کلاسیکی غزل کی گلوکارہ اقبال بانو دہلی میں پیدا ہوئیں۔ ان کی پیدائش کا سال1935 ہے ۔اقبال بانو کے مطابق جب وہ چھ یا سات برس کی تھیں تو دہلی میں ان کے خاندان کے ہندو ہمسائے کی دو لڑکیاں گانا سیکھا کرتی تھیں۔ والد صاحب سے اجازت لیے بغیر ہم عمر سہیلیوں کے استاد سے گانا سیکھنا شروع کر دیالیکن والدہ کو اس کا علم تھا۔ ہندو استاد کا نام چاند صاحب تھا۔ جس کو اپنی لائق شاگردہ پر فخر تھا ۔ابھی نو عمر ہی تھیں کہ آل انڈیا ریڈیو کے دہلی سٹیشن سے گائیگی کی ابتدا کی۔پاکستان آنے کے بعد ” ریڈیو پاکستان لاہور” سے موسیقی کے پروگرام کیے اس کے علاوہ پلے بیک سنگر کے طور پر کام کرتی رہیں ۔پہلا فلمی گانا” پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے ، تو لاکھ چلے ری گوری تھم تھم کے” تھا، جو کہ لاہور کے شاہ نور اسٹوڈیو میں ریکارڈ ہوا۔ جب پہلے ہی ٹیک میں گانا مکمل ہوا، تو ملکہ ترنم نورجہاں مٹھائی لے کر آئیں۔ اقبال بانو کو سینے سے لگا کر کہنے لگیں کہ، بچی، تم بہت نام حاصل کروگی۔ یہ ہی وہ پہلا گانا ہے جو ہم نے کم عمری میں اپنے بڑے ماموں محمد حسین (مرحوم)کے پاس سنا تھا یہ غالبا 1994 ء کی بات ہے ،اس آواز نے مجھ پر جادو سا کر دیا تھا ،میں نے ماموں سے گلوگارہ کانام پوچھا انہوں نے اقبال بانو بتایا ،اقبال کی وجہ سے یاد رہا ،ان دنوں علامہ اقبال کے مضامین یاد کیا کرتے تھے ،یہ تو بعد میں پتہ چلا کہ اقبال کی ہم نام نے اسی دن اس جہاں فانی سے کوچ کیا جس تاریخ کو علامہ اقبال کی وفات ہوئی ۔ماموں محمد حسین نے سمجھا کہ ہم کو موسیقی سے بہت لگاؤ ہے ،اس لیے جب بھی ان کے گھر جاتے تو ان کی نئی ریکارڈ کروائی ہوئی کیسٹ سننا پڑتی ،ہم ان کے احترام میں مکمل توجہ سے سنتے ،ان کے پاس ہی ہم نے اقبال بانو کے مشہور نغمات اور غزلیں سنیں ۔اب تو بڑے ماموں اس دنیا میں نہیں رہے ،لیکن اقبال بانو کی غزلیں سنتے ہوئے مجھے وہ بہت یاد آئے ۔داغِ دل ہم کو یاد آنے لگے۔
۔ 1952 میں اس نو عمر گلوکارہ نے ایک زمیندار سے شادی کر لی لیکن فن سے وابستگی ختم نہ کی۔70 ء کی دہائی میں مہدی حسن ،استاد نزاکت و سلامت کے ساتھ ایک وفد میں وہ جشنِ کابل کی تقریب میں شرکت کے لیے افغانستان گئی تھیں جہاں انھوں نے حافظ شیرازی جیسے فارسی اساتذہ کی ستر غزلیں شاہی خاندان کے سامنے ، اورکئی ایک محافل میں، چالیس ہزار تککے مجمعے میں گائیں اور داد حاصل کی۔اس طرح ان کی شہرت پاکستان ،بھارت ،افغانستان تک پھیل گئی ۔ان کے چند ایک مشہور نغمات و غزلیں درج ذیل ہیں ،جن کو آج بھی سنیں توموسیقی کیا ہوتی ہے اس کا علم ہوتا ہے ۔
تْو لاکھ چلے ری گوری تھم تھم کے ۔
الفت کی نئی منزل کو چلا تو باہیں ڈال کے باہوں میں۔
داغِ دل ہم کو یاد آنے لگے۔
محبت کرنے والے کم نہ ہو ں گے تیری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے۔
مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے۔
دشت تنہا ئی میں اے جان جہا ں لر زاں ہے ۔
فیض کی نظم ’ “لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے “‘ ان کا ٹریڈ مارک بن چکی ہے ۔ہم دیکھیں گے ۔لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے ۔جب تخت گرائے جائیں گے ۔جب تاج اچھالے جائیں گے ۔ایک بار فیض نے اقبال بانو کی آواز میں اپنی نظم سن کر کہا تھا میری غزل آج سے صرف اقبال بانو (تم) ہی گاؤ گی ۔اقبال بانو کے دور میں روشن آراء بیگم‘ ملکہ پکھراج‘ بیگم اختر‘ فریدہ خانم اور ثریا ملتانیکر ،جیسی نام ور گلوکارائیں کا طوطی بولتا تھا ،اس کے باوجود اقبال بانو نے اپنی الگ پہچان بنائی ،ان کی سب سے بڑی خوبی الفاظ کے تلفظ کا درست ادائیگی اور بے جان الفاظ کوایسے گایا کہ زندگی عطا کر دی ۔اس بات کی سچائی کے لیے ان کی کوئی بھی غزل سنی جا سکتی ہے ۔
حکومت پاکستان نے1974ء میں تمغہ حسنِ کارکردگی عطا کیا ۔انہیں 1990 میں صدارتی ایوارڈ برائے حسنِ کارکردگی سے بھی نوازا گیا۔وہ21 اپریل 2009 کو 4 7سال عمر میں بلند فشار خون اور ذیا بیطس کی وجہ سے اتفاق ہسپتال میں زیر علاج تھیں۔ مختصر علالت کے بعد انتقال کر گئی تھیں۔اقبال بانو کے پس ماند گان میں ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی شامل ہیں۔