متحدہ قومی مو ومنٹ یا متحدہ قومی تحریک کی بنیاد 1978ء میں ایک لسانی تنظیم کے طور پر رکھی گئی ۔ اس تنظیم کے بانی الطاف حسین تھے اور اس کے قیام کا ایک اہم مقصد جامعہ کراچی میں زیر تعلیم اردو بولنے والے طالب علموں کے مفادات کا تحفظ تھا۔ بعد ازاں اس تنظیم نے اپنے دائرے کو وسعت دے کر اسے صوبہ سندھ کی سیاسی جماعت کا درجہ دے دیا ۔ ابتدائی دور میں ایم کیو ایم سے مراد ’’ مہاجر قومی موومنٹ‘‘ تھا 1997ء میں اس جماعت نے خود کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لئے اپنا نام سرکاری طور پر مہاجر قومی موومنٹ سے بدل کر متحدہ قومی موومنٹ رکھا اور اپنے دروازے دوسری زبانیں بولنے والوں کے لئے بھی کھول دیے۔اسی طرح کراچی ، حیدر آ باد، میر پورخاص، شکار پور اور سکھر ایم کیو ایم کی گڑھ تصور ہوتے ہیں۔ بلوچستان اور پنجاب میں بھی مقبولیت حاصل کر رہی ہے۔
پرویز مشرف کے دور میں اس جماعت نے اپنا حلیہ تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ حکومت میں شامل ہوئی اور اپنے آ پ کو ملک گیر جماعت کے متعارف کرانے میں کامیاب ہوئی۔ موجودہ دور میں عام لوگوں کے زہن یہ تشدد کی سیاست میں صف اول پر تصور ہوتا ہے مگر تشدد کی سیاست سے اپنا پیچھا نہ چھڑا سکی۔
کراچی کے ایک روزنامے نے اپنی 21 جنوری 2010ء کی اشاعت میں دعوی کیا ہے کہ متوسط طبقے کی نمائندگی کے دعو یدار یہ جماعت ملک کی امیر ترین سیاسی جماعت ہے جو تقریباََ 9 کروڑ روپے کے اثاثوں کی مالک ہے ۔
اس جماعت کے اوپر ہمیشہ مختلف اوقات میں حکو مت نے الزامات کی بنیاد پر چھاپے ، گرفتاریاں اور اس کے بانی سمیت ہزاروں کا رکنان میں مختلف جرائم کی الزامات کا سامنا کیا ہے جیسا کہ 11مارچ 2015ء کو متحدہ قومی موومنٹ کے صدر دفتر نائن زیرو پر پاکستان رینجرز نے چھاپہ مارا اورمتعد افراد کو گرفتار کر لیا ، جن میں سزائے موت پانے والے قیدی اور ایسے افراد بھی شامل تھے جن کے خلاف ایک آ ئی آ رز درج ہیں۔ 17مارچ 2015 کو الطاف حسین کے خلاف کرنل طاہر کی مدعیت میں پاکستان رینجرز کے اہلکاروں کو دھمکانے کے جواب میں کراچی سول لائنز تھانے میں مقدمہ بھی درج کیا گیا ۔ یہ بات ماننے والی ہے کہ اس پارٹی کے اوپر بہت برا وقت آ تا ہے ۔ بدنام اس قدر ہے کہ بھتہ خور اور ٹارگیٹ کلر جماعت تصور ہوتی ہے لیکن اس کے کارکنان میں کوئی فرق نہیں آ تی ہے اور نہ ہی اس کے کارکنان جماعت کو چھوڑنے پرتیار ہوتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس جماعت میں کارکنان کی تعداد میں اضافہ اور کارکنان کی اپنی قائد کو لبیک بہت بڑی بات ہے ۔ جس کی وجہ سے اس پارٹی میں اپنے کارکنان کو عزت ، احترام اور حوصلہ افزائی ہے۔ بھلے لوگ ، میڈیا اور پوری دنیا الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی کھلم کھلا مخالفت کریں تو بھی اس کے کارکنان اسے چھوڑنے کی غلطی نہیں کرتے ہیں جس وجہ پارٹی پالیسی بھی قائم رہتی ہے ۔ متحدہ قومی موومنٹ میں اس وقت تقریباََ 88سے زائد پا رلیمنٹرین ہیں جن میں اس کا اپنا رشتہ دار یا قریبی دوست نہیں بلکہ سب کے سب عام سیاسی کارکنان ہیں مجھے اُس دن بہت حیرت ہوا جب میں نے سنا کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے یو سف شاہوانی کو کراچی میں2013ء کا الیکشن لڑنے کے لئے ایم کیو ایم کا ٹکٹ جاری ہو ا ہے اس زیادہ حیرت تب ہوا جب اس نے کامیابی حاصل کی۔ بلوچستان کے نوجوان یوسف شاہوانی کا وہاں کوئی زاتی ووٹ بینک نہیں اس کے باوجود اس کی کامیابی سے صاف ظا ہر ہوتا ہے کہ الطاف حسین جسے ٹکٹ دے وہ بندہ نہیں ٹکٹ دیکھا جاتا ہے ۔لیکن ایسے اقدامات سے کارکنان کی حوصلہ افزائی ہی ہوتی ہے اور جماعت منظم ہوتا ہے ۔
