چھٹی اور ساتویں صدی عیسوی کا معاشرہ بے شمار بیماریوں میں لت پت ہوچکا تھا،مثلا اس وقت ان کے پاس کوئی رہبر و پیامبر نہیں تھا بس جس فرد کے من میں جو آتا وہ اس کو کر گذرتاتھا ۔اس معاشرہ میں بسنے والے اپنے متعلقین خواہ ان سے کتناہی بڑا خونی رشتہ نہ ہو اس کی تمیز کیے بنا وہ ان کے حقوق کو غصب کرتے ہوئے اپنی ذاتی منفعت و استراحت کے لیے سب کچھ کر گذرتے تھے۔اس معاشرے کو جن مسائل کا سامنا تھا ان میں سے ایک اہم مسئلہ ملت کی مجموعی فلاح و بہتری کی سوچ و فکر کر نے والا کوئی فرد موجود نہ تھا ۔اس معاشرے میں بھی بہت سے افراد انفرادی طور پرروحانی زندگی بسر کر رہے تھے ماسبق کتب کی روشنی میں اسی بات کو بیان کرتے ہوئے قرآن مجید نے کہا ہے ’’لیسوا سواء من اھل الکتاب امۃ قائمۃ یتلون اٰیٰت اللہ اٰنا الیل وھم یسجدون،یؤمنون باللہ والیوم الآخر ویامرون بالمعروف وینھون عن المنکر ویسارعون فی الخیرات واولٰٓک من الصالحین۔‘‘سب یکساں نہیں (انہی)اہل کتاب میں ایک جماعت قائم ہے(اس بات پرکہ) یہ لوگ اللہ کی آیتوں کی تلاوت اوقات شب میں کرتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں ،یہ اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں اور بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں اور اچھی باتوں کی طرف دوڑتے ہیںیہی لوگ نیکوکاروں میں سے ہیں۔(سورہ آل عمران آیۃ 113-114)اس سے معلوم ہوا کہ بہت سے ایسے افراداس معاشرے میں موجود تھے جو ذاتی اور انفرادی طور پر صالح الاعمال اور سلیم العقل تھے ۔ مگر افسوس کہ وہ بحیثیت اجتماعی ،بہترانسانی معاشرے کے قیام سے یا تو عاجز تھے یا انہوں نے اپنے نیکو کار ہونے پر اکتفا کر لیا تھا۔
بعثت خاتم النبیینﷺ و امت آخرۃ
ساتویں صدی عیسوی کے اس انسانی معاشرے کی ان تمام کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے کوئی مناسب و مؤثر قیادت میسر نہ آرہی تھی ایسے میں اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کو یہ شرف بخشا کہ نبی مکرم رسول معظم ﷺکی بعثت اور آخری امت کی بعثت فرمائی ۔مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ فرماتے ہیں کہ ’’ساتویں صدی میں جس خلاکوپوری صلاحیت اور قدرت کے ساتھ ملت اسلامیہ نے پرکیاتھا،وہ عالمی قیادت کا خلا تھا۔اس خلاکا پرہونا امت اسلامیہ کی بعثت کا کرشمہ ہے،جس کا ایک ایک فرد مینارہ نور،حامل ایمان ویقین تھا،جس نے ظلمتوں میں اپنی راہ پیدا کی(زمانے کا حقیقی خلاء 17) ‘‘امت اسلامیہ کی بعثت یعنی بھیجے جانے کے بہت سے ثبوت قرآن و حدیث میں موجود ہیں یہاں اختصار کے پیش نظراتنا عرض کروں گا کہ آنحضرت ﷺ کے جلیل القدر صحابی حضرت ربعی ابن عامرؓ فارس کے بادشاہ رستم کے دربار میں اسلام کا پیغام امن و آشتی لے کر جاتے ہیں تو اس پر رستم نے آپؓ سے سوال کیا کہ وہ کون سی بات ہے جس نے آپ کو اپنے علاقہ ترک کر کے یہاں آنے مجبور کیا؟تو حضرت ربعی ابن عامرؓ نے جواب میں جوالہامی کلمات کہے وہ سونے سے نقش کرنے کے قابل ہیں۔