دورِ حاضر کا المیہ یہ ہے کہ ہر کوئی احساسِ برتری، تکبر و تنگ نظری کے رجحان کی وجہ سے ملت کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کر دیا ہے۔ ہر کوئی انانیت کا شکار ہے۔ کم قابلیت مگر زیادہ ڈگریاں رکھنے کا تصور خودی کو پامال کر رہا ہے۔ کوئی کسی کو خاطر میں نہیں لاتا۔ کوئی کہتا ہے کہ میں ماہرِ تعلیم ہوں، میں ماہرِ تنقید ہوں حالانکہ اس طرح کی صلاحیتوں سے بہت دور ہیں۔ کوئی اردو کی روٹی کھاتے ہوئے بھی اردو دشمنی پر آمادہ ہے۔ اردو کی بقاء و فروغ کی باتیں کرنے کے بجائے اردو کی تجہیز و تکفین کرنے پر آمادہ نظر آتا ہے۔ جس سے محبان اردو اور اردو زبان کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ انسان تو وہ ہے جو دوسروں کے محاسن پر نظر رکھے، قدر شناسی اور اکرام مسلم کرے۔ خود کو کمتر اور دوسروں کو برتر سمجھے۔ مگر کیا کیا جائے کہ یہاں ہر کوئی دوسرے سے برتری کی کوشش میں محوِ پرواز ہے۔ انسان کی صحیح عکاسی اس شعر سے کیا جا سکتا ہے۔
ہر کوئی کہتا ہے میں ہوں‘ دوسرا کوئی نہیں
اس صدی کا اس سے بڑھ کر حادثہ کوئی نہیں
حدیث شریف میں آیا ہے کہ سبھی مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ، ایک بھائی کا اخلاق و کردار جب تک دوسرے بھائی کے ساتھ ٹھیک نہیں ہوگا وہ بھائی کہلانے کا کسی طرح بھی مستحق نہیں ہوگا۔ اسلام نے ایک دوسرے کے ساتھ حسنِ اخلاق کرنے کا درس دیا ہے تاکہ دوسرا کمزور بھائی بھی زندگی امن و سکون کے ساتھ کزار سکے۔ آپسی بھائی چارہ ، اخوت و محبت، اتحاد و اتفاق یہ وہ ہتھیار ہیں کہ جس سے ہم دوسروں پر غالب آ سکتے ہیں۔ مگر آج ہم آپس کے انتشار کے سبب دوسروں کے محتاج بنے ہوئے ہیں، ہماری طاقت بکھر چکی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی ہمیں دبانے کی کوشش کررہا ہے، یہاں تک کہ ہمارے ساتھ ظلم و انصافی ہوتی ہے مگر ہم جبر و ظلم کو سہنے پر مجبور رہتے ہیں۔ ایسے میں انسان کا ضمیر ملامت تو کرتا ہے مگر سوائے ہم تڑپ اٹھنے کے اور کچھ نہیں کر پاتے، ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا انسان کے نفس سے ناپید ہو چکی ہے۔ کیا ہمیں یہ کوشش نہیں کر نی چاہیئے کہ کسی بھائی اور کوئی بے گناہ پر ظلم و ستم کے پہاڑ نہ توڑے جائیں۔ ویسے بھی جذبہ ایمان کا تقاضا بھی یہی ہے کہ دوسروں کا خیال رکھا جائے۔ایسا کون ہے جو ہر طرح کی عیب سے پاک ہو۔ اس دارِ فانی میں کوئی بھی ایسا انسان نہیں جو ہر قسم کے برائی سے پاک ہو۔ آپ خود ہی دیکھ لیں کہ آزادی کے ۶۶ویں بہاریں دیکھنے کے باوجود ابھی تک ہم پاکستانیوں کو نہ تو کوئی ایسا لیڈر میسر آیا اور نہ ہی کوئی مردِ قلندر جو عوام کے لئے اپنے دل میں درد رکھتا ہو، اور نہ صرف درد رکھتا ہو بلکہ عملی اقدامات کے ذریعے ان کے دکھوں کا مداوا بھی کرتا ہو۔کل ہی فیصل آباد میں صوبائی سطح کے ایک حلقے کا انتخاب تھا لیکن اْس حلقے سے حلقہ اقتدار سے منسلک پارٹی کو شکستِ فاش ہوئی ، اس لئے کہ عوام (انسانوں) کو اب کسی پارٹی پر اعتماد نہیں رہا، جس پر یہ عوام اعتماد کرتی ہے وہی دکھوکہ دے جاتے ہیں۔
