پاکستا ن کے مشرقی وسطی سے ۔۔۔۔
خصوصاً سعودیہ عرب، متحدہ عرب امارات کے ساتھ بہت قریبی اور مضبوط تاریخی رشتوں میں بندھا ہے ،تاریخ کے اوراق پلٹ کے دیکھیں تو پاکستان نے بھی اِن رشتوں کی لاج رکھی ہے۔جنگ ہو یا امن،آفت ہویا کوئی مصیبت، ہر امتحان ہر آزمائش میں ان دوستوں نے سب سے پہلے آگے بڑھ کر غیر مشروط ہر ممکن تعاون کرکے دوستی کے اس رشتے کو لازوال بنایا ہے۔ان دوست ممالک کے پاکستان پر اتنے احسانات ہیں کہ ہم ہی نہیں بلکہ آنے والی نسلیں بھی اُسکا حق ادا نہیں کرسکتیں۔اس وقت یہ ممالک پاکستان کو اقتصادی امداد دینے سب سے آگے ہیں۔پاکستان میں سیلاب زدگان کی بحالی،زلزلہ زدگان کی بحالی،انفراسٹریکچر،انری بحران پے قابو،میڈیکل سمیت ہر شعبے میں اِن بے لوث دوستوں نے دل کھول کر امداد کر کے تاریخ میں دوستی کی ایک عظیم مثال رقم کی ہے۔ان ممالک کی لیڈر شپ کا احسانِ خاص ہی ہے کہ لاکھوں پاکستانی اس سر زمین میں بسلسلہ روزگار و کاروبار مقیم ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ۔۔یہاں مقیم پاکستانیوں کو جتنا اپنے وطن سے پیار ہے اتنی اِس دیس سے چاہت بھی ہے ،کوئی تہوار ہو یا تقریب اختتام پاکستان زندہ باد۔۔ پاک امارات دوستی یا پاک عرب دوستی پائندہ باد پر ہوتا ہے۔دعاؤں میں پاکستان میں امن کا ذکر ہوتا ہے تو ان کے حکمرانوں کی لمبی زندگی اور مزید خوشحالی کو کبھی نہیں بھولا جاتا۔مگرتین ہفتے میں۔۔۔۔
حالات نے ایسی کروٹ بدلی۔۔۔
کہ ابہام کے باعث پاکستان کا ان دوست ممالک کے مابین معاملات کی کشیدگی نے دیارغیرمیں مقیم پاکستانیوں کو تذبذب کا شکار کر دیا ۔حالات نے اچانک کروٹ تب لی۔۔جب یمن کی درخواست پر سعودیہ کا اتحادی افواج کے ساتھ حوثی باغیوں کے خلاف حملوں کا آغاز کیا جس میں عرب ممالک نے غیر مشروط اس جنگ میں شامل ہو گئے اورپھر سعودیہ کی نظریں جمی پاکستانی ردعمل کی جانب۔پاکستانی وزیراعظم نے بھرپور مدد کا اعلان بھی کیا اور ساتھ ہی ساتھ۔۔۔ یمن معاملے پرتُرکی کے ساتھ بات کیلئے روانہ ہوگئے ۔اور ترک وزیر اعظم کی دورہ ایران بھی اس سلسلے کی کڑی تھا۔بعدازاں ایرانی وزیرخارنہ محمد جواد ظریف بھی وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز کے ساتھ دو طرفہ مذاکرات کر چکے ہیں دونوں فریقین پرُامن حل پر اتفاق کیا مگر طریقہ کار پر اختلاف رہا۔ اِس اثناء میں سعودیہ کے مکمل فوجی تعاون کی اپیل کر دی۔پاکستان نے ایک بار پھر سعودیہ کو ہرممکن تعاون کی یقین دہانی دلوائی اورحرمین الشرفین پر باغیوں کے حملوں کی گردش کرتیں افواہوں پر شدیدردعمل کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ سعودیہ کو کسی مشکل وقت میں اکیلا نہیں چھوڑسکتے اور حرمیں الشرفین کو مکمل تحفظ فراہم کریں گے۔سعودیہ نے امریکی امداد کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے آپ پر انحصار کرتے ہوئے یمن میں حوثیوں باغیوں کے خلاف لڑنے کے عزم کا ظاہر کیا ہے۔تھورا جانتے ہیں۔۔