متحدہ قومی موومنٹ (MQM)کے قائد الطاف حسین کی خوشی قسمتی ہے کہ پنجاب میں سابق طالب علم رہنما راؤ محمد خالد جیسے انقلابی ذہن کے ساتھی ملے راؤ محمد خالد پنجاب میں ایم کیو ایم کا ’’تنظیمی و نظریاتی معمار‘‘ ہے۔ پنجاب میں لاہور اور خصوصاًجنوبی پنجاب میں ایم کیو ایم کا پارٹی اسٹکچر راؤ محمد خالد کی ’’گاڈ گفٹڈ‘‘ صلاحیتوں کا اظہار ہے ۔ راؤ محمد خالد نے پنجاب میں ایم کیو ایم کا زون سسٹم تشکیل دیا اور کارکنوں کی تربیتی نشستوں کے ذریعے ’’برین واشنگ ‘‘ کی اور دانشور طبقہ کو راؤ صاحب کے قومی امور پر مضامین نے بے حد متاثر کیا ہے۔ یہ مضامین ایک سچے پاکستانی کی حب الوطنی کا اظہار ہے آج کے دور میں گوگل علوم کا سر چشمہ ہے راؤ صاحب کے مضامین گوگل پر بھی دستیاب ہیں۔
23دسمبر 2011ء کو ملتان میں ایم کیو ایم کے جلسے میں کاٹن کنگ وہاڑی میں انڈسٹریل زون کا مطالبہ الطاف حسین سے کروانا وہاڑی کے مایہ ناز سپوت راؤ محمد خالد کا ایسا کارنامہ ہے جس نے وہاڑی کے عوام بالخصوص نوجوان نسل کے لیے ترقی و کامیابی کا راستہ کھول دیا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے’’سمارٹ موو‘‘ کرتے ہوئے وہاڑی میں انڈسٹریل زون بنا دیا۔
آج پاکستان کی سیاست میں متحدہ قومی موومنٹ تیسری بڑی سیاسی قوت ہے لیکن الطاف حسین اور ایم کیو ایم الزامات کی زد میں ہے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں متحدہ قومی موومنٹ کوسیاسی میدان میں پیش قدمی کرنے کے لیے سنجیدہ فیصلے کرنا ہونگے اور پارٹی کو قابل قبول بنانے کے لیے عملی اقدامات کرنے ہونگے۔ ہمارا ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کو مشورہ ہے کہ راؤ محمد خالدکو ’’لشکر الطاف‘‘ کا سپہ سالار بنا کر پنجاب کے میدان سیاست میں اتار دیں تاریخ گواہ ہے کہ راجپوتوں کی تلواروں نے سکندر اعظم کی فوجوں کا رخ تبدیل کر دیا تھا پنجاب کے میدان سیاست میں ذوالفقار علی بھٹواور نواز شریف کو سند قبولیت اس وقت ملی جب راجپوتوں نے اس کا ساتھ دیا ہمار ا مانناہے کہ عام گھرانے سے تعلق رکھنے والا سچا پاکستانی راؤ محمد خالد پنجاب کے دل و دماغ کو متاثر کر کے سیاسی نقشہ تبدیل کر سکتا ہے اور فرسودہ جاگیردارانہ نظام کے لیے بھر پور چیلنج بن کر سامنے آئے گا اور ایم کیو ایم پنجاب کے عام آدمی کی پارٹی بن کر ابھرے گی۔
ایم کیو ایم قائد الطاف حسین کو چاہیے کہ متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی میں راؤ محمد خالد کو لے کر ملک کے سب سے بڑے صوبے کو نمائندگی دیں اور پڑھی لکھی نوجوان نسل کو متاثر کریں۔ اگر پنجاب میں ایم کیو ایم اپنی مقبولیت مزید بنانے میں کامیاب ہو گئی تو راؤ محمد خالد کو خراج تحسین پیش کرنا ہوگا کہ ایک نوجوان نے الطاف حسین کا پیغام پہنچاکر پنجاب جیسے سخت سیاسی گراؤنڈ میں ایم کیو ایم کو قدم جمانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