ہتھیلی پہ سَرسوں جمانا اسی کوکہتے ہیں، اُدھرہمارے کپتان صاحب نے گلگت بلتستان کی ’’ٹھنڈی ٹھار‘‘وادیوں میں ’’نئے پاکستان سے پہلے نیا خیبرپختونخوا‘‘ بنانے کااعلان کیااور اِدھر ’’گرماگرم‘‘ خیبرپختونخوا بن بھی گیا۔نئے پختونخوا کی پہلی جھلک ہم نے بلدیاتی انتخابات میں اُس وقت دیکھی جب تحریکِ انصاف کے وزیرباتدبیر علی امین گنڈاپوراپنے مسلح ساتھیوں سمیت ڈیرہ اسماعیل خاں کی یونین کونسل ’’ہمت‘‘ کے ایک پولنگ سٹیشن میں گھس گئے ۔ڈیوٹی پرموجود ایس ایچ او نے مزاحمت کرنے کی کوشش کی مگر ایک ہی تھپڑکھا کر ’’نُکرے‘‘ لگ رہے ۔جب علی امین گنڈاپور کے حکم پربیلٹ بکس گاڑی میں رکھے جارہے تھے توکسی ستم ظریف نے جمعیت علمائے اسلام کواطلاع دے دی۔ مولاناحضرات نے مساجدمیں اعلان کروا دیا کہ فوراََ متعلقہ پولنگ سٹیشن تک پہنچاجائے۔ معروف کالم نگاربھائی رؤف طاہرکو لوگوں کے پولنگ سٹیشن تک پہنچنے اور ’’کھڑاک‘‘ کرنے پرتو کوئی اعتراض نہیں البتہ یہ اعتراض ضرورہے کہ نیشنل ایکشن پلان کی روسے مساجد کے لاؤڈسپیکر صرف پانچ وقت کی اذان اورجمعے کے عربی خطبے کے لیے ہی استعمال کیے جاسکتے ہیں جبکہ لاؤڈسپیکرسیاسی استعمال میں لائے گئے۔ اُنہوں نے تویہ بھی کہاکہ اِس ’’شَرانگیز‘‘فعل پرخیبرپختونخوا کی حکومت ایکشن میںآسکتی ہے ۔ عرض ہے کہ حکومت ایکشن میں آئے گی کیسے ،وہ تواب بھی الیکشن ہی میں ’’گوڈے گوڈے ‘‘دھنسی ہوئی ہے اوربقول امیرِ جماعت اسلامی پشاور، اب بھی آراوز سے دھڑادھڑ نتائج تبدیل کروانے میں مصروف۔ شایداسی لیے خیبرپختونخوا کے صوبائی امیرِ جماعت اسلامی پروفیسر ابراہیم نے کہا ’’پی ٹی آئی دھاندلی کی چیمپئن بن چکی ہے‘‘۔خیبرپختونخوا کے صوبائی وزیرِاطلاعات مشتاق غنی کوشکوہ ہے توفقط یہ کہ حلیف ہونے کے ناطے یہ تحریکِ انصاف اورجماعتِ اسلامی کااندرونی معاملہ تھاجسے ’’پبلک‘‘کرنے کی بجائے دونوں مِل کر’’اندرکھاتے‘‘ طے کرلیتے ۔کپتان صاحب بھی یہی کہتے پائے گئے کہ
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
اُنہوں نے فرمایا’’جماعت اسلامی کی جانب سے دھاندلی کے الزامات پرصدمہ پہنچا ،ہم فوج کی نگرانی میں دوبارہ بلدیاتی الیکشن کروانے کے لیے تیارہیں‘‘۔ دوسری سیاسی جماعتیں مگرکہتی ہیں کہ ’’فارمولا‘‘ ایک ہی ہوناچاہیے ۔اگر 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات پروزیرِاعظم سے استعفیٰ مانگاجا سکتاہے توپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی کے واضح ثبوتوں کے بعدوزیرِاعلیٰ پرویزخٹک سے استعفے کامطالبہ کیوں نہیں کیاجا سکتا؟۔ بھائی لیاقت بلوچ مگرکہتے ہیں کہ جماعت اسلامی نے 2013ء کے انتخابات کے بعد وزیرِاعظم سے استعفے کامطالبہ کیاتھا ،نہ اب وزیرِاعلیٰ سے کررہے ہیں۔ اُن کامطالبہ توصرف دھاندلی کی شفاف تحقیقات کروانے تک محدودہے۔ہماری جماعت اسلامی بھی ہمیشہ گھاٹے کاہی سوداکرتی ہے ۔اگر جماعت اسلامی کی بجائے جمعیت علمائے اسلام ،تحریکِ انصاف کی حلیف ہوتی تومولانا فضل الرحمٰن نے مزید دو ،تین ’’وَڈی ،وَڈی‘‘ وزارتوں پر ہاتھ صاف کرکے چُپ ہورہنا تھاکیونکہ اُن کی کتابِ سیاست میں’’نظریۂ ضرورت‘‘ کے تحت سب جائزہے۔
