گوداموں میں غلہ کی حفاظت

Published on May 1, 2015 by    ·(TOTAL VIEWS 861)      No Comments

llll
تحریر۔۔۔بابر لطیف بلوچ
پاکستان ایک زرعی ملک ہے اس کی زیادہ تر آبادی زراعت سے منسلک ہے۔ جو نہ صرف اپنے لئے غذائی اجناس اُگاتی ہے بلکہ ملک کی دیگر آبادی کے لئے بھی غذائی اجناس مہیا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ پاکستان میں گندم کی پیداوار کے لحاظ سے صوبہ پنجاب کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ کاشتکار دن رات محنت کرکے گندم کی پیداوار میں ملک کو خود کفیل بنانے میں اپنے کردار ادا کررہے ہیں۔ گندم کی اچھی پیداوار کو بہتر انداز میں سنبھال کر اس انتہائی اہم غذائی جنس کو ضائع ہونے سے بچا نا انتہائی ضروری ہے۔ ہمارے ہاں زرعی اجناس گندم، چاول، مکئی، چنا، آٹا اور دیگر مصنوعات کو گھریلو سطح پر ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ تحقیق کے مطابق صوبہ پنجاب میں تقریباًدو درجن ایسے کیڑے پائے جاتے ہیں جو ذخیرہ شدہ غلہ کو گوداموں، کوٹھیوں اور بھڑولوں میں نقصان پہنچاتے ہیں۔
زرعی ماہرین کے مطابق ہر سال 5 سے 15 فیصد غلہ ان کیڑوں کی نذر ہو جاتا ہے۔ اس مجموعی نقصان کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اگر ہم ملک میں پیدا شدہ غلہ کو ان موذی کیڑوں کے حملے سے بچا سکیں تو ہم اپنی خوراک کی ضرورت کے علاوہ دیگر ممالک کی ضروریات کو بھی پورا کر سکتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ نقصان رساں کیڑوں اور نقصان کا موجب دیگر عوامل مثلاً چوہوں کے مکمل حالات زندگی، حملے کے اسباب اور ان سے بچاؤ کی تدابیر پر تفصیل سے روشنی ڈالی جائے تاکہ قیمتی غلہ کی بہت سی مقدار کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکے۔ بیج کو خشک اور صاف کر کے سٹور میں محفوظ کر لیں۔ سٹور کو کیڑوں سے پاک کرنے کے لئے 7 کلوگرام لکڑی فی ہزار مکعب فٹ جلائیں (درجہ حررات 66 سینٹی گریڈ) اور سٹور کو 48 گھنٹے تک بند رکھیں یا پھر سٹور میں محکمہ زراعت کے مقامی عملہ سے مشورہ کر کے موزوں زہر سپرے کریں۔ پرانی بوریوں کو پانی میں اسی نسبت سے زہر ملا کر اس میں ڈبوئیں اور خشک کر لیں۔ مزید احتیاط کیلئے سٹور میں زہریلی گیس والی گولیاں بحساب 40 تا 50 فی ہزار مکعب فٹ استعمال کریں۔
کھپرا گندم کا بدترین دشمن ہے، صرف سنڈیاں ہی نقصان کا باعث بنتی ہیں۔ حملے کی صورت میں گوداموں میں غلہ کے ڈھیر کی تقریباً ایک فٹ اوپر والی تہہ نسبتاً زیادہ خراب ہوتی ہے۔ اس کیڑے کے بچے (گرب) دانوں کو کھرچ کر نشاستہ بنا دیتے ہیں اور غلہ آٹے کا بے سود ڈھیر دکھائی دیتا ہے۔ موسم برسات میں اس کیڑے کا حملہ شدید ہوتا ہے۔ میدانی علاقوں میں یہ کیڑا زیادہ نقصان کرتا ہے جبکہ پہاڑی علاقے اس کے حملے سے محفوظ رہتے ہیں۔ گندم کی سُسری بھی کھپرے کی طرح بہت نقصان دہ ہے، گندم کو سخت نقصان پہنچاتا ہے۔ پردار کیڑا اور سنڈی (گرب) دونوں دانوں کے نشاستہ پر گزارا کرتے ہیں۔سنڈی دانوں کے اندرونی حصہ کو کھاتی ہے لیکن پردار کیڑا دانوں کو مکمل طور پر ضائع کر کے آٹا بنا دیتا ہے۔ یہ آٹا سنڈیوں کے اس وقت تک کام آتا رہتا ہے جب تک وہ دانے میں سوراخ کر کے اس کے گودے کو کھانے کے قابل نہ چھوڑیں۔ اس کیڑے کا حملہ مارچ سے نومبر تک رہتا ہے، یہ کھاتا کم اور نقصان زیادہ کر تاہے۔آٹے کی سُسری گندم کے آٹے کو نقصان پہنچاتا ہے، برسات کے موسم میں زیادہ نقصان کرتا ہے، حملہ شدہ آٹا بدبودار اور بدذائقہ ہوتا ہے۔
گندم کا پروانہ گندم، مکئی اور چری اس کی خوراک ہیں، زیادہ نقصان برسات کے موسم میں کرتا ہے اور عموماً غلہ کے اوپر والی تہہ متاثر ہوتی ہے۔ حملہ شدہ دانے کا 3 سے 50 فیصد گودام اس کیڑے کی نذر ہو جاتا ہے، بعض اوقات سنڈی سارے گودے کو ہی کھا جاتی ہے اور صرف خول باقی رہ جاتا ہے۔شدید حملہ کی صورت میں غلہ سے بدبو آنے لگتی ہے اور تمام غلہ انسانی خوراک کے استعمال کے قابل نہیں رہتا۔ نقصان رساں کیڑے مثلاً کھپرا کے (گرب) اور سونڈ والی سسری کے بالغ پر دار کیڑے سردیوں کا موسم گوداموں کے فرش، چھت اور دیواروں کی دراڑوں میں سستی کی حالت میں گزارتے ہیں اور گوداموں میں نیا غلہ آنے پر حملہ آور ہوتے ہیں اور اپنی نسل کشی شروع کر دیتے یں۔ غلہ کو نقصان پہنچانے والے کیڑے عموماً گوداموں میں پڑی ہوئی استعمال شدہ بوریوں میں موجود ہوتے ہیں۔ جب غلہ بھرنے کیلئے ان بوریوں کو دوبارہ استعمال میں لایا جاتا ہے تو یہ کیڑے غلہ میں مل جاتے ہیں۔ بعض اوقات جب نئی بوریاں گوداموں میں پرانی بوریوں کے ساتھ رکھ دی جاتی ہیں تو پرانی بوریوں سے کیڑے مکوڑے نئی بوریوں میں منتقل ہو جاتے ہیں اور اپنی نسل کشی شروع کر دیتے ہیں۔غلہ کی چھان پھٹک اور گوداموں کی صفائی کے وقت ضائع شدہ غلہ اور گردو غبار گوداموں کے قریب پھینک دیا جاتا ہے جس سے نقصان رساں کیڑوں کی مختلف حالتیں اڑ کر یا رینگ کر واپس گوداموں میں پہنچ جاتی ہیں اور دوبارہ حملے کا باعث بنتی ہیں۔ اکثر اوقات متاثرہ غلہ کو گوداموں کے پاس ہی کھلی دھوپ میں سکھانے کیلئے ڈال دیا جاتا ہے۔ نتیجتاً وہاں سے کچھ کیڑے زندہ بچ کر واپس گوداموں میں چلے جاتے ہیں اور ذخیرہ شدہ غلے کو نقصان پہنچانے کا باعث بنتے ہیں۔
گندم کو ذخیرہ کرنے سے پہلے خشک کر لینا بہت ضروری ہے کیونکہ خشک اور تھوڑی نمی والے غلہ پر کیڑوں کا حملہ کم ہوتا ہے۔ غلہ کو ذخیرہ کرنے سے پہلے گودام کا اچھی طرح معائنہ کیا جائے تاکہ اس میں موجود خالی بوریوں میں پناہ لئے ہوئے گذشتہ ذخیرہ کے کیڑے نئی بھرتی پر منتقل نہ ہونے پائیں۔ اس مقصد کیلئے گودام کو حسب ضرورت گرم کیا جائے یا اس میں زہریلی دوائیاں استعمال کریں۔ غلہ کو گوداموں کی دیواروں سے ذرا فاصلے پر ذخیرہ کرنا چاہیے۔ گندم کی بوریوں کو گوداموں میں اس طرح ذخیرہ کیا جائے کہ بوریوں کے درمیان اور اطراف سے اس کا معائنہ کیا جا سکے اور ہوا با آسانی گزر سکے۔ گوداموں کی صفائی اور کیڑے مار زہروں کے استعمال کے لئے مقامی زرعی ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں تاکہ محنت سے اؑ گائے ہوئے اناج کو ضائع ہونے سے بچایا جاسکے۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

WordPress Blog