یوم تکبیر کا ہیرو مجتبی رفیق۔۔۔؟

Published on May 27, 2015 by    ·(TOTAL VIEWS 657)      No Comments

KM Khalidچاغی میں اس روز موسم صاف اور خوشگوار تھا۔گراونڈ زیرو (ایٹمی دھماکے والے علاقے)سے متعلقہ لوگوں کے سوا تمام افراد کو ہٹا لیا گیا تھا۔دو بج کر تیس منٹ پرپی اے ای سی کے چئیر مین ڈاکٹر اشفاق احمد،ڈاکٹر عبدالقدیرخاں،جاوید ارشد مرزا،اور فرخ نسیم بھی وہاں موجود تھے۔تین بجے تک ساری کلیرنس دی جا چکی تھی۔پوسٹ پر موجود بیس افراد میں سے محمد ارشد کوجنہوں نے ’’ٹرگرنگ مشین ڈیزائن کی تھی،بٹن دبانے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔محمد ارشد نے جن اللہ اکبر کی صدا بلند کرتے ہوئے بٹن دبایا تو وہ گمنامی سے نکل کر ہمیشہ کے لئے تاریخ میں امر ہو گئے۔بٹن دباتے ہی سارا کام کمپیوٹر نے سنبھال لیا اب ساری نگاہیں دس کلومیٹر دور پہاڑ پر جمی ہوئی تھیں۔دل سہمے ہوئے ،لیکن دھڑکنیں رک سی گئی تھیں۔بٹن دبانے سے لے کر پہاڑ میں دھماکہ ہونے تک صرف تیس سیکنڈ کا وقفہ تھا،لیکن وہ تیس سیکنڈ باقی ساری زندگی سے طویل تھے۔یہ بیس سال پر مشتمل سفر کی آخری منزل تھی۔یہ بے یقینی اور شک کے لمحات سے گزر کر ،مشکلات اور مصائب پر فتح پانے کا لمحہ تھا۔جونہی پہاڑ سے دھویں اور گرد کے بادل اٹھے،آبزرویشن پوسٹ نے بھی جنبش کی۔پہاڑ کا رنگ تبدیل ہوااور ٹیم کے ارکان نے اپنی جبینیں،سجدہ شکر بجا لاتے ہوئے خاک بوس کر دیں۔اب وہ لمحہ آن پہنچا تھاجب پاکستان ،دنیا کی بڑی طاقتوں کی آنکھوں مین آنکھیں ڈال کربات کر سکتا تھا۔یہ لمحات پاکستان کی تاریخ میں عزت ،وقار اور شان و شوکت کا تاج بن کرتاریخ مین رقم ہو رہے تھے۔۔۔پاکستان بالآخر مسلم دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت بن چکا تھا‘‘(وہ تیس سیکنڈ ۔۔۔۔ کامران امین)
ان دھماکوں کے بعد پہلی مرتبہ’’ کھل‘‘ کر ڈاکٹر ثمر مبارک مند میڈیا کے سامنے تشریف لائے اور انہوں نے کروڑوں پاکستانیوں کی یہ ’غلط فہمی ‘‘دور کی جو اب تک ایٹم بم کا سہرا ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب کے سر ہی باندھتے تھے ۔انہوں نے فرمایا ایٹم بم بنانے کے پچیس مراحل ہوتے ہیں جن میں صرف ایک مرحلہ ہی ڈاکٹر عبدالقدیر کی بدولت طے ہو اہے۔جبکہ ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب سے محبت کرنے والے کروڑوں پاکستانیوں کی طرح’’ باباجی‘‘ بھی کہتے ہیں بیٹا سوئی ساری بن بھی جائے جب تک اس میں ’’نکا ‘‘ نہیں ڈلے گا وہ بیکار ہی ہے ۔ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے چھبیسویں مرحلے کے ’’سائنس دان ‘‘کا ذکر نہیں کیا۔اٹھائیس مئی کے یادگار دن کا نام رکھنے کا ’’قرعہ‘‘ مجتبی رفیق کے نام نکلااور یہ بھی مقام شکر ہے کہ ’’جنگ پزل ‘‘ کی طرح اس میں کوئی دس بیس اور لوگوں کا نام حکومت کے سوچے ہوئے نام سے نہیں ٹکرا گیا ورنہ انعامی رقم کے طور پر بھی پانچ سو پچیس ہی ملتے اور پاکستان کے کھاتے میں بھی دس بیس’’ ہیروز‘‘ کا اور اضافہ ہو جاتا جس طرح مجتبی رفیق مختلف فورم پر اپنا ’’حق ‘‘ رہا ہے وہ ’’ہیروز ‘‘بھی ٹولیوں کی شکل میں گنگناتے پھرتے ’’ساڈا حق ایتھے رکھ‘‘۔کیونکہ اڑسٹھ سال گزر جانے کے باوجود ابھی تک پاکستان کے پہلے پرچم ساز کے نام کا مسئلہ حل نہیں ہو سکا ۔اس اعزاز کے دونوں دعوی دار سگے بھائی تھے اس کے باوجود ان میں کوئی ’’پیچ اپ ‘‘نہیں سکا اور یہ ’’دعوی ‘‘ اب ان کی اولادوں میں منتقل ہو چکا ہے ۔
پاکستان کے پہلے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح نے سرکاری خزانہ سے بطور گورنر جنرل اپنی تنخواہ ایک روپیہ مقرر کروائی ورنہ وہ چاہتے تو ’’کھوٹے سکوں‘‘ کے ساتھ مل کر اس نوزائیدہ مملکت کی ’’ائی تئی ‘ پھیر دیتے اگر ہم جناح کیپ بھی پہننے کی کوشش کرتے ہیں ان کی فیملی کے ساتھ مزار قائد پر دعا مانگتے ہوئے یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمیں قائد جیسا بنا تو پھر حوصلہ بھی رکھنا چاہئے۔ایک بزرگ کا قول ہے ’’جسے کوئی بیٹھا نظر نہیں آتا اسے ہاتھ ہلا کر یا اٹھ کر بتانے سے کوئی فرق نہیں پرتا ‘‘۔
مسلم لیگ کی حکومت نے تو اتنے لمبے چائنا تک پراجیکٹ چھیڑ لئے ہیں کہ ان کے پاس دینے کے لئے نہ ہی وقت ہے اور نہ ہی کوئی سرکاری ملازمت، ویسے یہ دھماکے اگر زرداری صاحب کے دور میں ہوئے ہوتے تو ابھی تک مجتبی رفیق کا ’’مسئلہ‘‘ حل ہو گیا ہوتا زرداری صاحب کی صدارت،وزیر اعظم پرویز اشرف ،ڈاکٹر ثمرمبارک مند ساری سائنسی وزراتوں کے سربراہ کیونکہ انہوں نے تھر کول سے بجلی اور ڈیزل زیر زمین ہی پیدا کرکے دکھانا ہے انہوں نے پچھلے دور حکومت میں نہ جانے کیسے وہاں ایک بڑا سا شعلہ جلائے رکھا بلکہ چار کنوؤں کو آگ لگا کر آئے تھے،وزیر توانائی آغا وقار اور طلسماتی طور پر مجتبی رفیق سے بطورسفیر پاکستان اعزازی کا کام لیا جا سکتا تھا ۔ پھر نہ اسی سال تک سائیں قائم علی شاہ صاحب کی حکومت ختم ہونی تھی اور نہ ہی تھر کول کا کوئلہ ختم ہونا تھا نہ ہی ان کی پارٹی کی حکومت مرکز میں ختم ہونی تھی بجلی مفت بلکہ وزیر اعظم پرویز اشرف پڑوسی ملکوں کو رینٹ پر بجلی دیتے پھرتے ،اور گاڑیاں آغا وقار کے فارمولے کے تحت سڑکوں پر پانی سے ’’پڑ پڑ ‘‘ کرتی پھرتیں۔
جہاں بہت سے بینک سرکاری اور پرائیویٹ ادارے کھلاڑیوں اور دوسرے شعبہ ہائے زندگی کی شخصیات کو اپنے اداروں میں ملازمت دیتے ہیں اور وہ شخصیات نہ صرف قوم بلکہ اس ادارے کا نام بھی روشن کرتی ہے اس سلسلے میں عالم چنا اور نصیر سومرو کا نام لیا جا سکتا ہے جن کو مختلف اداروں اور شخصیات نے پروموٹ کیا ۔ابھی پچھلے دنوں پاکستان کے بلند ترین محمد اعجاز اورکوتاہ قامت قمر بلوچ کو ایک پرائیویٹ ادارے نے سعودیہ میں وزٹ کے لئے بلایا ہو ا تھا جہاں نے نے مختلف سعودیہ کے مختلف شہروں کا دورہ کیا اس سلسلے میں وزیر اعظم پاکستان جناب نوازشریف کی ایک قلم کی جنبش سے مجبتی رفیق کو ’’حق ‘‘ مل سکتا ہے جو کہ ایٹمی دھماکوں کے دن اٹھائیس مئی 1998 سے ’’بیروزگار ‘‘ ہو چکا ہے ،حکومت پاکستان اور اس سے متعلقہ اداروں دوسرے ملکوں میں پاکستان کے سفارت خانوں کو خاص طور پر پاکستان سے متعلق پروگرامز میں مجتبی رفیق کی شرکت یقینی بنانی چاہئے۔
ویسے بھی حکومت پاکستان کو مجتبی رفیق کا ’’حق ‘‘اسے’’ چپ چپیتے‘‘دے دینا چاہئے ورنہ اگر خواب پاکستان سے تکمیل پاکستان تک کے علاوہ ،پاکستان کے نام کے خالق،قومی ترانے کے خالق،پہلے پرچم کا خاکہ ساز،پہلے پرچم ساز، پہلا پرچم لہرانے والے ،ریڈیو پر پاکستان کا پہلا اعلان کرنے والے اور ان جیسے بہت سے’’ پہلے‘‘ کی اولادیں اپنے دادا ،پڑدادا کا حق لینے کے لئے نکل آئیں تو پھر حکومت پاکستان کہاں اتنے قومی ہیرو سنبھالتے پھرے گی۔

Readers Comments (0)




WordPress主题

WordPress Blog