ہر الیکشن کے بعددھاندلی،دھاندلی کا شورمچ جاتا ہے۔دارصل پاکستان میں انتخابات سودخورسرمایہ داروں،بدکرداروڈیروں،مزدوروں کاخون چوسنے والے صنعتکاروں اور انگریزکی ناجائزاولاد جاگیرداروں کے چونچلے اور کھیل تماشا بن چکے ہیں۔ یہ لوگ تو کتوں کی لڑائیاں جو کہ ان کا خاص مشغلہ ہے میں بھی شکست برداشت نہیں کرتے تو یہ الیکشنوں میں پیٹھ لگتی کیسے دیکھ سکتے ہیں ۔اصل میں تو کم ازکم ایک عام ملک گیرانتخاب میں ان سبھی کو آؤٹ کیا جانا ہی ملک اور عوام کے مفاد میں ہوگاہر ایسے شخص پر انتخاب میں حصہ لینے پر پابندی ہو نی چاہیے جو پانچ ایکڑ سے زائد زمین کا مالک یا بیس لاکھ سے زائد روپوں کا کاروبار کرتا ہو۔اور ایسا اس وقت خود بخود ہی ممکن ہو سکتا ہے جب ہم انتخاب کے لیے متناسب نمائندگی بلحاظ تعداد و آبادی کا طریق کاراختیار کریں۔اور سیاسی پارٹیاں بھی اسی طریق کار کی پابند ہوں اس طرح ہر سیاسی پارٹی کو اس کے کل حاصل کردہ ووٹوں کے تناسب سے قومی اسمبلی ، صوبائی اسمبلی اور سینٹ میں حق نمائندگی مل سکے گا اس طرح منتخب اسمبلیوں میں معاشرے کے غیر جاگیردار ، اور تعلیم یافتہ متوسط اور نچلے طبقات کے لوگ پہنچ جائیں گے ۔سیاسی پارٹیاں آبادی کے تناسب کی بنیاد پر تمام لوگوں ،مزدوروں کسانوں محنت کشوں و دیگر طبقات کی سیٹیں مختص کردیں تو ملک کی لوٹوں لٹیروں سے جان چھوٹ جائے گی۔ اور ملک صحیح معنوں میں فلاحی مملکت بن سکے گاایک طبقہ کسی بھی صورت دوسرے طبقے کوالاٹ کردہ مخصوص سیٹوں پر حصہ نہیں لے سکے گا ۔الیکشن میں کسی امیدوار کوسرمایہ خرچ کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ تمام امیدواروں کے پروگرام انتخابی منشور اور پمفلٹ وغیرہ حکومت چھپوائے گی۔ اور تمام امیدواروں کے مخصوص حلقہ انتخاب میں مشترکہ جلسہ ہائے عام بھی حکومتی مشینری کے ذمہ ہوں گے جس سے تمام امیدوار مساوی الاٹ کردہ وقت میں اپنے خطاب کے ذریعے اپنا اپنا پیغام پہنچا سکیں گے۔ ہر حلقہ انتخاب میں مو جود یونین کونسلوں میں دو دفعہ مختلف جگہوں پر جلسوں کا انعقاد کافی ہو گا۔ جلسو ں اور الیکشن والے دن ووٹروں کو پہنچانے کے لیے حکومتی ٹرانسپورٹ ہی مکمل ذمہ دار ہو گی ۔ مشترکہ پمفلٹ بذریعہ ڈاک اور حکومت مشینری کے افراد جن کی تعیناتی الیکشن کے انعقاد کے اعلان کے ساتھ ہی ہو جائیگی گھر گھر ان پمفلٹوں کو پہنچانے کے ذمہ دار ہوں گے ۔کوئی امیدوار کسی جگہ ووٹروں سے جعلی وعدے کرتا پایا جائے اور روٹی کی دعوت دیتا پکڑا گیا تو وہ مستوجب سزا بھی ہو گا اور خود بخودعوام کی نمائندگی کے لیے نااہل ہو جائیگا۔