فرانس کے ایک وزیر تجارت کا کہنا ہے کہ برانڈڈ چیزیں مارکیٹنگ کی دنیا میں سب سے بڑا جھوٹ ہوتی ہیں جنکا مقصد تو امیروں سے پیسہ نکلوانا ہوتا ہے مگر غریب اس سے بہت متاثر ہو رہے ہوتے ہیں ۔کیا یہ ضروری ہے کہ میں Iphone اٹھا کر پھروں تاکہ لوگ مجھے ذہین اور سمجھ دار مانیں ؟ کیا یہ ضروری ہے کہ میں روزانہ MAC یا KFC کھاؤں تاکہ لوگ یہ نا سمجھیں کہ میں کنجوس ہوں ؟ کیا یہ ضروری ہے کہ میں دوستوں کے ساتھ اُٹھک بیٹھک Downtown Cafe پر جا کرلگایا کروں تاکہ لوگ یہ سمجھیں کہ میں خاندانی رئیس ہوں ؟ کیا یہ ضروری ہے کہ میں Gucci, Lacoste, Adidas یا Nike سے کپڑے لے کر پہنوں تو جنٹلمین کہلواؤں گا ؟ کیا یہ ضروری ہے کہ میں اپنی ہر بات میں دو چار انگریزی کے لفظ ٹھونسوں تو مہذب کہلاؤں ؟ کیا یہ ضروری ہے کہ میں Adele یاRihanna کو سنو تو ثابت کر سکوں گا کہ میں ترقی یافتہ ہو چکا ہوں ؟ نہیں ، نہیں !!!!
میرے کپڑے عام دکانوں سے خریدے ہوتے ہیں ، دوستوں کے ساتھ تھڑے پر بیٹھ جاتا ہوں ، بھوک لگے تو کسی ٹھیلے سے لیکر کھانے میں بھی عار نہیں سمجھتا ، اپنی سیدھی سادی زبان بولتا ہوں ،چاہوں تو وہ سب کچھ کر سکتا ہوں جو اوپر لکھا ہے لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے ایسے لوگ دیکھے ہیں جو میری Adidas سے خریدی گئی ایک قمیض کی قیمت میں پورے ہفتے کا راشن لے سکتے ہیں ۔ میں نے ایسے خاندان دیکھے ہیں جو میرے ایک MAC برگر کی قیمت میں سارے گھر کا کھانا بنا سکتے ہیں ۔
تو صاحبو ! روپیہ ،پیسہ ،دولت ہی سب کچھ نہیں ، جو لوگ ظاہری حالت سے کسی کی قیمت لگاتے ہیں وہ فوراََ اپنا علاج کروائیں ۔ انسان کی اصل قیمت اس کا اخلاق ، برتاؤ، میل جو ل کا انداز، صلہ رحمی ، ہمدردی اور بھائی چارہ ہے نہ کہ اس کی ظاہری شکل و صورت ۔ زندگی میں تو ہار اور جیت ساتھ ساتھ چلتے ہیں مگر اخلاق میں کبھی ہار نہیں اور تکبر میں کبھی جیت نہیں ہوتی ۔ شیخ سعدی ؒ فرماتے ہیں کہ مجھے اللہ کے انصاف پر اُس دن بہت یقین آیا جب میں نے امیر اور غریب کا اِک جیسا کفن اور قبر دیکھی ۔
صاحبو! ہمارے ہاں ہر دوسرا بندہ ’’لائی لگ‘‘ بن چکا ہے اور ٹرینڈ کی بیماری میں مبتلا ہو چکا ہے ۔ ہمارے نوجوان طبقہ کی آمدنی اتنی ہوتی نہیں جتنا مہنگا انہوں نے موبائل بطور فیشن پکڑا ہوتا ہے ۔ ہر شخص دوسرے سے بڑھیا والا موبائل سیٹ لینا پسند کرتا ہے کیو نکہ ٹرینڈ کی بیماری میں جو مبتلا ہیں ۔ اگر ایک نے بڑا سارا موبائل ہاتھ میں پکڑ رکھا ہے تو دوسرا اس سے بھی بڑا موبائل ہاتھ میں پکڑ کر خود کو ذہین اور سمجھ دار منوانے پر تُلا ہوا ہے ۔میرے ایک دو دوست بھی چند دن پہلے ٹرینڈ کی بیماری میں مبتلا ہو کر اپنی عام بول چال میں انگریزی زبان بولنے پر عبور حاصل کرنا چاہ رہے تھے تاکہ جن لوگوں سے ان کا واسطہ پڑتا ہے ان پر یہ ثابت کر سکیں کہ ہم مہذب ہیں ۔ ہم اپنے دوست ملک چین کو بہت مانتے ہیں مگر کیا ہم اُس کے ٹرینڈ نہیں اپنا سکتے ۔ چین کی قوم نے دنیا کو مجبور کر دیا کہ ان سے بات چیت کرنے ،ان کی باتوں کو سمجھنے اور ان کے علوم کو سمجھنے کے لئے ان کی کی زبان سیکھی جائے جب کہ ہم ’’نادان ‘‘ لوگ ٹرینڈ کی بیماری لگوا کر انگریزی بولنے چلے ہیں اور اپنی زبان بھی بھول بیٹھے یعنی کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی چال بھی بھول گیا کے مترادف ہوا ۔ہمارے ایک دوست شرف سہیل ماہنامہ پکھیرو والے اکثر کہتے ہیں ’’کیا آپ کبوتر کے بچے کو کوے کی بولی سکھا سکتے ہیں ؟ اس کے تخم میں یہ بات شامل ہی نہیں وہ جو کچھ سیکھے گا اپنی مادری زبان میں سیکھے گا ۔ انگلش میڈیم کی آڑ میں کروڑوں غریب بچوں کو غلامی کی زنجیر میں جکڑا جا رہا ہے ‘‘ ایسا کیوں ہو رہا ہے ؟ اس لئے کہ ہم سب ’’لائی لگ‘‘ ہوبن کر ٹرینڈ کی بیماری کے گڑھے میں گڑھتے جا رہے ہیں ۔اس پر مجھے شاعرِ مشرق حضرت علامہ محمد اقبالؒ کا ایک شعر یاد آرہا ہے
شکایت ہے مجھے یا رب!خدا وندانِ مکتب سے
سبق شاہین بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا
صاحبوٹرینڈ کی بیماری خود کو لگوانے سے پہلے بس ایک بات یاد رکھیئے گاہم اس دنیا سے کچھ لے کر جا نہیں سکتے ، بس یہاں سے اٹھا کر وہا ں رکھ سکتے ہیں ، ہم سب قلی ہیں سامان اٹھائے پھرتے ہیں ۔ خیال کا سامان ، احساس کا سامان ، مال ، دولت، وجود اشیاء اٹھائے اٹھائے پھرتے ہیں ۔ مگر کب تک ؟؟؟؟؟؟قلی کے نصیب میں صرف وزن ہے ، وزن اور صرف وزن اور یہ وزن کرب ہے۔اس دنیا میں کچھ بھی کسی کی ملکیت نہیں ، یہاں نہ تو کچھ کھونا ہے نہ پانا ہے ، یہاں تو بس صرف آنا ہے اور پھر جانا ہے ۔