عزیزہ آباد (کراچی) کی نشست این اے 246سے سابق رکن قومی اسمبلی نبیل گبول ‘مبینہ دھاندلی کا نام دیکر مستعفی ہو چکے ہیں اور اس نشست پر ضمنی انتخابات 23 اپریل 2015 میں ہونا قرار پائے ہیں ۔اس نشست کے حصول کے لیے سیاسی جماعتیں اپنے اپنے امیدوار میدان میں لنگر انداز کر چکی ہیں۔ اسی وجہ سے اس نشست پر گزشتہ کئی دنوں سے سیاسی محاذ آرائی عروج پر ہے باوجودیکہ این اے 246 کو متحدہ کا گڑھ کہا جاتا ہے پھر بھی موجودہ حالات میں ایم کیو ایم کو اس نشست بارے خدشات لاحق ہو چکے ہیں۔ اور یہ خیال کیا جارہا ہے کہ انتخابات تصادم کی شکل اختیار کر سکتے ہیں کیونکہ بیانات زبان سے گریبان تک آچکے ہیں ۔ایسی ایک معمولی جھلک تحریک انصاف کی ریلی میں بھی دیکھی گئی کہ ایک طرف پھولوں سے استقبال اور دوسری طرف ڈنڈوں سے بدحال کیا گیاجس کا برملا اظہار عمران خان نے اپنے بیان میں بھی کیا ہے ۔ مگر اس کے بعد متحدہ نے باہمی تعاون و اشتراک کا ڈرامہ رچانا شروع کر دیا جس سے بلا تامل تحریک انصاف متحدہ کی صلح جوئی سے کسی حد تک مطمئن بھی نظر آئی اور اس مفاہمتی پالیسی کو خوش آئند قرار دیا اور جناح گراؤنڈ میں جلسے کرنے کے عزم کو ختم کر کے شاہراہ پاکستان پر جلسہ کرنے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔شاید یہی سبب ہے کہ عمران خان کے سیاسی مخالفین اور دانشوران ان پر سیاسی نا پختگی اور ناتجربہ کاری کا لیبل چسپاں کرتے رہتے ہیں اور ان کے ہمنوا یہ کہتے کہ وہ ایک فئیر انسان ہیں اور ان کا کردار سیاسی داؤ پیچ اور منافقت سے مبرا ہے جبکہ سیاست۔۔ آنکھوں کا کاجل چرانے کے مترادف ہے۔اور جو کل تک بے نقط سنا رہے تھے وہ پھولوں کی برسات کیسے کر سکتے ہیںیہ تو سب اس لیے ہے کہ آج کل ایم کیو ایم پہلے ہی اپنے ہم نوالہ و ہم رکاب کی سرکشیوں کی وجہ سے زیر عتاب ہے ایسے میں وہ کسی نئے محاذ کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
یہ پاکستان کی بڑی بدقستمی ہے کہ پاکستان کو آئے روز نت نئی سیاسی جنگوں کا سامنا رہتا ہے ایک’’ سیاسی رولا‘‘ ختم نہیں ہوتا اور دوسرا سر اٹھا لیتا ہے ابھی انصاف لیگ تنازعہ اپنے حل کی طرف گامزن ہوا ہی تھا کہ اللہ سلامت رکھے عمران خان کو انھوں نے قوم کو پھر ایک نئی فکر عطا کی اور اپنی توپوں کا رخ ایم کیو ایم کی طرف موڑڈالا۔ ان کا مطمع نظر کچھ بھی ہو مگر تحریک انصاف کو یہ حقیقت نہیں بھولنی چاہیئے تھی کہ انھیں پچھلی بار کراچی میں پولنگ ایجنٹ ہی میسر نہیں آسکا تھا۔ پھر اس پنگے کی وجہ سمجھ سے باہر ہے ،ستم تو یہ ہے کہ پے در پے ان سیاسی تنازعات نے گزشتہ 68 برس میں عوام کو تو کچھ بھی نہیں دیا ہے سوائے اس کے کہ پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیاہے اور اس کا سب سے تاریک پہلو یہ ہے کہ اس گرگراہٹ کی زد میں ہمیشہ غریب کارکن اور عوام ہی آتے ہیں ۔
شہرِ قائد میں انتشار و تصادم کوئی نئی بات نہیں ہے مگر اس بار یہ سیاسی تصادم بہت سے خدشات سمیٹے ہوئے ہے کیونکہ سندھ حکومت کراچی میں جاری ٹارگٹ کلنگ اور انتشار و بد امنی کو روکنے میں مسلسل کئی سالوں سے ناکام چلی آرہی ہے ،عوام بھی اس خوف کی فضا سے اکتا چکے ہیں ۔کراچی وہ شہر ہے جو کبھی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا آج اس کے دن خوف و وحشت اور راتیں آہوں او سسکیوں میں ڈوب چکی ہیں اوراس پر طرہ یہ کہ اب اس خوف کی فضا کو ختم کرنے کا دعوی سبھی پارٹیاں کر رہی ہیں ۔