یہ مکافاتِ عمل ہی توہے کہ آج تحریکِ انصاف کواُسی بادِمخالف کے تھپیڑوں کا سامناہے جودھرنوں کے ایام میں نوازلیگ کے خلاف چلی اورخوب چلی۔ نوازلیگ تواپنا دامن بچاکر نکل آئی کہ کسی ’’امپائر‘‘کی انگلی کھڑی نہ ہوسکی لیکن جن پے درپے طوفانوں کا سامنااب تحریکِ انصاف کوہے اُن سے شایدوہ نکل نہ سکے ۔جس سونامی کاذکرکپتان صاحب کی زبان پر’’ورد‘‘کی طرح جاری تھا، اب وہی سونامی تحریکِ انصاف کوگھیرے ہوئے ہے ۔حقیقت یہی ہے کہ اپنی شخصیت کاسحر توڑنے کے ذمہ داربھی کپتان صاحب خودہی ہیں۔قوم نے تودشتِ سیاست کے اِس نَووارد کے وجودکو عطربیزہوا کاتازہ جھونکاجان کروالہانہ استقبال کیالیکن جلدہی بھیدیہ کھلاکہ جسے وہ بادِشمیم ونسیم سمجھ بیٹھے تھے وہ توایسی بادِسموم ہے جو چلے توصحنِ چمن اُجڑکے رہ جاتاہے ۔جب اہلِ عقل ودانش پرعیاں ہواکہ خاں صاحب کی تگ ودو کامحورومرکز مسندِاقتدار ہے اورحصولِ مقصد کے لیے وہ ’’جنگ اورمحبت میں سب جائزہے‘‘جیسے فارمولے پرعمل پیراہیں تواُن کاردِعمل بھی شدیدتر تھا۔ نتیجہ یہ کہ 2013ء کے انتخابات میں نتائج خاں صاحب کی توقعات کے بالکل برعکس ،جنہیں اُن کاقلب وذہن تاحال قبول کرنے کوتیار نہیں۔ دھرنوں کے ایام میں خاں صاحب کی شخصیت کایہ پہلوبھی کھل کرسامنے آگیاکہ نوجوانوں کے یہ محبوب رہنماء ضدی ،اناء پرست اورنرگسیت کا شکارایسے شخص ہیں جن کی ’’کتابِ سیاست‘‘میںیہ درج کہ جھوٹ اتنے تواترسے بولوکہ سچ کاگماں ہونے لگے ۔’’دھرناسیاست‘‘ میں بُری طرح ناکام تحریکِ انصاف کودھرنوں سے جان چھڑانااُس وقت مشکل ہوگئی جب مولاناقادری اپنے عقیدت مندوں کے ہمراہ دھرنوں کو خیربادکہہ کراپنے ’’دیس‘‘سدھارے اوراپنے ساتھ ہی تحریکِ انصاف کی محفلیں بھی سونی کرگئے۔ پھرانتہائی کربناک ’’سانحۂ پشاور‘‘ہوا جس کی آڑمیں خاں صاحب نے نہ صرف دھرنے ختم کیے بلکہ کچھ عرصے بعداُسی پارلیمنٹ میں جا بیٹھے جس کے خلاف وہ ایسی غیرپارلیمانی زبان استعمال کیاکرتے تھے جسے لکھتے ہوئے بھی قلم مارے شرم کے تھرتھرانے لگتاہے۔
خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی دھاندلی ہوئی۔ اِن خونی انتخابات میں ستائیس افرادلقمۂ اجل بنے اورشایدہی کوئی ’’وارڈ‘‘ایسا بچاہو جہاں دھاندلی کے ریکارڈنہ ٹوٹے ہوں۔ریٹرننگ آفیسراور پریزائیڈنگ آفیسرکو لکھ کردیا کہ وزیرِاعلیٰ پرویزخٹک کے بھائی لیاقت خٹک کے حلقے کی پولنگ رات بارہ بجے تک جاری رہی، خیبرپختونخوا کے وزیرعلی امین گنڈاپور بیلٹ بکس لے کرفرار ہوئے ۔