علی امین گنڈاپور تو ہجوم کواپنی طرف بڑھتادیکھ کر’’پھُر‘‘ ہوگئے لیکن دوسری طرف اے این پی کے میاں افتخار حسین کوخیبرپختونخوا کی ’’غیرسیاسی ‘‘ پولیس نے قتل کے ایک مقدمے میں’’دَھر‘‘ لیا۔ طُرفہ تماشہ یہ کہ میاں افتخار کو پولیس نے تین بجے سہ پہرگرفتارکیا جبکہ قتل کی ایف آئی آر شام پانچ بجے کٹی۔ ایک محترم لکھاری نے اِس پرتبصرہ کرتے ہوئے لکھا’’زیادہ واویلاکرنے کی بجائے انصاف کی طرف دیکھناچاہیے ۔مولانافضل الرحمٰن اورالطاف حسین نے بغضِ معاویہ میںیہ مطالبہ بھی کردیاکہ میاں افتخار حسین کوفی الفوررہا کیاجائے۔۔۔ قانون سب کے لیے ایک ہوناچاہیے ، سب کے ساتھ سلوک بھی ایک جیساہونا چاہیے ،قانون کی عدالت میں امیر اورغریب میں فرق دکھانے کی کیاضرورت ہے‘‘۔ بالکل بجاکہ یہ توامیرالمومنین حضرت عمرؓ کابھی فرمان ہے ’’اگر کسی کی وجاہت کے خیال سے قانون کاپلڑااُس کے حق میں جھُک جائے تواللہ کی بادشاہت اورقیصروکسریٰ کی حکومت میں کیا فرق ہے‘‘۔ سوال مگریہ کہ ایک طرف توحکومتی وزیرعلی امین گنڈاپور ، جس کی ’’واردات‘‘سب پہ عیاں لیکن وہ تین دنوں تک آزادگھومتے رہے جبکہ دوسری طرف بے گناہ میاں افتخار حسین، جنہیں سلاخوں کے پیچھے پہنچانے کی اتنی جلدی ؟۔ میاں افتخار حسین تومقتول کے والدکی گواہی پررہاہو گئے لیکن شدیدترین عوامی ردِعمل کے بعدجب علی امین( جس کے خلاف دو مقدمات درج ہیں) کے گھر پولیس نے’’واردات‘‘ کے تیسرے دِن چھاپامارا تووہ پچھلے دروازے سے پھِر ’’پھُر‘‘ ہوگئے ۔شاید گنڈاپور صاحب کے ذہن میںیہ ہوکہ جوپولیس اُنہیں ’’پروٹوکول‘‘دیتی ہے اب اُسی کے ہاتھوں گرفتاری اُن کی توہین ہے ۔وزیرِاعلیٰ پرویزخٹک کی ’’منتوں تَرلوں‘‘اور کپتان صاحب کے حکم کے بعدعلی امین گرفتاری دینے پربادلِ نخواستہ تیارہو ہی گئے۔پیشی کے بعدعلی امین گنڈاپور عدالت سے ہتھکڑیاں پہنے دونوں ہاتھ ہوامیں لہراتے یوں نکلے کہ جیسے وہ ’’سلطان راہی‘‘ہوں اورعدالت کوئی فلمی سٹوڈیو۔جس ’’حرکت‘‘پرسَر ندامت سے جھک جاناچاہیے تھا، اُسی پرفخر؟۔ کیاقوم کی رہنمائی کادعویٰ کرنے والوں کا چلن یہی ہوتاہے؟۔
کے پی کے کے بلدیاتی انتخابات کے بارے میں کپتان صاحب اورپرویز خٹک ،دونوں نے یہ کہاکہ امن وامان الیکشن کمیشن کی ذمہ داری تھی اوراگر الیکشن کمیشن مرحلہ وارانتخاب کروادیتا توبَدنظمی سے بچاجا سکتاتھا لیکن الیکشن کمیشن نے واضح تردیدکرتے ہوئے کہاکہ امن وامان الیکشن کمیشن نہیں، صوبائی حکومت کی ذمہ داری تھی اورالیکشن کمیشن نے تودومرتبہ صوبائی حکومت کومرحلہ وارانتخابات کی تجویزبھی دی تھی جومسترد کردی گئی۔ اب پتہ نہیں سچاکون اورجھوٹا کون البتہ ہماراحسنِ ظَن یہی ہے کہ اگر خاں صاحب کہتے ہیں توپھر ’’ٹھیک ہی کہتے ہوں گے‘‘۔ ویسے بھی ایک بزرگ صحافی اپنے کالموں میں باربار یہ لکھ چکے کہ ’’کپتان جھوٹ نہیں بولتا‘‘اور ہمیں لکھاری کے لکھے پہ ’’اعتبار‘‘۔سچّے اورجھوٹے کی بحث میں پڑے بغیرقوم سوال کرتی ہے کہ اِس خونی الیکشن کی وجہ سے جو 23 افرادجان سے گئے ، اُن کالہو کِس کے ہاتھ پہ تلاش کریں؟۔اگر صوبائی حکومت ذمہ دارہے توخونِ ناحق کامقدمہ کپتان صاحب کی عدالت میں کہ وہ گزشتہ 2 سالوں سے اسی دھاندلی کوبنیاد بناکر حکمرانوں سے استعفے کامطالبہ کرتے چلے آرہے ہیں۔2013ء میں تونگران حکومتوں کے تحت الیکشن ہوئے جن میں دھاندلی کا پتہ چلانے کے لیے تحقیقاتی کمیشن بن چکا لیکن 30 مئی کوتو تمام اختیارات کی مالک ایک منتخب حکومت تھی جس کی موجودگی میں انتخابات ہوئے اورنہ صرف یہ کہ دھاندلی کے اگلے پچھلے سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے بلکہ قتلِ عام بھی ہوا ۔کیااب بھی خیبرپختونخوا حکومت کے مستعفی نہ ہونے کاکوئی جوازہے ؟ اورکیا تحریکِ انصاف کاانصاف یہی کہتاہے کہ اگر دھاندلی ہوئی ہے تودوبارہ الیکشن کروالیتے ہیں؟۔