یمن اور باغی حوثیوں کے بارے میں۔۔
یمن گلف ممالک میں ایک تاریخی اور اہم حثیت رکھتا ہے۔ اسکے جنوب میں بحیرہ عرب جبکہ مغرب میں بحیرہ احمر واقع ہے اور شمال مشرق میں سعودی عرب اور اومان کی ریاستیں ہیں۔ اسکی کل آبادی ۲ کروڑ سے بھی زاید ہے۔ یمن کے ساتھ سعودی عرب تقریباً آٹھارہ سو کلومیٹر لمبی سرحدیں ہیں ۔سعودیہ کے تیل کے اکثر کنوئیں انہیں اطراف میں ہونے سے یہ علاقہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔یمن میں تقریبا پانچ ہزار پاکستانی مختلف شعبے ہائے سے منسلک ہیں۔یمن کے چند صوبوں میں داعش اور القاعدہ موجودہیں۔کچھ صوبوں شیعہ زیدیوں اور حوثیوں کا قبضہ ہے اور کچھ صوبے سنی قبائل کے کنٹرول میں ہے۔ ا ب حوثیوں کے دھاوے نے حالات یکسر بدل کر رکھ دئیے ہیں۔عربی جریدے کے مطابق ،حوثی قبائل زیدی اہل تشیع کا ایک گروپ ہے،۲۰۰۴ میں شیعہ رہنما بدرین الدین الحوثی نے حوثی قبائل کو متحد کر کے حکومت کیخلاف مسلح جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔اسوقت کے صدر علی عبداللہ صالح نے حوثیوں کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا تھا،سعودی صوبے جیزان میں بھی جھڑپیں شروع ہوئیں تو سعودی فورسز نے یمن میں داخل ہو کر حوثیوں کے خلاف آپریشن میں یمنی فوج کی مدد کی۔یمنی حکومت کا موقف رہا ہے کہ ایرانی حکومت حوثیوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔۲۰۰۹ میں بھی صوبہ صدا میں حوثیوں کے خلاف آپریشن میں سعودی حکومت یمن کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔۲۰ جنوری ۲۰۱۵ میں حوثیوں نے صنعاء پر دھاوا بول کر اس پر قبضہ کر لیااور صدارتی محل پر بھی قبضہ کر لیا۔صدارتی محل پر گولا باری ہوئی تو عبوری حکومت کے سربراہ عبدالربو منصور ہادی نے فرار ہو کر عدن میں پناہ لی۔اور عدن کو ہی عارضی کیپٹل قرار دے دیا گیا۔حوثیوں نے سعودی سرحدپر واقع یمنی صوبے محراب کی طرف پیش قدمی کی تو سعودی حکومت بھی حرکت میں آئی اور حوثیوں پر بمباری شروع کر دی۔یمن کایہ صوبہ تیل کی دولت سے مالا مال ہے۔اور معشیت کا انحصار بھی کافی حد تک اسی صوبے پے ہے۔اب سرسری جائزہ ۔۔۔
کشیدگی کا آغاز۔۔۔۔
پر۔اندرونی سیاسی قوتوں کا پاکستان حکومت پر دباؤ بڑھا کہ پاکستانی افواج کو سعودیہ نہ بھیجا جائے جبکہ سعودیہ عرب ہر قسم کی فوجی مدد مانگ چکا تھا۔ایسے میں پارلیمنٹ میں پیش کی گئی قرارداد میں سعودیہ ’’کو مکمل تعاون‘‘ کی یقین دہانی کے ساتھ ساتھ ’’ثالثی‘‘ کا کردار ادا کرنے کا بھی اظہار کیا گیامگر پی ٹی آئی کے اصرار پر ’’غیر جانبدار‘‘ رہنے کے لفظ نے صورت حال کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ ڈاکٹر انور محمد قرقاش نے پاکستانی پارلیمان میں یمن کے تنازعہ پر غیر جانبدار رہنے کی متفقہ قرارداد منظور ہونے کے بعد ٹوئیٹر پیغام میں قرارداد کی مذمت میں کہا تھا کہ ’’پاکستان کو اس اہم مسئلے پر متضاد اور مبہم رائے کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی‘‘۔