متناسب نمائند گی بلحاظ آبادی وتعداد طبقات کے طریق پر الیکشنزکروانے سے یہ امر بالکل عیاں ہے کہ مزدور و محنت کش طبقات کو90 فیصدسے زائد نشستیں حاصل ہوں گی ۔سینیٹر بھی صوبائی وقومی اسمبلی کے ممبران کے ووٹوں سے نہیں بلکہ ہر صوبے میں برابر نشستوں کی تعداد میں براہ راست عوامی ووٹوں سے منتخب ہوں گے۔اس طرح سے سرمایہ کی بنیاد پر منتخب ہونا نا ممکن ہوجائے گااور گدھا گھوڑا ٹریڈنگ کا بھی خاتمہ ہو جائے گا ۔ اور منتخب امیدواران جس طبقے سے تعلق رکھتے ہوں گے اسی کی نمائندگی احسن طریق پر کرسکیں گے کہ وہ اپنے اپنے طبقے کی اونچ نیچ ، اندرونی ،بیرونی و روز مرہ مسائل کے بارے میں پہلے ہی بڑی اچھی طرح آگاہ ہوں گے کہ وہ خود انہی مسائل کا شکار رہ چکے ہوں گے اسی طرح صدر وزیر اعظم کا انتخاب بھی براہ راست عوامی ووٹوں سے کروایا جائے ۔گورنروں، وزرائے اعلیٰ اوردیگر وزراء کا بھی انتخاب براہ راست ووٹوں سے کیا جائے ۔اگر ہوسکے تو بیورو کریسی و انتظامیہ کے اہم افرادتحصیل دار، اسسٹنٹ کمشنر،ڈپٹی کمشنر ،کمشنر ،سیکریٹری ،ہوم سیکریٹری ،چیف سیکریٹری اور دوسری طرف ،ایس ایچ او ،ڈی ایس پی ،ایس پی (ڈی پی او)،ڈی آئی جی ، آئی جی وغیرہ بھی عوامی ووٹوں سے اگر منتخب کیے گئے تو وہ محنتی ہوں گے ۔اور عوامی مسائل کو خود سمجھتے اور ان کو حل کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے جبکہ آج کل تو ہماری بیورو کریسی اور عوام کا فاصلہ زمین و آسمان جتنا ہے تمام انتخابات اور سبھی منتخب افراد و ممبران اسمبلی کی مدت تین سال یا حد چار سال سے زائد نہ رکھی جائے۔ ہر ووٹر پر ووٹ ڈالنے کی پابندی ہو گی۔ خواہ وہ گھر پر بیٹھے ہی انٹر نیٹ یا دوسرے ذرائع سے ووٹ کیوں نہ ڈال دے یا بذریعہ ڈاک ارسال کرڈالے۔اپنے انگوٹھا کا پرنٹ سکین کرکے ای میل کے ذریعے بھی ووٹ ڈال سکتا ہے۔ ایسی سہولت سے بزرگ، معذو راور نابینا ووٹرز بھی بغیر کسی مشقت کے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرسکیں گے۔بیرون ملک پاکستانی جو کہ ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں انھیں بذریعہ ڈاک ووٹ کا حق ہر قیمت پر دیا جانا چاہیے اگر اس طریق کار سے سابقہ سفید چمڑی والے حکمرانوں کے گھروں میں ملازمت کرنے والے ،والیوں کی ناجائز اولادوں کو سیٹیں نہ ملیں گی تو کیا آسمان ٹوٹ پڑے گا؟یا جمہوری لونڈیا بیسوا ہو جائے گی ؟کچھ بھی نہ ہو گا۔جاگیر داریا کوئی کَن ٹُٹا وڈیرہ اگرکسی انتخاب میں امیدوار ہوتا ہے تو نہ صرف اس کے مزارعے ، اس کی قریبی بستیوں کے رہائشی بلکہ سیاسی پارٹیاں بھی اسکی غلام بن جاتی ہیں اور جب ایسے لوگ اقتدار حاصل کرلیتے ہیں تو ان کی ملیں تک ناجائز بچے جننے لگ جاتی ہیں۔