وہ فرماتے ہیں کہ ہمیں کوئی جاہ و منزلت ، دولت کی لالچ یا حکومت کرنے کا شوق یہاں کھینچ کر نہیں لایابلکہ’’یہاں اللہ نے ہمیں بھیجا ہے تا کہ جس کو وہ چاہے اس کو بندوں کی بندگی سے نکال کر صرف اللہ کی بندگی میں داخل کریں،اور دنیاکی تنگی سے نکال کر دنیاکی وسعت میں داخل کریں،اور مذاہب و ادیان کی زیادتیوں سے نجات دلاکر اسلام کے انصاف میں داخل کریں‘‘اگر یہ کہاجائے تو بے جانہ ہوگا کہ دین اسلام نے جانوروں سے بھی بدتر معاشرے کی قیادت سنبھالی اور ان کی اصلاح و فلاح کا علم لہرایا۔یہ اسلام ہی کا امتیاز ہے، اسلام کے اس امتیازکو جاننے کے لیے اولین اسلامی حکومتوں کے حالات کو تفصیل سے پڑھاجاسکتاہے۔
عصرحاضرکے مسائل
عصر قدیم کا معاشرہ جس طرح بے پناہ امراض کے سبب متعفن ہوچکاتھا آج عصر حاضرکی صورتحال بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہے۔آج معاشرے کا ہر فرد اپنی انفرادی دنیوی زندگی اچھی سے اچھی بسر کرنا چاہتاہے، ہ بناکسی تمیز و چھان بین کے تمام وسائل مادیہ کا جائز و ناجائز استعمال کرکے اپنی ذاتی زندگی بہتر اور اچھی بسر کرناچاہتاہے۔ یعنی اچھی گاڑی،اچھاگھر،بینک بیلنس،سماج میں بڑاعہدہ و بڑانام ،یہ سب کچھ حاصل کرنے کی فکر میں منھمک ہے۔اگر چہ یہ امر اسلام کی نظر میں مکمل طور پر معیوب نہیں ہے ہاں البتہ اسلام اتنی دعوت فکر ضرور دیتاہے کہ آپ نے اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے جو وسائل حاصل کیے ہیں ان کے حصول کا واسطہ و طریقہ جائز ہونا چاہیے اور دوسرا یہ کہ اگر آپ کو اللہ نے آپ کی محنت کی بدولت عنایات و عطایات سے نوازا ہے تو ایسے میں اللہ کے احسان مند رہیں اپنی اس کامیابی کو ذاتی تفاخر و بالادستی کے لیے استعمال نہ کریں،اور اسی طرح اپنے حلال مال کو خرچ کرنے میں اسراف و تبذیر سے احتراز کریں۔اور سب سے بڑھ کر اپنی زندگی کے مکمل ضابطہ حیات میں اس اللہ واحد کے سامنے سرِ تسلیم خم کر لیں جس کی عنایات کی بدولت آپ دنیا میں بہتر زندگی گزارنے کے قابل ہوئے ہیں۔
میں اس مقام پر عصر حاضرمیں ملت اسلامیہ کو درپیش مسائل ذکر کرنا چاہتاہوں۔ویسے تومسائل کی بہت طویل فہرست ہے مگر اختصار کے پیش نظر میں چند اہم مسائل کی جانب اشارہ کروں گا۔اولاًقیادت کا فقدان ثانیاًمادیت میں غلو پر مبنی سوچ و فکر،ثالثاًذمہ داری کا عدم احساس، رابعاًاخلاقی پستی ،خامساًاجتماعیت کی عدم دستیابی اور سادساًعصرحاضرکی ضرورتوں سے ناواقفیت۔
1:قیادت کا فقدان
جیسا کہ میں ماسبق میں ذکر کرچکاہوں کہ اسلام کی آمد کا مقصد ہی انسانیت کو بہترین ،پاک صالح ،خداترس اور انسان دوست اور اللہ تعالیٰ سے خشوع وخضوع رکھنے والی قیادت کی فراہمی تھی۔اسلام نے انسانیت کو جو قیادتیں فراہم کیں ان کی مثالیں پیش کرنے کی آپ کے سامنے اگر چہ ضرورت نہیں مگر بطور یاد ہانی کہ چند شخصیتوں کی مثال پیش کرتاہوں۔آنحضرت ﷺکے جانشین اول سیدناصدیق اکبرؓ نے منصب خلافت سنبھالتے ہی جو خطبہ دیاتھاوہ انسان دوستی پر مبنی تھا اس میں آپؓ نے فرمایاتھا کہ میرے نزدیک آپ میں سے طاقتور اس وقت تک کمزور ہے جب تک میں غریب کا حق اس سے نہ لے لوں اورآپ میں سے کمزور اس وقت تک میرے نزدیک طاقت ور ہے جب تک میں اسکوطاقت ور سے اسکا حق نہ دلادوں‘‘ دین اسلام سے محبت آپؓ میں بدرجہ اتم موجود تھی ۔ آپؓ نے جب وفات النبی ﷺ کے بعد فتنوں کو دیکھا اور ان فتنوں کی سرکوبی کرنے کا ارادہ کیا تو سیدنا عمرؓ نے مشکلات و مسائل کی جانب توجہ دلائی، اس وقت آپؓ نے فرمایا کہ ’’اینقض الدین وانا حی‘‘کہ(انسانیت کے عالمگیر اور متوازن نظام حیات یعنی) دین اسلام میں کمی کی جائے اور میں زندہ ہوں یہ امر محال ہے۔سیدنا عمر فاروقؓ جن کے زمانہ خلافت میں فتوحات فارس و روم کی شکل میں اسلام کی سلطنت میں اضافہ ہوا ۔خشیت الٰہی اوراحساس ذمہ داری ان میں اس قدررچی بسی تھی کہ وہ فرماتے تھے کہ ’’دریائے فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوکھا مرجائے تو کل روز قیامت عمرؓاللہ کو کیا جواب دے گا‘‘ اسلام کے پیام عالمگیر کو دنیا بھر میں پہنچانے کے لیے اپنی جدوجہد صرف کرنے والے حضرت عقبہ بن نافعؓ نے فرمایاتھا کہ یہ سمندر حائل نہ ہواہوتا تو میراقافلہ برابر چلتاچلاجاتایہاں تک کہ آخری کنارے تک میں اسلام کا پیغام آفاقی پہنچا چھوڑتا۔عصر حاضرکا سب سے بڑاچیلنچ جس سے مسلمان برسرپیکار ہیں وہ قیادت کی عدم دستیابی ہے۔عالم اسلام کو اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کی دولت سے نواز رکھا ہے مگر باوجود اس کے آج مسلم حکمران اغیار کی خوشنودی کے لیے اپنی تمام تر خدمات پیش کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج مسلمانوں پر ذلت مسلط ہوچکی ہے۔جس اسلام نے انسانیت میں قیادت کی کمی کو دور کیا تھا آج وہ ہی قیادت کی کمی کا شکار ہیں۔
2:مادیت میں غلو پر مبنی سوچ و فکر
عصرحاضرمیں جس طرف نظر ڈالی جائے وہیں پر ہر فرد ،ہر جماعت ،ہر قوم پرمادیت کی سوچ و فکر کا غلبہ نظرآتاہے ۔سید ابولحسن علی ندوی ؒ فرماتے ہیں کہ’’ فکر بڑی نعمت بھی ہے اور بڑاعذاب بھی۔ہروقت گھر کی فکر،زیادہ کمائی کی فکر،دولتمند بننے کی فکر ،زیادہ ترقی کرنے کی فکر،تو یہ تمام فکریں خدا کا عذاب ہیں لیکن ملت کی فکر خداکی بڑی نعمت ہے یہ درد اللہ تعالیٰ انہیں لوگوں کو عطافرماتاہے جن پر اس کا کرم ہوتاہے۔یہاں تک کہ لوگ ایسے آدمی پر رحم کھانے کے لیے کہتے ہیں کہ اسکو کسی وقت چین نہیں ہروقت ملت کے غم میں ڈوبارہتاہے ۔ مسلمان خدائی فوج دار ہے مسلمان کو کب فرصت ،مسلمان کے لیے کہاں کا عیش(اسی جانب توجہ دلاتے ہوئے نبی اکرمﷺ نے فرمایا تھا’’الدنیا سجن المؤمن ‘‘یعنی دنیا تو مومن کے لیے قید خانہ ہے،جیسے ایک قیدی قید خانے میں زندگی تو گزارتا ہے لیکن اسے بے چینی لاحق رہتی ہے اسی طرح مومن اس دنیا میں زندگی تو گزارتا ہے لیکن اسے دارِ آخرت کی بے چینی لا حق رہتی ہے)مادیت میں غلو پر منبی جوفکریں ہم پر سوار ہوچکی ہیں اسی( ملت)کی فکرکے نہ ہونے کے سبب سے ہیں اگر یہ ایک فکر نصیب میں آجائے تو سب فانی فکروں سے نجات مل جائے(ملت کے نوجوان اور ان کی ذمہ داریاں19) ‘‘مولانا روم نے اپنی مثنوی میں ایک عبرت آموز واقعہ تحریر کیاہے ، فرماتے ہیں کہ ’’کل رات کا واقعہ ہے کہ ایک ضعیف العمر آدمی چراغ لیے شہر کے گرد گھوم رہے تھے اور اندھیری رات میں کچھ تلاش کر رہے تھے میں نے کہاحضرت سلامت آپ کیا تلاش کر رہے ہیں وہ فرمانے لگے مجھے انسان کی تلاش ہے میں چوپایوں اور درندوں کے ساتھ رہتے رہتے عاجز آگیاہوں۔میراپیمانہ صبر سے لبریز ہوچکاہے اب مجھے ایسے انسان کی تلاش ہے جو خدا کا شیر اور مرد کامل ہو۔میں نے کہا بزرگوار اب آپ کاآخری وقت ہے انسان کو آپ کہاں تک ڈھونڈیں گے اس عنقاکا ملنا آسان نہیں۔میں نے بھی بہت ڈھونڈا ہے لیکن نہیں پایا۔ان بزرگ نے جواب دیا کہ میری ساری عمر کی عادت یہ ہے کہ جب کسی چیز کو سنتاہوں کہ وہ نہیں ملتی تو اس کو اور زیادہ تلاش کرتا ہوں ۔تم نے مجھے اب اس بات پر آمادہ کر دیا ہے کہ میں اس گم گشتہ انسان کو اور زیادہ ڈھونڈوں اور اس کی تلاش سے باز نہ آؤں(آدمیت سے بغاوت از سید ابوالحسن ندویؒ )‘‘
3:احساس ذمہ داری
آج انسانوں بالخصوص مسلمانوں میں احساس ذمہ داری کا عنصر مفقود ہوگیاہے۔یوں جانا جاتاہے کہ ہم دنیامیں بس کھانے پینے ، لہوولعب میں وقت بربادکرنے ،شادی بیاہ،سیرو تفریح کے لیے آئے ہیں اور پھر مر کر ختم ہوجائیں گے۔آخرت کے انجام کی کسی کو کوئی فکر نہیں ، کوئی نہیں جانتا بلکہ جاننا بھی نہیں چاہتاکہ اس کے پیداکرنے کا مقصد اصلی کیا ہے کیوں کہ اگر وہ یہ جان لے گا تو اس سے ذمہ داری نبھانے کا مطالبہ کیا جائے گا اور آج کا انسان اپنا کام کرنے کو بالکلیہ تیار نہیں۔قرآن پاک میں اللہ عزوجل نے واضح الفاظ میں انسان کی تخلیق کے مقصد کو بیان فرمادیاہے ’’وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون(سورہ الذاریات56 )‘‘اور نہیں پیدا کیا جن اور انسان کو مگربندگی کے لیے۔بندگی یہ نہیں ہے کہ نماز ،روزہ ،حج ادا کرلیا اور چند خوشی غمی کی رسوم کو پورا کر دیا بلکہ عربی جاننے والے سمجھتے ہیں کہ بندگی کا مفہوم برا وسیع ہے، انسان کی ساری کی ساری زندگی اللہ تعالی کے سامنے تسلیم ہو جانا ہی کامل بندگی ہے۔اسی طرح انسان پرلازم ہے کہ وہ خودزندگی کے الہی ضابطہ حیات یعنی اسلام پر چلے اوراپنے قرب و جوار میں بالخصوص اور ساری انسانیت تک بالعموم اسلام کے پیغام کو پہنچانے کی جہد مسلسل کرے۔اس فرض سے ہر وہ آدمی سبکدوش نہیں ہو سکتا جو دعویدار ہے اس بات کا کہ اس نے محمد عربیﷺ کے پیغام کو مکمل طور پر قبول کر کے اسلام کو اپنی دنیوی زندگی کا کامل ضابطہ حیات مان لیا ہے۔
4:اخلاقی پستی
زمانہ قدیم کی طرح عصرجدید کے معاشرے میں انسانوں کا باہمی تعلق مطلب پرستی اور مفاد ات کو سامنے رکھتے ہوئے قائم ہے ۔ موجودہ دنیا کے انسان میں خداپرستی پر نفس پرستی غالب آچکی ہے ،آج کا انسان مادیت کا غلام بن چکا ہے،اس میں انسانیت کا احساس مٹ چکاہے ،ہر فرد جنسی خواہشات اور مادی ضروریات کی رومیں بہا جارہاہے کسی بھی وقت وہ ذراٹھہر کر یہ سوچنے پر تیار نہیں کہ اللہ نے اس کو معدہ و پیٹ کے ساتھ دماغ،دل اور روح بھی عطا کی ہے اور اس کی بالیدگی کے لیے لازم ہے کہ انسان اپنے اخلاقی اوصاف کو درست کرے اپنے دل میں پوری انسانیت کا درد پیدا کرے کیوں کہ انسانوں کی سوچ و فکر اور ان کے عمل کا اثر پوری کائنات کے اخلاق اور معاملات پر پڑتاہے ۔اللہ تعالیٰ نے نبی اکرمﷺ کو معلم اخلاق بنا کر بھیجا تھا۔قرآن میں ارشاد ہے ’’انک لعلیٰ خلق عظیم‘‘یعنی آپ ﷺکا اپنا فرمان ہے کہ’’ انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق‘‘کہ میں اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیاہوں۔
5:اجتماعیت کی عدم دستیابی
موجودہ معاشرے کو ایک اہم عنصر جو دیمک کی طرح چاٹ رہاہے وہ باہمی اتحاد و یگانگت کی عدم دستیابی ہے۔موجودہ معاشرہ متعدد طبقوں میں بٹ چکاہے یعنی ملت اسلامیہ کا شیرازہ بکھر چکاہے۔اسی سبب سے دشمنان اسلام ہمیں گاجر ومولی کی طرح کاٹتے جارہے ہیں ۔کیوں کہ اتحاد و اتفاق میں برکت ہے چرند ،پرند،حیوان اور انسان میں سے جو بھی اس کو اپنا لے اس میں فطرتی طور پر قوت و طاقت پیدا ہوجاتی ہے اور دشمن کے دل میں انکا خوف گھر کرجاتاہے۔اسلام نے مسلمانوں کو باہمی اتحاد و اتفاق اور آپس میں بھائی چارگی کی فضاپیدا کرنے کی دعوت دی ہے اور اس پر ریاست اسلامیہ مدینہ میں آپﷺ نے انصار و مہاجرین میں مواخات مدینہ قائم کر کے عملی ترغیب دی۔اسلام کے دامن عافیت میں پناہ لینے والے تمام افراد کو یکساں حیثیت مل جاتی ہے،شخصی امتیازات کے سبب مراتب کی درجہ بندی تو ہوسکتاہے مگربحیثیت مسلم ان میں کسی قسم کی تقسیم روا نہیں رکھی یہ امر سنت باری تعالیٰ ہے کہ اللہ نے صحابہ کرامؓ کا تذکرہ فرماتے ہوئے ہمیشہ جمع کا صیغہ استعمال کیاہے ۔کہ یہی لوگ کامیاب ہیںِیہی لوگ راشدہیں،یہی لوگ مومن ہیں وغیرہ مگر افسوس آج ہم مسلمان ہوتے ہوئے بھی اسلام کے پیغام کو ملکی،سیاسی،مذہبی،صوبائی،لسانی،قومی عربی و عجمی جیسی تقسیمات میں بانٹ کر ملت کی اجتماعیت پر شب خون مار چکے ہیں۔
6:عصرحاضر کی ضرورتوں سے ناواقفیت
موجودہ دور میں ایک اور امر جس کا ہم مسلمانوں کو سامنا ہے وہ یہ کہ وقت کے تقاضوں اور ضروریات سے بے پرواہ ہوچکے ہیں۔اس امر میں کوئی دورائے نہیں کہ اسلام تاقیامت انسانیت کی راہنمائی کے لیے آیاہے اس پر لب کشائی کی اجازت کسی کو نہیں البتہ زمان و مکان کے بدلنے کے ساتھ ساتھ اسلامی دعوت کو اسی پیرائے میں پیش کرنے کی ممانعت بھی ہر گز نہیں کی گئی ۔قرآن پاک میں بڑی صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ’’ ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ‘‘کہ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت و دانائی اور موعظۃ حسنہ خوش اسلوبی کے ساتھ دعو ت دیں۔موجودہ دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے ،انسان چاند پر اپنی کمند ڈال چکاہے،عمل اور تجربہ کے بنا کسی بات کو کوئی قبول کرنے کو تیار نہیں۔اس لیے ضروری ہے کہ حضورﷺ اور آپ کے صحابہؓ کی طرح اسلام کی دعوت کو پورے عالم میں پہنچانے کے لیے دعوت کے اسلوب پر از سر نو داعیان دین غور کریں۔