آج کْرہ عرض کے انسانوں پر نظر ڈالی جائے تو صورتحال کا اندازہ یوں ہوگا کہ مشرق سے لے کر مغرب تک ملتِ اسلام اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہی ہے۔ پوری دنیا میں ناحق خونِ انسانی بے دریغ بہایا جا رہا ہے۔ ملک اور بیرونِ ملک کی ساری زمینیں انسانی خون سے لالہ زار ہو چاہتی ہے۔ میانمار (برما) ہو یا فلسطین، پڑوسی ملک ہو یا مصر، ہر طرف مظلوم لوگوں کا کوئی پْرسان حال نہیں،مصر کے تناظر میں اس تقسیم کو مزید تقویت ملتی ہے ، پورا ملک دو خیموں میں بٹا ہوا ہے۔ ایک طرف امریکی ٹولہ ہے تو دوسری جانب اسلام پسند اخوان المسلمین ہیں۔ ادھر جمہوریت کے علمبردار محمد مرسی ہیں تو اْدھر یہوید ماں کی کوکھ سے پیدا ڈکٹیٹر السیسی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اونٹ کس کروٹ جا بیٹھتا ہے۔ فی الحال تودونوں جانب کشمکش جاری ہے۔
ہم جو اشرف المخلوقات اور اْمتِ محمدیہ کا دعویٰ کرتے ہیں کئی دفعہ ہماری زندگی میں ایسے مواقع آتے ہیں کہ جب ہم کسی ظلم و زیادتی پر آواز اْٹھا کر جرم کو روکنے کی کوشش کر سکنے کے باوجود خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ یہ سو چ کر کہ اس سے ہمیں کیا فائدہ ہوگا، میں کیوں بلا وجہ کی دشمنی اپنے سر لوں ، خاموشی سے یہ سوچ کر اپنی راہ پر چل پڑتے ہیں۔ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ہمارے سامنے ہی ہمارے کسی بھائی یا بہن کی برائی ہو رہی ہوتی ہے یا کوئی کسی غلط فہمی کا شکار ہوکر انہیں بْرا سمجھ کر اس سے نفرت کرنے لگے اور ہم اصل حقیقت کو جانتے بوجھتے بھی بجائے اس کے کہ کدورتوں کو مٹانے کی کوشش کریں ہم یہی سوچتے ہیں کہ ہمیں اس سے کیا لینا دینا۔ اب کیا ہم ہمیشہ یہی سوچتے رہیں گے، کب ہمارے اندر انسان بسے گا، کب ہمارے اندر ہمدردی کے گیت گنگنائیں گے، کب ہمارے اندر مسکرا ہٹ کے گل کھلیں گے، یہ سب آج دن تک تو ایک سوال کی مانند ہی ہے۔ اس کا جواب کب، کہاں، اور کیسے ملے گا یہ تو وقت اور حالات ہی بتائے گا۔
حالانکہ ہم سب یہ جانتے ہیں کہ یہ زندگی عارضی اور چند روزہ ہے اس کے باوجود زیادہ سے زیادہ کی خواہش میں اپنی زندگی کا سکون ختم کر دیتے ہیں، جو خوشی اور دلی سکون و راحت ہمیں دوسروں کے لئے کچھ کرکے حاصل ہوتا ہے، اس کا اندازہ وہی لوگ لگا سکتے ہیں جو دوسروں کے لئے جیتے ہیں اور جو دوسروں کی خوشیوں کی خاطر خود کو فنا کر لیتے ہیں اور جو اپنے لئے نہیں دوسروں کے دکھوں پر آنسو بہاتے ہیں۔
وقت و حالات کا تقاضہ ہے کہ انسان اپنے ضمیر کو جھنجھوڑے اور اپنا کردار اس طرح بنائے کہ دوسرے اس کو بڑا کہیں اور عزت کریں، تب کہیں وہ معاشرے میں مقبول اور ممتاز بن سکتا ہے۔خلوصِ نیت کے ساتھ ایک دوسرے کی جانب ہاتھ بڑھایئے، مصافحہ کیجئے، نمازوں میں ایک دوسرے کے ساتھ نیت باندھ کر کھڑے ہویئے، امامت کے لئے بھی اپنی اپنی مساجد میں ایک دوسرے کو مدعو کیجئے، ہماری مساجد ہمارے اتحاد کی واحد عملی گواہ ہیں۔ انتشار کے اس گئے گزرے دور میں بھی مساجد میں نمازوں کے اوقات پر ہم لاکھ دوریوں کے باوجود کاندھے سے کاندھا ملا کر جب ایک ساتھ رکوع و سجود میں جاتے ہیں تو یہ منظر ملّی اتحاد کی وہ تصویر پیش کرتی ہے جس کو ہمارے پیارے رسول ﷺ نے قائم کرکے ساری دنیا کو مساواتِ حقیقی سے روشناس کرا دیا۔ کیا دوست، کیا دشمن، کیا غریب کیا، کیا امیر اور کیا شاہ و فقیر یہاں پر سب ہی برابر و متحد نظر آتے ہیں۔
بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے
تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے