عجائب گھروں کی تاریخ کتنی پرانی ہے اس بابت ابھی تک کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکی ،اور اس بارے میں بھی کہ سب سے پہلا عجائب گھر کب اور کہاں بنایا گیا تھا ۔جن قدیم عجائب گھروں کے آثار ملے ہیں انکا تعلق بابل و نینوا، مصر، چین ،یونان اور سندھ وغیرہ سے ہے ۔ صرف پانچ ہزار سال پرانی تہذیبوں کے اب تک آثار ملے ہیں یعنی ہم اپنی تاریخ کو صرف پانچ ہزار سال سے جانتے ہیں ۔اس بابت بھی ہم مکمل نہیں جانتے ۔حالانکہ کہا جاتا ہے کہ انسان کروڑوں سال سے اس زمین پر آباد ہے ۔عجائب گھروں میں ہمارا ماضی محفوظ ہوتا ہے ۔آپ کبھی کسی عجائب گھر جائیں تو وہاں آپ کو سکون ملے گا ،اس کے ساتھ عبرت حاصل ہوتی ہے عجائب گھروں کو دیکھنے کا مقصد سیر و تفریح نہیں عبرت ہونا چاہیے ۔آج جو ہم خود کو ناگزیر خیال کرتے ہیں ۔اس سے پہلے وہ جو خود کو ناگزیر خیال کرتے تھے ان کی نشانیاں اس زمین پر بکھری پڑی ہیں ۔کہہ دیجئے کہ زمین میں چلو پھرو اور سیر کرو پھر دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا ۔( سورۃ الانعام) دوسری جگہ اللہ تعالی فرماتے ہیں ۔آپ ان سے کہہ دیجئے کہ روئے زمین میں سیر کرو اور پھر دیکھو کہ مجرمین کا انجام کیسا ہوا ہے ۔(سورۃ نمل )ایک بادشاہ تھا خود کو خدا کہتا تھا ،آج بھی اس کی ممی محفوظ ہے ۔میں فرعون کی بات کرر ہا ہوں جس کی ممی قاہرہ کے عجائب گھر میں درس عبرت دے رہی ہے ۔اس واقعہ کو اللہ تعالی نے قرآن پاک میں یوں بیان کیا ہے ۔اورہم بنی اسرائیل کو سمندر سے گزار لے گئے ۔ پھر فرعون اوراس کے لشکر ظلم اورزیادتی کی غرض سے ان کے پیچھے چلے ۔ حتیٰ کہ جب فرعون ڈوبنے لگا تو بول اٹھا ”میں نے مان لیا کہ خداوندِحقیقی اْس کے سوا کوئی نہیں ہے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں بھی سرِاطاعت جھکا دینے والوں میں سے ہوں”(جواب دیا گیا) ”اب ایمان لاتا ہے !حالانکہ اس سے پہلے تک تو نافرمانی کرتا رہا اورفساد برپا کرنے والوں میں سے تھا۔ اب تو ہم صرف تیری لاش ہی کو بچائیں گے تاکہ تو بعد کی نسلوں کے لیے نشانِ عبرت بنے ، اگرچہ بہت سے انسان ایسے ہیں جو ہماری نشانیوں سے غفلت برتتے ہیں ۔ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ایک پیشین گوئی فرمائی ہے کہ ہم فرعون کی لاش کو محفوظ رکھیں گے تاکہ بعدمیں آنے والے لوگوں کے لیے وہ باعث عبرت ہو۔ فرعون کا ممی شدہ جسم 1898ء میں دریائے نیل کے قریب تبسیہ کے مقام پر شاہوں کی وادی سے دریافت ہوا۔جہاں سے اس کو قاہرہ منتقل کر دیا گیا۔ ایلیٹ اسمتھ نے 8جولائی 1907ء کو ا س کے جسم سے غلافوں کو اتارا، تو اس کی لاش پر نمک کی ایک تہہ جمی پائی گئی تھی جو کھاری پانی میں اس کی غرقابی کی ایک کھلی علامت تھی ۔ اس نے اس عمل کا تفصیلی تذکرہ اورجسم کے جائزے کا حال اپنی کتاب ”شاہی ممیاں ”(1912ء) میں درج کیا ہے ۔اس وقت یہ ممی محفوظ رکھنے کے لیے تسلی بخش حالت میں تھی حالانکہ ا س کے کئی حصے شکستہ ہوگئے تھے ۔ اس وقت سے ممی قاہرہ کے عجائب گھر میں سیاحو ں کے لیے سجی ہوئی ہے ۔یہ تو تھا قاہرہ کے عجائب گھر کا ذکر جو اسلامی تہذیب کا سب سے بڑا میوزیم ہے ۔اس عجائب گھر میں کعبۃ اللہ کی سونے کی ایک کنجی ، قدیم ترین اسلامی دینار جو سن 697 عیسوی سے تعلق رکھتا ہے۔ قرآن گیلری میں قرآن مجید کے قدیم قلمی نسخے ، عثمانی دور کے ظروف اور ماضی میں فلکیات، کیمیا اور فن تعمیر کی تدریس و تجربات میں استعمال ہونے والے قدیم آلات شامل ہیں۔ عجائب گھر کی عمارت 1903ء میں تعمیر کی گئی تھی اور یہ قاہرہ کے وسط میں واقع ہے ۔
اسی طرح مدینہ منورہ میں خصوصی عجائب گھر قائم کردیا گیا ہے ۔یہ 500 مربع میٹر رقبے پر ہے ۔ اس میں قدرتی مجسموں کے ذریعے اسلامی پیغام کی شروعات سے تعلق رکھنے والے قابل دید مقامات سے سجایا گیا ہے ۔ یہ مدینہ منورہ کی عمرانی اور تمدنی تاریخ اور ورثے کا پہلا عجائب گھر ہے ۔
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے تعاون سے 1946 میں قائم ہونے والی دنیا بھر کے عجائب خانوں کی تنظیم انٹر نیشنل کونسل آف میوزیم نے مئی 1977 میں ماسکو میں ہونے والے اجلاس میں 1978 سے ہر سال 18 مئی کوانٹرنیشنل میوزیم ڈے منانے کا فیصلہ کیا تھا جس کے بعد سے اب ہر سال اس کونسل کے146 سے زائدرکن ممالک اس دن کواس نکتہ نظر کے ساتھ مناتے ہیں کہ دنیا بھر کے عوام میں تہذیب اور تاریخ کے ساتھ ماضی کو مخفوظ رکھنے اور اسکے مسلسل مطالعے کا شعور پیدا کیا جائے ۔اس دن منانے کا یہ بھی مقصد ہے کہ کسی بھی معاشرے کی ترقی میں عجائب گھر کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے ۔ میں نے ایک نجی ٹی وی پروگرام میں سنا تھا کہ دنیا کے تقریبا 202 ممالک میں درس عبرت دیتے 55 ہزار سے زائد عجائب گھر موجود ہیں۔امریکہ میں اس وقت ڈیڑھ ہزار کے قریب میوزیم ہیں جبکہ برطانیہ میں سینکڑوں کی تعداد میں میوزیم ہیں جن میں سب سے زیادہ مقبول برٹش میوزیم، نیچرل ہسٹری میوزم اورلندن کا سائنس میوزیم شامل ہے ۔روس میں بھی عجائب گھروں کی تعداد سینکڑوں میں ہے اور صرف ماسکواور سینٹ پیٹرز برگ میں 25کی قریب بڑے عجائب گھر ہیں۔ دنیا کے دیگر ممالک میں بڑے بڑے میوزیم کی تعداد کچھ یوں ہے مثلاََ فرانس میں 40، آسٹریلیا میں 25، ڈنمارک میں 20، ناروے کے علاوہ اسرائیل آئرلینڈ اور یونان میں 19 اور فن لینڈ جیسے چھوٹے سے ملک میں 15 ہے ۔انٹر نیٹ کی دنیا نے بھی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور برطانیہ کی ایسی ایک ویب سائٹ پر 542 میوزیم ہیں۔مصر میں کافی میوزیم ہیں جن میں سے قاہرہ کا میوزیم سب سے بڑا ہے جس کا ذکر اوپر ہو چکا ،اسی طرح سعودی عرب میں اسلامی ثقافت کا سب سب سے بڑا میوزیم قائم کر دیا گیا ہے ۔دیگر اسلامی ممالک میں بھی قابل دید عجائب گھر ہیں ۔رہی بات پاکستان کی تو پاکستان میں بھی کافی تعدا میں عجائب گھر موجود ہیں جن میں سے مشہور درج ذیل ہیں ۔اسلام آباد فوجی عجائب گھر،راولپنڈی مرکزی عجائب گھر،لاہور حیواناتی عجائب گھر۔ کراچی قومی عجائب گھر۔گورنمنٹ کالج لاہور عجائب گھر، شاہی قلعہ۔ لاہور زرعی عجائب گھر۔ فیصل آباد انڈسٹریل میوزیم۔ لاہور پاکستان میں آثار قدیمہ کے عجائب گھر، ٹیکسلا ،پشاور ان کے علاوہ بھی بعض مقامات یعنی موہنجوداڑو، حیدر آباد، بہاولپور اور میرپور خاص، ہڑپہ، ٹیکسلا اور اب بلوچستان کے ضلع کچھی کے شہر مہر گڑھ وغیرہ میں قدیمی میوزیم ہیں ۔ایشیا کا سب سے بڑا نجی عجائب گھر لاہور کے بھاٹی دروازے کے نزدیک ’فقیر خانہ میوزیم‘ جسے 1777میں فقیر خاندان نے قائم کیا تھا،اس میں سکھ اور مغلیہ عہد کے علاوہ برصغیر میں مختلف اسلامی عہد کی تیس ہزار سے زیادہ نادرونایاب چیزیں ہیں۔
لیکن پاکستان کے یہ عجائب گھر (سب نہیں ) اس وقت کس حال میں ہیں ۔ ان میں سے ایک کے بارے میں پاکستان کے معروف کالمسٹ جناب جاوید چودھری صاحب لکھتے ہیں ۔میں منگل کے دن کراچی میں قائداعظم میوزیم پہنچا لیکن گیٹ پر تالا دیکھ کر پریشان ہو گیا، مجھے رینجرز کا ایک جوان دور کھڑا دکھائی دیا، وہ دور سے چلایا ’’میوزیم بند ہے ،، میں نے چلا کر پوچھا ’’کیوں؟،، اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، وہ مجھے ہاتھ کے اشارے سے آگے جانے کی ہدایت کرنے لگا مگر میں ڈھیٹ بن گیا، وہ غصے کے عالم میں گیٹ پر آیا، مجھے پہچانا اور اس کا رویہ تبدیل ہو گیا۔اس نے گیٹ کھول دیا، میں نے گیٹ پر تالے کی وجہ پوچھی، اس کا جواب تھا ’’ سیکیورٹی ریزن، ویسے بھی یہاں کون آتا ہے ‘‘ میرے دکھ میں اضافہ ہو گیا، میں نے پورچ میں عمارت کی تصویر لینی چاہی تو رینجر نے روک دیا، میری حیرت میں مزید اضافہ ہو گیا، میں نے وجہ پوچھی، جواب ملا ’’میوزیم میں فوٹو کھینچنا منع ہے ‘‘ میری ہنسی نکل گئی، میں نے اس سے کہا ’’بھائی صاحب انسان اگر میوزیم میں تصویر نہیں بنائے گا تو کہاں بنائے گا‘‘ وہ بیچارہ خاموش ہو گیا، یہ میری زندگی کا پہلا میوزیم تھا جس میں تصویر کشی سے روک دیا گیا، آپ دنیا بھر کے عجائب گھروں میں تصویریں بناتے ہیں۔یہ تصویریں آپ کا اثاثہ ہوتی ہیں لیکن یہ پاکستان ہے جہاں میوزیمز میں تالے بھی ہوتے ہیں اور تصویر کشی بھی جرم ہوتی ہے (اپنے کالم کے آخر میں وہ لکھتے ہیں)میں قائد اعظم کی رہائش گاہ کی سیڑھیوں پر بیٹھ گیا، میں نے کیئر ٹیکر سے پوچھا ’’کیا لوگ قائد اعظم کے گھر کی زیارت کے لیے آتے ہیں‘‘ وہ دکھی آواز میں بولا ’’سال چھ مہینے میں کوئی ایک آدھ بندہ آجاتا ہے اور بس‘‘ میرے آنسو دوبارہ رواں ہو گئے ، میں روح تک قائد اعظم سے شرمندہ ہو گیا، قائد اعظم کے پاکستان میں اٹھارہ کروڑ لوگ رہتے ہیں، یہ اٹھارہ کروڑ لوگ اس ملک کے ’’بینی فشری‘‘ ہیں، ایم کیو ایم ملک کی بانیان کی جماعت کہلاتی ہے ، مسلم لیگ قائد اعظم کی جماعت ہے ۔جماعت اسلامی اور دوسری مذہبی سیاسی جماعتیں قائد اعظم کو رحمت اللہ علیہ کہتی ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی چالیس سال سے روح پاکستان کے دعوے کر رہی ہے لیکن اس ملک میں قائد اعظم کا کوئی نہیں، ان کے گھر پر تالے پڑے ہیں اور کمرے بے چراغ ہیں، افسوس قائد اعظم سب کے ہیں لیکن میاں نواز شریف، عمران خان، آصف علی زرداری اور الطاف حسین سے لے کر ممنوں حسین تک قائد اعظم کا کوئی نہیں، یہ لوگ اس شخص کے گھر کا دروازہ تک نہیں کھولتے جس کے صدقے یہ آج حکمران ہیں، محسن کشوں کے اس ملک میں قائد کا گھر بے چراغ بھی ہے اور ویران بھی۔