آج کا معاشرہ دوحصوں میں منقسم ہے یا تو وہ عصرحاضرکے تقاضوں سے سر ے سے ہی واقف نہیں اگر واقف ہے بھی تو اس سلسلے میں کام کرتے وقت حکمت و دانائی کے عطیہ سے خالی ہے اور دوسرا جو عصر حاضرکے تقاضوں سے واقف تو ہے مگر وہ مغر ب کی اندھی تقلید میں ہی اپنی نجات و بھلائی محسوس کرتاہے ہمارے معاشرے میں غالب عنصر اسی دوسرے طبقے سے ہیں۔ اس دوسرے طبقے کے زاویہ فکر کو درست کرنے اور ان کی صلاحیتوں کو کام میں لانے کے لیے اور پوری انسانیت کے سامنے اسلام کی صحیح تصویر پیش کرنے میں جس امر کا پیش نظر رکھنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ اپنے اسلوب دعوت کو درست کیا جائے۔سید ابولحسن علی ندوی ؒ فرماتے ہیں کہ انبیا کی دعوت اور اصلاحی تحریکات کی دعوت میں فرق یہ ہے کہ بعض تحریکیں اوردعوتیں ایمان بالآخرت کی ترجمانی بہت اچھی طرح کرتی ہیں اور بہت تفصیل کے ساتھ اور دلنشین اندازو طریقہ پر اس کی حکمتوں اور زندگی پر اس کے خوشگوار اثرات اور اخلاقی نظام میں اس کی اہمیت کا ذکر کرتی ہیں،لیکن ہر ذہین شخص محسوس کرسکتاہے کہ یہ آخرت کا صرف ایک اخلاقی ضرورت اور ذریعہ اصلاح و تربیت کے طور پر استعمال ہے اس لیے کہ اس کے بغیر بہترسماج اور صالح معاشرہ کا قیام مشکل ہے،یہ کوشش بعض وجوہ سے لائق تحسین ضرور ہے مگر انبیاء علیہم الصلوٰات والتسلیمات کے طریقہ فکر اور طریقہ عمل انکی سیرت و کردار اور ان کے خلفا و نائبین کے طریقہ زندگی سے کھلے طورپر مختلف ہیں دونوں میں فرق یہ ہے کہ انبیاء ایمان و وجدان،احساس و شعور اور ذوق و شوق کا نام ہے ،وہ ایک ایسا عقیدہ ہے کہ جو انسان کے تمام احساسات و جذبات کو اپنی گرفت میں لے لیتاہے جبکہ اصلاحی تحریکیں اس کو قانونی حیثیت سے تسلیم کرنے کی ظاہری شکل ہے ۔انبیا ء آخرت کا ذکر اس وقت کرتے ہیں جب بے ساختگی ،لذت،لطف و کیفیت کو محسوس کر لیں اور اس کی دعوت بڑی قوت ،گرم جوشی،اور یقین کے ساتھ قبول کرتے ہیں دوسری جانب اصلاحی تحریکوں کے لوگ اخلاقی و سماجی ضرورت کے بقدر اسکا ذکر کرتے ہیں،اور قومی اصلاح اور اخلاقی تنظیم کے جذبہ سے اسکی دعوت دیتے ہیں۔ (معرکہ ایمان و مادیت108از سید ابوالحسن ندویؒ )
مسلم نوجوانوں کی ذمہ داریاں
عصرحاضرمیں نوجوانوں کی ذمہ داریاں کیا ہیں ویسے تو ان کی فہرست طویل ہے کیوں کہ تاریخ شاہد ہے کہ نوجوانوں کا کردار اور ان کی ذمہ داریاں ہر دور میں مسلم رہی ہیں اسلام کی دعوت کو عروج ملنے میں بھی نوجوانوں کا بڑاکردار ہے ۔نوجوانوں کی اہمیت اسلام میں مسلم ہے اسی لیے آپ ﷺ نے اپنی حیات کے اواخر میں جس لشکر کو تیار کروایا اس کی قیادت باوجود جلیل القدر صحابہؓبشمول سیدنا عمر فاروقؓ کی موجودگی میں اس وقت کے بمشکل اٹھارہ سالہ نوجوان حضرت اسامہ بن زیدؓ کو سونپی ۔دنیامیں اب تک تمام برپاہونے والے انقلابات کا جائزہ لیا جائے تو اس میں بھی انہی کا کردار عیاں نظر آتاہے ۔خود برصغیر سے انگریز کے انخلاء اور تحریک آزادی میں نوجوانوں کے کردار کوکسی صورت فراموش نہیں کیا جاسکتا۔نوجوانوں کی اہمیت کا احساس و ادراک علامہ اقبال ؒ میں بدرجہ اتم موجود تھا اس لیے انہوں نے اپنے کلام کا وافرحصہ نوجوانوں سے متعلق تحریر کیا وہ فرماتے ہیں
