہے،رات کو چاند ،تاروں اور ان دیکھی دنیا میں وہ جھانکنے کی کوشش کرتا جہاں سے اس کا باپ ان کو دیکھتا تھا۔اس نے ماں کا ہاتھ بٹانے کی خاطر کئی مرتبہ پڑھائی چھوڑٰی لیکن ماں کے جاگتی آنکھوں کے دیکھے جانے والے خوابوں کی وجہ سے وہ پھر اسکول کی راہ لیتا ،اسے اپنی پھٹے بستے سے جھانکتی پھٹی کتابوں اور ٹوٹی تختی پر موچی سیاہی سے لکھتے ہوئے اپنی ماں کی شبہیہ نظر آتی جو خود پسینے میں شرابور ہونے کے باوجود اس کا پسنیہ پوچھنے کی کوشش کرتی ۔ وہ اپنی کلاس کا سب سے ذہین طالب علم تھا پانچویں کلا س میں اس نے پورے ضلع میں اول پوزیشن حاصل کی اس کے اساتذہ اس کو ڈاکٹر کے روپ میں دیکھتے تھے لیکن اس نے میٹرک کرنے کے بعد اسی سرکاری پرائمری اسکول میں بطور استاد ملازمت کرلی جہاں سے اس نے پانچویں کا امتحان پاس کیا تھا ۔اس کے اساتذہ نے اس کو بہت سمجھانے کی کوشش کی لیکن اس کے خیال میں ڈاکٹر بننے کے لئے اسے بہت وقت درکار تھا اور اس کی بوڑھی ماں کے پاس اتنا وقت نہیں تھا اور وہ اپنی ماں کی خدمت اس کا بھاڑ چھڑوا کر کرنا چاہتا تھا ۔اپنی بیس سالہ ملازمت کے دوران اس نے پوری محنت ،دیانت داری اور خلوص کے ساتھ اپنے طالب علموں کو پڑھایا بلکہ اسکول سے فارغ ہونے کے بعد وہ اور اسکول شروع ہونے پہلے وہ کچھ وقت ’’زیرو پیریڈ ‘‘ کے طور پر بھی ان کو محنت کرواتا لیکن وہ اپنی تعلیم کی طرف توجہ نہ دے سکا بیس سال بعد بھی وہ میٹرک ہی ہے اس کی ماں اب حیات نہیں لیکن وہ مطمئن ہے کہ اس نے اپنی ماں کی اپنی اوقات سے بڑھ کر خدمت کی ۔یہ کہانی ایک استاد کی کہانی نہیں بلکہ پاکستان میں ہزاروں اساتذہ کی ایسی ہی کہانیاں ہوں گی ۔
ایک اخباری خبر کے مطابق حکومت پنجاب نے ان پچاسی ہزار اساتذہ کو فارغ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے جن کی تعلیم میٹرک ہے اور موجودہ معیار تعلیم کے لئے وہ موزوں نہیں ہیں ان کو رضاکارانہ پیشکش دی جائے گی نہ قبول کرنے کی صورت میں جبری ریٹائرمنٹ کی تلوار ان پر لٹکتی رہے گی ۔
استاد کسی بھی معاشرے میں ایک اہم کردار کا حامل ہے استاد مطمئن ہے تو آپ اس سے نئی نسل میں علم کا منتقلی کا کام بہتر طریقے سے لے سکتے ہیں اور اگر وہ سارا دن اپنی ہی روزی ،روٹی کی جھوٹی سچی خبروں پر بھی تبادلہ خیال کرتے رہیں گے تو پھر علم افراتفری کا شکار ہی رہے گا ۔ہماری بد قسمتی ہے کہ قیام پاکستان سے اب تو کبھی کسی کو تختی،سلیٹ اورتختہ سیاہ ،اور وردی کے لئے سیاہ رنگ کا ملاشیا اور اردو نظام تعلیم بہت بھا جاتا ہے اس سے اگلی دہائی میں سارا نظام ہی بدیسی ہو جاتا ہے ،سارا سلیبس انگلش ،وائٹ بورڈ ،پینٹ ،شرٹ ٹائی کے ساتھ مخلوط نظام تعلیم ضرروی قرار دے دیا جاتا ہے ۔