پاکستان کی جانب خاموشی کے بعد وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے امارات کے وزیر خارجہ انور محمد قرقاش پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ بیان نا قابل قبول اور پاکستان اور پاکستانی عوام کی توہین کے مترادف ہے ،پاکستانی عوام سعودی عرب کے ساتھ ساتھ یو اے ای کے عوام کے لئے برادرانہ جذبات رکھتے ہیں۔انہوں امارتی وزیر کے بیان کو سفارتی آداب کے منافی بھی قرار دیا۔مگر۔۔۔یو اے ای کے وزیرخارجہ کے بعد عرب پارلیمنٹ کے چیئرمین احمد بن محمد الجروان نے بھی پاکستان کی پارلیمنٹ میں منظور ہونے والی قرارداد پر کڑی تنقید کی ہے کہ یہ عرب اور اسلامی ممالک کے موقف سے متصادم ہے۔جبکہ سعودی عرب کے مشیر برائے مذہبی امور عبدالعزیز بن عبداللہ العمار نے بھی یمن جنگ میں ثالثی کی بات کو مذاق کے مترادف قرار دیا ہے اور پھر سے اظہار کیا کہ سعودی عرب حوثیوں کے خلاف آپریشن میں پاک فوج کی شمولیت چاہتا ہے۔ سعودی وزیر برائے مذہبی امور شیخ صالح بن عبدالعزیز نے کہا کہ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان تعلقات مضبوط ہیں ،پارلیمنٹ کی مشترکہ قرارداد پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے یقین ہے کہ پاکستان ہمارے ساتھ ہے اور رہیگا۔انہوں نے یمن میں باغیوں کے خلاف قائم اتحاد میں شمولیت کا مطلب سیاسی اور ہر طرح کی حمایت قرارد یا ۔امارات کے بعد کویت کے اخبار ’’السیاسہ‘‘ کے ایڈیٹر انچیف احمد الجراللہ نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ پاکستان ایران مذہبی قیادت کے خوف سے اُن کے آگے جھک گیا ہے،جو کہ ایک غلطی ہے۔انہوں نے لکھا ہے کہ خلیجی ممالک کو پاکستان کی ضرورت نہیں بلکہ پاکستان کو انکی ضرورت ہے۔۔۔جب کہ
حقائق یہ ہیں ۔۔۔
کہ پاکستانی عوام دل و جان سے عرب ممالک کے ساتھ ہیں۔پاکستانی سنئیر تجزیہ کاروں اور تبصرہ نگاروں کا کہنا تھا کہ حکومت کو ایسے احساس معاملے میں چھوٹی پارٹیوں کے شامل نہیں کرنا چاہے تھاستم ظرفی دیکھیں ایک سیاسی پارٹی کا جنرل سیکریٹری پارلیمنٹ میں فوج نا بھیجنے کا مطالبہ کر تا رہا۔ جبکہ پارٹی صدر پارلیمنٹ سے باہر غیر مشروط حمایت کی حکومت سے اپیل کرتے نظر آئے۔تمام سیاسی پارٹی یمن جنگ میں مداخلت نہ کرنے کے ساتھ ساتھ حرمین الشرفین کی حفاظت کے لئے مدد فراہم کرنے کا اظہار بھی کر رہی ہیں۔اخبارات کے اداریے ہوں، کالمز ہوں، آرٹیکلز ہوں، تجزئے ہوں،تبصرے ہوں،حتی کے عام آدمی کی رائے ہی کیوں نہ ہوں ،ملی جلی رائے سامنے آئیں ہیں، اکثریت کا خیال یہی ہے پاکستان سفارتی تعلقات کے استعمال سے فریقین میں مصالحت کی کوشش کرے۔۔مگر تمام ایک پوائنٹ ایجنڈے پر متفق ہیں۔۔۔