اسی طرح سے صنعتکار بھی کھلا مال خرچ کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے سارا حرام سرمایہ دنیا کے غلیظ ترین غیر اسلامی و غیر شرعی نظام “سود” سے ہی کمایا ہوتا ہے۔ ان کے لیے تو کسی سیاسی پارٹی کے لیڈر حتیٰ کہ کٹھ ملائیت کے علمبرداروں کو خریدنا اور ورغلانہ بہت آسان ہوتا ہے موجودہ سیاست کی ہی مثال لے لیں کہ ترینگر ذاتی ہوائی جہازوں پر عمران خان کو لے کرنہ اڑتا پھرے تو کیا وہ سیکریٹری جنرل رہ سکتا ہے۔ سیاست بنئیے کی دکان اور اُس مخصوص بازار کی طرح ہو چکی ہے کہ جو زیادہ مال لگائے گابلو رانی اسی کی ہو جائے گی ۔خود فروش داشتاؤں اور اس بازار کی حسیناؤں کی طرح یہ خودبھی خود فروش ہیں، اور اقتدار کے لالچی و حریص ہیں پارٹیاں ان کی جاگیریں بن چکی ہیں اور” تھوتھا چنا باجے گھنا “کی طرح ان کاکھو کھلا پن سینٹ کی طرح ہر انتخاب میں الف ننگا ہو جاتا ہے۔ محسوس ایسے ہو تا ہے کہ ہمارے ملک کی باگ دوڑ کٹھ پتلیوں کے ہی پاس نہیں بلکہ خونی زہریلے سانپوں، اژدھوں اور کالے بچھوؤں کے پاس ہے جو کہ ہر وقت غریبوں کو ڈسنے ،انکا خون چوسنے اور مال ہڑپ کرکے باہر کے بینکوں میں جمع کرواتے رہتے ہیں ۔ پاکستان کے مشہور سیاستدانوں کے اگر” ڈوپ ٹیسٹ “کروائے جائیں تو شاید ہی ان میں سے کوئی ملکی سیاست میں رہ سکے گا ۔کہ ان میں سے کوئی بھی شاید آئین کی 62.63 دفعات پر پورا اترتا ہو گا ۔ڈوپ ٹیسٹ سے انکی سابقہ اور مو جودہ ساری زندگی کی رنگین راتوں کے چھپے ہوئے سارے ” کار ہائے نمایاں ” روز روشن کی طرح عیاں ہو جائیں گے۔ اور اس طرح اوباش و بدمعاش وڈیرے ،ظالم جاگیردار ،سود خور صنعتکار ، نو دولتئیے ،اورسرمایہ پرست ذخیرہ اندوز اور کاروباری ٹھگ غرضیکہ سبھی ہمارے ملک کے سیاسی جنگل سے فوراًگیدڑوں ، لومڑیوں ،اور بھگیاڑوں کی طرح خود بخود بھاگ جائیں گے۔ان کا سارا ناجائز سرمایہ بحقِ عوام ضبط کیا جائے تو رہ جائے گا نام باقی صرف اللہ کااور اس کے مخلص پیروکاروں کا۔اس طرح کے الیکشن سے اکڑی مغرور گردنوں پر ہر صورت عوام کے اصل گنڈاسا کا وار ہو گا اور حکومت زمین پراللہ کی قائم ہو گی ۔اور اللہ اکبر تحریک اس کو چلائے گی تو سارے ملک کا نظام تبدیل ہو کر رہے گا۔ نہ کوئی بے روز گار ہو گا ، نہ کوئی بھوکا ننگا بغیر چھت کے سوئے گا۔مزدوروں کو ملوں کے منافع میں سے دس فیصدحصہ حاصل ہوگا کم ازکم تنخواہ پچاس ہزار روپے ماہانہ ہو گی۔ کھانے پینے کی تمام ضروری اشیاء 1/5قیمت پر اور ہمہ قسم تیل1/3قیمت پر دستیاب ہو گاتو ملک صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی مملکت بن جائے گا۔انشاء اللہ العزیز۔