میدان جنگ سر زمین عرب کے بہت بڑے جنگجو ، بہادر دیو قامت پہلوان عمرو بن عبدود کے نعروں اور للکار سے گونج رہا تھا عمرو بن عبدو جو ایک ہزار سواروں کے برابر مانا جا تا تھا ۔ اُس کو اپنی طاقت اور بہادر ی کا اتنا غرور تھا کہ غزوہ احزاب خندق کے دوران خندق عبور کر کے مسلمانوں کے سامنے آکر بار بار للکار رہا تھا ۔ اُس کی للکار سن کر تاریخ انسانی کے سب سے بڑے شجاع اور بہادر شیرِ خدا بار بار اُٹھ کر فخرِ دو عالم ﷺ سے اجازت طلب کر تے کہ یا رسول اللہ ﷺ مجھے اجازت دیں میں اِس دیو ہیکل پہلوان کا غرور خاک میں ملاتا ہوں ۔ لیکن سرور کائناتﷺ نے شیرِ خداؓ کو بٹھا دیا ۔ لیکن جب عمرو بن عبدود نے دوبارہ مسلمانوں کو للکارا تو شیرِ خداؓ پھر مقابلہ کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے لیکن سرور دو عالم ﷺنے پھر آپؓ کو بٹھا دیا تیسری بار عمرو بن عبدود نے للکارا اور مغرور لہجے سے ملامت کرتے ہوئے کہنے لگا۔ تمھاری وہ جنت کہاں ہے جس کے متعلق تمھارا خیال ہے کہ تم قتل ہو کر اُس میں داخل ہو گے ۔ کیا تم مسلمان میرے مقابلے کے لیے کسی ایک انسان کو بھی نہیں لا سکتے اب ایک بار پھر شیرِ خدا نے بے تاب ہو کر عرض کی یا رسول اللہ ﷺ میں جانتا ہوں یہ عمرو بن عبدود ہے مجھے اِس سے مقابلے کے لیے جانے دیجیئے تو اب محبوب خدا نبی کریم ﷺ نے آپؓ کو اجازت دی اپنی تلوار مرحمت فرمائی اور اپنے دستِ مبارک سے پر عمامہ باندھا تو شیرِ خداؓ مقابلے کے لیے بے تاب ہو کر دیوانہ وار جوش سے عمرو بن عبدود کے مقابل ہوئے اور اُس سے پوچھا کیا یہ تیرا قول ہے کہ جو شخص تجھ سے تین باتوں کی درخواست کرے تو اُن میں سے ایک ضرور قبول کرے گا اُس نے کہا ہاں ۔شیرِ خداؓ نے فرمایا میں تجھ سے کہتا ہوں کہ اسلام قبول کر لے تو عمرو نے کہا یہ کبھی نہیں ہو سکتا تو شیرِ خدا نے فرمایا تو پھر جا کر گھر بیٹھ جا اور مسلمانوں سے لڑنے کی غلطی نہ کر جواباً عمرو بن عبدود بولا اِس طرح عرب کی عورتیں مجھ پر ہنسیں گیں کیونکہ میں نے نذر مان رکھی ہے کہ جب تک محمد ﷺ سے جنگِ بدر کا بدلہ نہ لے لوں اپنے سر میں تیل نہ ڈالوں گا اور میں اپنی نذر پوری کئے بغیر واپس نہیں جاؤں گا ۔ تو شیرِ خداؓ بولے تو آپھر مجھ سے آکر لڑ عمرو بن عبدود ایک تجربہ کار بہادر اور جنگجوتھا وہ شیرِ خداؓ کی بات سن کر طنزیہ اور تکبرانہ انداز میں ہنس پڑا اور کہنے لگا میں یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ پورے عرب میں کوئی شخص مجھ سے مقابلہ کرنے کی جرات کر سکے ‘عمرو بن عبدود غضب ناک ہو کر گھوڑے سے اُتر آیا اور شیرِ خداؓ سے پوچھا مُجھ سے لڑنے کی ہمت کر نے والے تم کون ہو تو شیرِخدا نے جواب دیا میں علیؓ ہو ں ابن ابی طالب اور میری ماں مجھے حیدر کہتی ہے ۔عمرو بولا میں تم سے لڑنا نہیں چاہتا کیونکہ میرے والد اور تمھارے والد کے درمیان دوستانہ تعلقات تھے ۔ لیکن حضرت علیؓ نے گرج کر کہا اے دشمنِ خدا میں تم سے لڑنا چاہتا ہوں ۔ عمرو غضب ناک ہو گیا اور تلوار لے کر آپؓ پر ٹوٹ پڑا عمرو کی تلوار شعلے برسا رہی تھی حضرت علیؓ نے اُس کی تلوار کے وار کو اپنی ڈھال پر روکا پھر شیرِ خداؓ نے وار کیا حضرت علیؓ نے عمرو کے کندھے پر تلوار کا وار کیا تو شیرِ خداؓ کے حملے کی تاب نہ لا سکا اور زمین پر گر پڑا پھر اٹھا پھر گِر پڑا پھر اُٹھا تو چارو ں طرف غبار پھیلا ۔ شیرِ خدا نے ایسا بھر پور وار کیا کہ طاقت و شجاعت کا آہنی انسان زمین بوس ہو گیا اُس کے گرتے ہی شیرِ خداؓ نے باآواز بلند تکبیر کہی اب عمرو کے ساتھی آگے بڑھے لیکن وہ بھی حضر ت علیؓ کے سامنے نہ ٹہر سکے اور بھاگ نکلے ۔
جب یہودیوں کی سازشوں کے نتیجے میں خیبر پر لشکر کشی ہوئی تو بھی شیرِ خداؓ سرور کائنات ﷺ کے ہمر کاب تھے ۔ خیبر میں یہودیوں کے بہت سارے مضبوط قلعے تھے جو جلد ہی فتح ہو گئے لیکن ایک مضبوط قلعہ حصنِ قموص کئی دنوں کی کوششوں کے بعد بھی ابھی تک فتح نہیں ہوا تھا اِس قلعہ کا مالک ایک نامور یہودی امیر مرحب نامی تھا ۔جو طاقت و بہادری میں اپنی مثال آپ تھا اُس کی بہادری کے چرچے دور دور تک پھیلے ہوئے تھے جب کئی اکابر صحابہ ؓ کو قلعہ مسخر کرنے میں کامیابی نہ ہوئی تو ایک دن شام کو سرور کائنات ﷺ مالک دو جہاں نے فرمایا کل میں اُس شخص کو عَلم دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ تعالی فتح دے گا اور جو اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کو محبوب رکھتا ہے اور اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ اس کو محبوب رکھتے ہیں ۔ساری رات عاشقانِ مصطفے ﷺ نے اِس انتظار میں گزاری کہ دیکھیں صبح یہ سعادت عظیم کس کے حصے میں آتی ہے ۔صبح ہوئی تو ساقی کوثر نے حضرت علی ؓ کو بلا بھیجا ۔وہ اُس وقت آشوب چشم میں مبتلا تھے شیرِ خداؓ سرور دو جہاں ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو شافع دو جہاں ﷺنے آپ ؓ کی آنکھوں میں اپنا مقدس و اطہر لعابِ دہن لگایا سرتاج الانبیاء ﷺ کے لعب دہن کی برکت سے حضرت علیؓ کی آشوب چشم کی بیماری فوری ختم ہو گئی۔ اب مالک کائنات ﷺنے عَلم آپ ؓ کو عطا فرمایااور حملہ کرنے کا حکم دیا۔ شیرِ خداؓ نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ کیا یہود کو بزورِ شمشیر مسلمان بنالوں تو آقائے دو جہاں ﷺ نے فرمایا نہیں ان کو نرمی سے اسلام کی دعوت دو اگر تمھاری تبلیغ سے ایک بھی شخص راہِ ہدایت پر آگیا تو تمھارے لیے بڑی سے بڑی نعمت سے بھی بہتر ہے ۔
شیرِ خداؓ نے شہنشاہِ دو عالم ﷺ کے ارشاد کی تعمیل کی لیکن یہودی غرورو تکبر میں لڑنے پر تُلے ہوئے تھے اُن کا سردار مرحب جس کو اپنی طاقت ، مہارت اور شجاعت پر بہت زیادہ مان تھاوہ خود کو ناقابلِ تسخیر سمجھتا تھا کہ روئے زمین پر میرا مقابل کوئی نہیں ہے سر پر زرد رنگ کا مغفر اور اس پرسنگی خود سجائے یہ فخریہ جملے پڑھتا ہوا قلعے سے نکلا ۔ ترجمہ ۔ خیبر جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں ہتھیاروں سے لیس ، بہادر اور تجربہ کار ہوں جب لڑائیوں کے شعلے بھڑکتے ہیں ۔ اُس کے جواب میں شیرِ خدا یہ پڑھتے ہوئے آگے بڑھے ترجمہ۔میں وہ ہوں جس کا نام میری ماں نے حیدرؓ رکھا ہے جھاڑیوں کے شیر جیسا ہیبت ناک اور ڈراؤنا میں دشمنوں کوآنِ واحد میں ٹھکانے لگا دیتا ہوں ۔مرحب نے غضب ناک ہو کر شیرِ خداؓ پر حملہ کیا لیکن اللہ کے شیرؓ نے اپنی تلوار کے ایک ہی بھر پور وار سے مرحب کا سر دو ٹکڑے کر دیا اور آگے بڑھ کر قلعے پر حملہ کر دیا قلعے کا دروازہ اکھاڑ کر اس سے سپر کا کام لیا تھوڑی دیر میں ہی شیرِ خداؓ کی محیرا لعقول شجاعت سے قلعہ فتح ہو گیا ۔یہ عظیم کا رنامہ سر انجام دینے کے بعد دربارِرسالت ﷺ کی طرف بڑھے تو شہنشاہِ دو جہاں ﷺ نے خیمے سے باہر نکل کر شیرِ خداؓ کو اپنے کنارِ شفقت میں لیا اور پیشانی چوم کر مبارک دی حضرت علیؓ فرطِ مسرت سے رونے لگے ۔