کہ اگر بات سلامتی کی ہو تو حرمین شرفین کے تحفظ کے لئے سعودیہ عرب کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں اور باغیوں کا منہ توڑ جواب دیا جائے ۔ان دوست ممالک کے اچھے اور خوشگوار رشتوں کو مضبوط سے مضبوط رکھنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔حکومتی رویہ محتاط ہونے کی وجہ صرف یہ کہ پاک فوج تاریخ کے سب بڑے محاذ ’’ضربِ عضب‘‘ میں مصروف ہے جبکہ خفیہ اداروں کی بھی ملک میں جاری تخریب کاریوں کی روک تھام کرنے میں اپنی خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔پاکستان میں کچھ مخصوص عقائد کے تعلق رکھنے والوں کا رحجان ایران کے ساتھ بھی ہے،ایسی صورت میں یمن کے حوالے سے فوراً یک طرفہ ہوجانے سے پاکستان کو اندرونی طور پر کئی پریشانیوں کا سامنا کر پڑ سکتا ہے۔پاکستان عرب ممالک کے ساتھ دینے کے علاوہ ہمسایہ ممالک سے بہتر تعلقات قائم رکھنا چاہتا ہے۔مگر واضح رہے کہ پاکستان کی اقلیتی کمیونٹی سمیت ہر سطح اور ہر طبقے کی رائے یہی ہے کہ سعودیہ سلامتی پر کوئی سودا بازی نہ ہو۔ایسے میں ۔۔۔
ابہام کے خاتمے کے لئے۔۔۔
وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف یمن پر پالیسی بیان کے لئے فوراً میدان میں اترے اور انہوں نے اپنے اہم وزرا اور پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے صلاح و مشورے کے بعد کہا کہ یمن کے تنازعہ کا حل صرف مذاکرات کے ذریعے سے ہی ممکن ہے، دس اپریل کو منظور ہونے والی قراداد پر پاکستان کی پالیسی کے مطابق ہے، یمن میں غیر ریاستی عناصر کی جانب سے حکومت کا تختہ الٹنے کی مذمت کرتے ہیں، یمن میں صدر منصور ہادی کی حکومت کی بحالی پر یقین رکھتے ہیں۔یمن میں مشترکہ قرارداد کے بعد کئی طرح کے بیانات آئے ہیں ،جن میں صورتحال کے بارے میں کچھ میڈیا رپورٹس مبہم اور افواہوں پر مبنی ہے۔وزیراعظم نے خلیج تعاون کونسل پر واضح کیا ہے کہ قرارداد پر عدم اعتماد غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔میڈیا میں پاکستان اور عرب ممالک کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کے لئے بعض افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں۔انکا کہنا تھا کہ سعودی عرب اور پاکستان سٹریٹجک پارٹنر ہیں مشکل وقت میں پاکستان دوست ممالک کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔سعودی بھائیوں کو یقین دلایا کہ ہم اُنکے شانہ بشاہ کھڑے ہیں اور کندھے سے کندھا ملا کر چلیں گے۔سعودی عرب کی سالمیت کو خطرہ ہوا تو سخت جواب دیں گے۔سعودی عرب کی خودمختاری اور سالمیت ہماری خارجہ پالیسی کا اہم حصہ ہے۔یمن میں صدر ہادی کی حکومت کی بحالی پر یقین رکھتے ہیں۔ایرانی وزیر خارجہ کو بتایا کہ یمن کی قانونی حکومت کو تشدد سے گرانا خطرناک ہے۔اُدھر سعودی عرب کے وزیر مذہبی امور شیخ صالح بن عبدالعزیز نے کہا ہے کہ سعودی عرب اور یمن کے درمیان کوئی جنگ نہیں اسے غلط انداز میں پیش کیا جا رہا ہے جس سے ابہام پیدا ہو رہا ہے ،سعودی عرب خطے میں امن کا خواہشمند ہے ،حوثیوں نے منتخب حکومت پر دھاوا بولا ہے ،انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ دو فریق لڑیں ان میں صلح کرواو اور اگر کوئی صلح نہ کرے تو بغاوت کرنے والوں کے خلاف کاروائی کرو، جب تک وہ اللہ کے فیصلے کی طرف نہ آئیں۔اب قدرے حالات میں۔۔۔