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پر جو ڈالتے ہیں کمند
نوجوانوں کی ذمہ داریوں اور ان کے کردار پر بہت سے لوگوں نے لکھاہے مگر سب سے زیادہ مفصل انداز میں قرآن پاک نے بیان فرمایاہے سورہ کہف کا نام ہی ان نیک نوجوانوں کے واقعہ کی جانب اشارہ کرنے کے لیے اللہ نے رکھاکہ جو اپنا سب کچھ اللہ کے لیے قربان کر چکے تھے۔اسی طرح حضرت لقمان علیہ السلام نے قرب وفات اپنے بیٹوں کو جو نصیحت کی قرآن پاک نے واضح بیان فرمادیاحضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو سات باتوں کی وصیت کی ۔
ا۔توحید کی دعوت
آیۃ’’واذ قال لقمان لبنہ وھو یعظہ لاتشرک باللہ ،ان الشرک لظلم عظیم۔سورہ لقمان(15)
اے میرے بیٹوں اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا بیشک شرک بھاری ظلم عظیم ہے۔یعنی زندگی میں کوئی مسئلہ پیش آجائے تو اللہ کو پکارنا
ب۔اللہ کی ذات باریک بین ہے۔
’’یٰبنیی انھا ان تک مثقال حبۃ من خردل فتکن فی السمٰوات او فی الارض یئات بھااللہ ان اللہ لطیف خبیر‘‘)سورہ لقمان(16
اے میرے بیٹے !اگر کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر پھر وہ بھی کسی چٹان میںیا آسمان میں ہویازمین میں اللہ ضرور لائے گا اور بیشک اللہ باریک بین اور خبیر ہے۔
ج ۔نماز قائم کرنا
’’یٰبنیی اقم الصلوٰۃ‘‘(سورہ لقمان17)
’’اے میرے بیٹو نماز قائم کرنا‘‘کیوں کہ یہ اللہ تعالیٰ سے براہے راست مدد طلب کرنے کاواحد ذریعہ ہے ۔
د۔امربالمعروف اور نھی عن المنکر کا فریضہ
’’وامربالمعروف والنھی عن المنکر ‘‘سورہ لقمان(17)
’’ نیکی کا حکم کرنا اور برائی سے منع کرنا‘‘۔یہ فریضہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺکے صدقے ملت اسلامیہ کو عطافرمایاہے کیوں کہ یہ امر اللہ کے نزدیک محبوب ترین ہے
ھ۔مصائب و مشکالات پر صبر کرنا
’’والصبر علی مااصابک ان ذٰلک من عزم الامور‘‘(سورہ لقمان17)
جومصیبت تم پر آجائے اس پر صبر کرنا بیشک یہ عزیمت کے کاموں میں سے ہے۔انسان کوزندگی میں مصائب و مشکالات میں سے گذرنا پڑتاہے تو ایسے میں صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے۔اسلام نے مشکالت پر صبر کرنے کی بڑی اہمیت بیان کی ہے۔
و۔کبر و غرور سے اجتناب کرنا
’’ولاتصعر خدک للناس ولاتمش فی الارض مرحا ،ان اللہ لایحب کل مختال فخور‘‘(سورہ لقمان18)
’’اور لوگوں کے سامنے اپنے گال نہ پھلا،اورزمین پر اترا کے نہ چل کسی تکبر کرنے والے اور شوخی بگھارنے والے کو اللہ پسند نہیں کرتا‘‘
ز۔ رفتار و آواز میں اعتدال
’’واقصد فی مشیک واغضض من صوتک ان انکر الاصوات لصوت الحمیر‘‘(سورہ لقمان19)
’’اوراپنی رفتار میں میانہ روی پیدا کر اور آواز کو پست رکھ بیشک آوازوں میں سے بدتر آواز گدھے کی ہے‘‘