میاں نواز شریف کہتے ہیں کہ کراچی میں حالات وفاقی حکومت کی کاوشوں سے کنٹرول ہوئے ہیں ،عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ کراچی میں خوف کی فضا کو ختم کرنے آئے ہیں اور ایم کیو ایم کا مینڈیٹ خوف کا مینڈیٹ ہے اوربندوق کی سیاست کو ختم کرنے کا مطالبہ بھی انھوں نے الطاف حسین سے کیا ہے ۔دوسری طرف جماعت اسلامی کہتی ہے کہ یہ ٹھپے کا مینڈیٹ ہے اور اس پر نبیل گبول نے تصدیق کی مہر بھی لگا دی ہے یعنی تمام شواہد ایم کیو ایم کے خلاف جا رہے ہیں ۔ کراچی آپریشن کے بعد ویسے بھی ایم کیو ایم پریشان اور بوکھلائی ہوئی پھر رہی ہے ،کچھ متنازعہ بیانات نے بھی الطاف حسین کی پوزیشن کو کمزور کر دیا ہے ایسے میںیہی لگ رہا ہے کہ کراچی کی سیاست کا رخ تبدیل ہونے جا رہا ہے ۔مگر اس سے بھی انکار ممکن نہیں کہ این اے 246 وہ جگہ ہے جہاں سے الطاف حسین نے اپنی تحریک کا آغاز کیا اور35 سالوں سے اس حلقے میں حکومت کر رہے ہیں ۔ مگر آج کل کراچی آپریشن اور صولت مرزا کے بیانات کی وجہ سے ایم کیو ایم کو مسلسل تنقید کا سامنا ہے ،پھر نبیل گبول کا یہ کہنا کہ ان کا مینڈیٹ ٹھپے کی بنیاد پر تھا اور دو سال بعد انھیں ان کے ضمیر نے جھنجھوڑا ہے اور وہ دھوکے کے ساتھ کام نہیں کر سکتے یہ بیان بھی عوام کے لیے سوچ کا باعث ہے ۔ایسے میں خوف کا عنصر در آنا ایک لازمی بات ہے دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ عمران خان کی پارٹی میں جیسے بھی لوگ ہوں مگر عوام جانتے ہیں کہ وہ اس وقت ایسے لیڈر ہیں جن کا دامن بے داغ ہے ،اور عوام انھیں پسند بھی کرتے ہیں ،تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ عمران خان کا پلڑا بھاری ہو سکتا ہے ۔مگر ایسا لگتا ہے کہ متحدہ کو تحریک انصاف سے زیادہ جماعت اسلامی سے خطرہ ہے ،اور ان کی ریلیوں پر حملے بھی ہو رہے ہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ جماعت اسلامی بے شک یہاں سے کبھی نہیں جیتی مگر وہ ہمیشہ متحدہ کے مقابلے پر کھڑی رہی ہے اور ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انھوں نے بہت سی قربانیاں دی ہیں ،جماعت اسلامی اس وقت کہاں کھڑی ہے کہنا قبل ازوقت ہوگا مگراس ساری صورت حال میں بہت سے سوال اٹھتے ہیں کہ آیا ایم کیو ایم کو اپنی کارکردگی کے بارے کوئی خوف ہے جو کبھی تحریک انصاف نشانہ بنتی ہے اور کبھی جماعت اسلامی ؟کیا واقعی نبیل گبول درست کہہ رہے ہیں ؟کیا یہ حلقہ ایم کیو ایم کا گھر ہے جس میں کسی بھی سیاسی جماعت کا کمپین چلانا اخلاقیات کے زمرے میں آتا ہے ؟اور سب سے اہم سوال کراچی سے خوف کی فضا کا خاتمہ کون کر رہا ہے ؟
ان سوالات کا جواب تو آنے والا وقت دے گا کہ کراچی کا امن و امان بحال ہوگا یا نہیں اورمتحدہ کے سامنے کون کھڑا ہو سکے گا، تحریک انصاف یا جماعت اسلامی یاتمام خدشات دھرے کے دھرے رہ جائیں گے اور متحدہ پھر بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کر لے گی ۔فل حال ہمارے پیش نظر مسئلہ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن خاموش کیوں ہے اور اگر الیکشن کمیشن ہی غیر فعال ہے تو اس کا یقین کیسے کیا جاسکتاہے کہ حالیہ انتخابات بھی شفاف اور غیر متنازعہ ہونگے ۔باقی رہی بات عوام کی تو حتی الامکان یقین ہے کہ عوام اس بار حق خود ارادہی کا استعمال عقل و شعور سے کریں گے تاکہ کراچی میں رنگ و روشنی ٹھہر سکے ۔
مایوس نہ ہو ان سے اے رہبر فرزانہ
کم کوش تو ہیں لیکن بے ذوق نہیں راہی
ان تمام حقائق سے قطع نظر کراچی کی سیاست میں گر گراہٹ کسی طوفان کا پیش خیمہ ہے اس لیے سیکورٹی اداروں کو چاہیئے کہ تمام جماعتوں کے لیے ضابطہ اخلاق طے کرے تاکہ ممکنہ نقصانات سے بچا جاسکے۔