بہتری کی اُمید۔۔۔
بھی نظر آنے لگی ہے۔سعودی حکومت کے مشیر خاص نے کہا کہ یمن میں باغی ہتھیار پھینک دیں اور حکومت کو کام کرنے دیا جائے تو مذاکرات ہو سکتے ہیں۔یمن میں اگر حکومت بحال ہو تو تمام فریقین کو مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر مسائل حل کرنے چاہیں۔انُکا کہنا ہے ایران اور سعودی عرب میں کوئی تنازعہ نہیں یمن میں اگر دوبارہ انتخابات ہوں تو ہمیں اعتراض نہیں۔’’العربیہ کے مطابق سابق صدر نے ایک نیا عبوری پلان پیش کیا ہے۔ جس میں صنعاء کے گورنر کو وزیراعظم اور موجودہ وزیر اعظم خالد بحاح کو صدارتی اختیارات منتقل کرنے کے ساتھ ساتھ عبداللہ ضبعان کو وزیر دفاع کا عہدہ سونپنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔خالد بحاح کی بطور نائب صدر تعیناتی کو تجزیہ کار ایک خوش آئند قدم قرار دے رہے ہیں ،خیال ہے کہ یہ یمن کے حالات میں بہتری کے لئے اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔سلامتی کونسل کے قرارد اد بھی حوثیوں کے خلاف آ چکی ہے اور انکی مدد کرنے والوں پر بھی پابندی عائدکر دی گئی ہے ۔ایران میں ایسی صورت میں یمن میں قیامِ امن کے لئے اپنی کوششوں کو تیز کر دیا ہے۔یمن کے حالات میں بہتری کی نوید کے ساتھ ساتھ پاک عرب تعلقات میں بھی بہتری کے اثرات شہباز شریف کے کامیاب دورے بعد نظر آنے کی امید ہے۔بی بی سی انٹرویو میں اسحاق ڈار نے بھی کہا کہ سعودی عرب کو براہ راست خطرہ لاحق ہوتا ہے تو اس کو پاکستان پر حملہ سمجھا جائیگااور اس میں ہم عملی طور پر شامل ہوں گے۔انکا کہنا تھا کہ شاید میاں محمد نواز شریف وحد وزیراعظم ہیں جنہوں نے ایرانی وزیر خارجہ سے بڑے شدومد سے کہا کہ وہ حوثی قبائلیوں کو مذاکرات کی میز پر لانے اور ہادی حکومت کو بحال کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔بعد ازان وزیر اعظم نواز شریف کی زیر صدارت اعلی سطح کے اجلاس میں حکومت پاکستان نے سعودی عرب کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔تفصیلات کیمطابق وزیراعظم کی زیرصدارت اعلی سطح کے اجلاس میں تینوں مسلح افواج کے سربراہان، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی، وزیراعلی پنجاب شہباز شریف، مشیر خارجہ سرتاج عزیز، طارق فاطمی، سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری نے شرکت کی تھی، چار گھنٹے جاری رہنے والے اس اجلاس میں وزیراعلی پنجاب شہباز شریف نے اپنے سعودی دورے کے حوالے سے بریفنگ دی۔۔۔۔۔اگر غور کریں تو یمن کی صورتحال کے علاوہ بھی اب۔۔۔