آج کا نوجوان دنیاکی رنگینی میں مستغرق ہوچکاہے ،مادیت کی دلدل میں دہنس چکاہے ۔وہ اپنی ذمہ داریوں سے انتہا درجہ تک غافل ہوچکاہے لہوولعب میں وقت گذارنے میں سکون قلبی محسوس کرتاہے ،فلمیں ،ڈرامیں،فیس بک اور سوشل میڈیا پر اپنا وقت برباد کرنے کو اپنی بلند ہمتی اور ترقی جانتاہے اور بات کرنے پر وہ اس مثل کی طرح ’’چور الٹاکوتوال کو ڈانٹے‘‘کا نمونہ پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم اپنی ذاتی زندگی میں بااختیار ہیں اور ہم من چاہی زندگی گذارنے میں ہم مکمل آزاد ہیں باپ،استاد،دوست اور داعی کسی کو کوئی حق نہیں کہ وہ ہمارے نجی و ذاتی معاملات میں مداخلت کریں۔لندن میں نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے حضر ت سید ابوالحسن ندویؒ نے فرمایا تھا کہ ’’عزیزو!آپ کو یہ سمجھنا چاہیے کہ آپ کو جنھوں نے یہاں بھیجا ہے ان کے لیے یہ کافی نہیں کہ آپ اچھے سائنس دان ،اچھے ٹیکنیشن،اچھے انجینیر،اچھے ڈاکٹر،اچھے آرٹسٹ اور مغربی زبانوں اور ادبیات کے ماہر بن کر جائیں۔اگر آپ نے صرف سائنس دان صرف انجینیراور صرف قانون دان بنے تو آپ نے ملک کو صحیح فائدہ نہیں پہنچایا،آپ کو ان علوم میں مجتھدانہ قابلیت پیداکرنی چاہیے کہ اگر آپ قانون کے طالب علم ہیں تو آپ کو اسلامی قانون پر عبور حاصل کرنا چاہیے اور دنیا کے اصول قانون کا گہرا مطالعہ کرکے اسلامی قانون کی برتری ثابت کرنی چاہیے ،آپ کو اپنے ملکوں میں جاکر کہنا چاہیے کہ مغرب کاکس قدر براحال ہے وہ اس وقت پکے ہوئے پھل کی مانند ہے جو کسی وقت بھی گرنے والاہے۔اگر آپ نے مشرق جاکر کہا کہ مغرب سرتاپاخیر ہے اور سراسر بے عیب ہے تو آپ نے اپنی قوم کو دھوکادیا،اور ایک خلاف واقعہ بات بیان کی ،آپ کو یہاں سے واپس جاکراپنے بھائیوں کو بتاناہے کہ مغرب کے پاس کیا خوبیاں ہیں ؟اس کی قوت کاکیاراز ہے،اور ان کی زندگی کے کون سے پہلو قابل تقلید ہیں ؟اسی طرح مغرب کی کون سی بیماریاں ہیں،جو اس کو گھن کی طرح کھائی جارہی ہیں،وہ آج کس اخلاقی جذام میں مبتلا ہے ،ہمیں اس کی کن کن چیزوں سے احتراز کرنا ہے اور کون کون سی باتیں ہیں جن کی مشرق کو تقلید کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔(مغرب سے صاف صاف باتیں از سید ابوالحسن ندویؒ 57-58)میں اپنی گذارشات مغرب کے شہر آسٹریاکے مشہور عالم علامہ اسدؒ کے تجربات اور ان کی زندگی کے خلاصہ پر ختم کرتاہوں۔انہوں نے اپنی کتاب اسلام دوراہے پر میں تحریر کیا ہے کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ مغرب کی جدید تحقیق ،ریسرچ،ادب و ثقافت اور ان سے سائنس ،ٹیکنالوجی،ریاضیات وغیرہ کی تعلیم ضرور حاصل کریں مگر ان کے علم کے ساتھ ان کی تہذیب و ثقافت کو ہر گز نہ لیں کیوں کہ یہ امر مسلم تہذیب کے خاتمے کا موجب بنے گا۔اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ ملت اسلامیہ کے نوجوانوں کو اپنی ذمہ داریوں اور شناخت کو درست طور پر تھامنے اور ان کو پوراکرنے کی توفیق عطافرمائے۔شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کے اس شعرمیں جو پیغام نوجوانوں اور عامۃ الناس کو دیا گیا ہے کہ انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے کام کریں یا نہ کریں مگر اپنی ذات کی بہتری کے لیے تو کچھ کر گذریں پر اپنی بات ختم کرتا ہوں
اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی
میرا نہیں بنتا تو نہ بن اپنا تو بن