پاکستان میں دو ہی شعبے ایسے ہیں فوج اور استاد جنہوں نے نے قوم کی آواز پر ہمیشہ لبیک کہا ہے دشمن سے بیرونی سرحدوں پر مقابلہ ہو یا اندرونی خلفشار ،زلزلے ہوں یا سیلاب یا زمانہ امن کی دیگر خدمات یاملک میں مردم شماری ہو،پولیو یا ڈینگی سروے ہوں یاملک میں انتخابات سر اٹھا لیں ان سب محاذ پر آپ کو فوج اور اساتذہ ہی سینہ سپر نظر آئیں گے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مغرب سے درآمد شدہ سلیبس پر ہمارے میٹرک چھوڑ بی اے اساتذہ کی زبان بھی ’’تھتھیا ‘‘ رہی ہے لیکن اس ’’گولڈن شیک ہینڈ سیکم ‘‘کو کوئی بھی استاد اپنے لئے گولڈن نہیں سمجھ رہا ہے کیونکہ یہ وہ وہ طبقہ ہے جو استادی کے علاوہ کوئی کام نہیں کر سکتا کیونکہ ٹیوشن سنٹر بھی تو ان اساتذہ کے ہی کام یاب ہونگے جن کو سلیبس پر عبور حاصل ہوگا اس سلسلے میں حکومت کو تھوڑی سی محبت کا مظاہرہ کرنا پڑے گا جو بیس اور پچیس سالہ ملازمت کے بعد ایک استاد کی مدت ملازمت ذیادہ سے ذیادہ دس سال رہ جاتی ہے ان میٹرک پاس اساتذہ کو جو ملازمت سے ہاتھ دھونا نہیں چاہتے انہیں ’’کچی ،پکی کلاس‘‘تو معمولی سے ریفریشر کورسز کے بعد دی جا سکتی ہے ۔
دوسری صورت میں اساتذہ نے بھی حکومت سے ’’آہنی ہاتھوں ‘‘ سے نمٹنے کا فیصلہ کر لیا ہے اساتذہ یونین کا ایک پمفلٹ ایک دوست نے مجھے بھی بھجوایا جس میں پنجاب اسمبلی کے باہر احتجاج کی کال دی گئی ہے اس کا ایک شعر ہے جو ظاہر ہے کسی انقلابی استاد کا ہو گا۔
آؤ اس کے محل بھی جلائیں دوستو
جس نے جھونپڑیوں کو آگ لگا رکھی ہے
میں نے اپنے استاد دوست سے کہا ’’یہ تو کھلی کھلی دھمکی ہے اور اس پر تو قانونی دفعہ کا اطلاق بھی ہوتا ہے‘‘۔’’لیکن وکیل تو کہہ رہا تھا یہ بے ضرر سا شعر ہے ‘‘۔’’کون وکیل؟،کس عدالت میں ہے؟‘‘ ۔’’اوہ یار میٹرک پاس استاد ہے احتجاج میں ہمارے ساتھ ہے ‘‘۔دوست نے فکر مندی سے جواب دیا ۔
کسی مارشل لا ء دور میں اساتذہ نے اپنے مطالبات کی منظوری کے لئے حکومت کو مزہ چکھانے کا تہیہ کر لیا دوسری طرف حکومت بھی اساتذہ کو فری ہینڈ دینے کے موڈ میں نہیں تھی حکومت نے ’’خفیہ ‘‘کو سارے اساتذہ گرفتار کرنے کا ٹاسک دے دیا ۔یہ خبر اساتذہ تک بھی پہنچ گئی انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ جب تک سارے اساتذہ احتجاجی مقام تک نہیں پہنچ جاتے اپنی شناخت کو خفیہ رکھیں اور جب سبھی پہنچ جائیں تو پھر مظاہرہ کیا جائے ۔اساتذہ عام پبلک کے روپ میں جمع شروع ہو گئے ’’خفیہ ‘‘ والے ہر پندرہ منٹ کے بعد عام پبلک میں اکھٹے ہونے اساتذہ کو پکڑنے کے لئے بلند آواز پکارتے ’’استاد جی‘‘ اور یہ آواز سنتے ہی جو استاد تھے ان کے منہ سے ’’ خفیہ ‘‘ کی طرف دیکھتے ہوئے بے اختیاری میں سادگی سے نکل جاتا ’’جی ‘‘۔سو بے ضرر سا کام ہے حکومت محبت برتے ۔