عالمی منظر نامہ ۔۔۔
روز با روز بدلتا ہوا نظر آ رہا ہے۔۔افغانستان اور پاکستان کی عسکری قیادت مسلسل رابطے میں ہے جوپہلی بار باہمی مثبت حکمت عملی کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی پرچم لہرائے جا رہے ہیں۔امریکہ اور روس کے ایران کیساتھ دفاعی معاہدے بھی غیرمعمولی اہمیت رکھتے ہیں۔ امریکہ کو اس یمن جنگ میں پاکستان کی شمولیت پر کوئی اعتراض نہیں،جو دھمیے لہجے میں پاکستان کو اس جنگ میں دھکیلنے کے مترادف ہے ۔ دوسری طرف چینی صدرپاکستان میں دوستی کی ایک نئی تاریخ رقم کرنے آرہے ہیں ،وہ بھی یہی چاہتے ہیں کہ پاکستان اس جنگ میں شامل نہ ہو۔پاک روس میں اچھے تعلقات کی بحالی ایک نئی تاریخ لکھنے جا رہی ہے۔صدر پٹن کی پاکستان کے دورے کی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں۔ اور وزیر دفاع کو دورہ روس بھی ایس صورت حال میں بہت معنی خیز ہے ، روس بھی پاکستان کو یمن معاملے میں دور رکھنا چاہتا ہے۔ہمارا ہمسایہ ملک ایران بھی پاکستان کی یمن جنگ میں شمولیت نہیں چاہتا۔گویا کہ پاکستان کو ناکام ریاست کہنے والوں کو رسوائی کے سوا کچھ نہیں ملا۔۔اوراس بدلتے عالمی منظر نامے میں پاکستان کی اہمیت بہت بڑھ چکی ہے،اور یمن کے باغیوں کے خلاف جنگ میں توتمام کی نظریں پاکستان پر ہی ٹکی ہوئیں ہیں۔تو۔۔۔
ایسے حالات میں۔۔۔
پاکستان کی جانب سے اُّٹھنے والا ہر قدم ،آنے والے ہر بیان بڑی اہمیت کا حامل ہے۔خطے کے امن و امان کا دارومدار کسی حد تک پاکستان کی پالیسیوں سے وابستہ ہو چکا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستانی قیادت عرب ممالک سے رابطے اور مسلسل عسکری قیادت سے صلح مشورے جاری رکھے ہوئے ہے۔ضرورت بھی اسی امر کی ہے سفارتی تعلقات استعمال کرتے ہوئے امارات ، سعودیہ عرب سمیت اپنے دوست عرب ممالک کو اپنے فیصلوں پر اعتماد میں لیا جائے،تاکہ تناؤ پیدا کرنے والا کوئی ناخوشگوار واقع جنم نہ لے ۔سیاستدانوں کا اپنے بیانات میں محتاط رہنے کے لئے کوئی حکمت عملی مرتب دی جائے۔عوامی سطح پر یہ رائے بھی قائم کی جائے کہ یمن جنگ کسی مسلک کے خلاف نہیں بلکہ باغیوں کے خلاف ہے۔اور ایسی ہی جنگ ہم اپنی سرزمین پے بھی لڑ رہے ہیں۔یمن جنگ کے حوالے سے میڈیا پالیسی بھی سامنے آئے تا کہ آزاد میڈیا بھی عرب ممالک کے معاملات کی بہتری کے لئے محتاط رویہ اختیار کر کے ذمہ داری کا ثبوت دے۔خصوصاً سوشل میڈیا پر خاص نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔جو جدید دور میں ایک اسلحے کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔عرب ممالک میں مقین پاکستانیوں بھی دعاگوہ ہیں کہ باہمی اعتماد اور رابطے برقرار رہے تو انشاء اللہ تعالی کوئی قوت مسلم امہ کے خلاف سازش نہیں کر پائے گی۔پاکستان زندہ باد ۔۔عرب ممالک پائندہ بار