بہلٹ بکس جلائے گئے ،پولیس والے سرِعام ٹھپے لگاتے رہے اوریہ سب کچھ الیکٹرانک میڈیاکے کیمروں نے قوم کودکھلابھی دیا۔ خود کپتان صاحب نے یہ تسلیم کیاکہ دھاندلی ہوئی اِس لیے وہ فوج کی نگرانی میں دوبارہ انتخابات کروانے کوتیار ہیں۔ خیبرپختونخوا حکومت نے اسی سلسلے میں اے پی سی بلوائی جس میں اے این پی ، جمعیت علمائے اسلام ،پیپلزپارٹی اورنوازلیگ نے شرکت سے انکارکر دیاکیونکہ اُن کامطالبہ ہے کہ پہلے حکومت مستعفی ہوکیونکہ اِس حکومت کی موجودگی میں شفاف انتخابات ممکن نہیں۔ تحریکِ انصاف کی اتحادی جماعت اسلامی حکومت کے مستعفی ہونے کامطالبہ تونہیں کررہی لیکن دھاندلی کے خلاف سب سے تواناآواز بھی اُسی کی ہے۔ اب عمران خاں صاحب کہتے ہیں’’حکومت سے مستعفی ہونے کامطالبہ بدنیتی پرمبنی ہے ۔ہم سے استعفے مانگنے والوں نے نوازشریف سے استعفیٰ کیوں نہیں مانگا؟۔ 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی تووفاقی حکومت مستعفی کیوں نہیں ہوئی ؟۔ ہم نے جوڈیشنل کمیشن کے فیصلے تک حکومت سے مستعفی ہونے کونہیں کہاجبکہ اے این پی ، جمعیت علمائے اسلام اورپیپلزپارٹی والے کہہ رہے ہیں کہ کے پی کے حکومت مستعفی ہوجائے ‘‘۔ عرض ہے کہ 2013ء کے انتخابات ایسی نگران حکومتوں کے تحت ہوئے جوپیپلزپارٹی کی منتخب کردہ تھیں، چیف الیکشن کمیشن تحریکِ انصاف کی مرضی سے منتخب ہوا ،عدلیہ ریٹرننگ آفیسرز تحریکِ انصاف کے مطالبے پردینے کے لیے تیارہوئی اورالیکشن سے پہلے تحریکی حلقوں کی جانب سے کسی قسم کی کوئی شکایت سامنے بھی نہیںآئی ۔یہی وجہ ہے کہ خاں صاحب نے میاں نواز شریف صاحب کوالیکشن میں بھرپور کامیابی پرمبارکباد بھی دی ۔دوسری طرف خیبرپختونخوا میں نگران نہیں بلکہ منتخب حکومت تھی جس کے ’’زیرِسایہ‘‘ دھاندلی کے اگلے پچھلے سارے ریکارڈٹوٹ گئے ۔نگران توالیکشن کرواکر اپنے گھرچلے گئے لیکن کے پی کے حکومت تاحال برسرِاقتدار ہے اِس لیے ’’آزمودہ راآزمودن جہل است‘‘کے مصداق اِس حکومت کے ہوتے ہوئے بلدیاتی انتخابات کادوبارہ ڈول ڈالا جاناجہالت ہی ہے۔ خاں صاحب نے یہ بھی بالکل غلط کہاکہ اُنہوں نے جوڈیشل کمیشن کے فیصلے تک حکومت کومستعفی ہونے کونہیں کہا کیونکہ وزیرِاعظم صاحب نے توقوم سے خطاب کرتے ہوئے 12 اگست 2014ء کوہی جوڈیشل کمیشن کے قیام کااعلان کردیاتھا جسے تحریکِ انصاف نے تسلیم نہ کرتے ہوئے اسلام آبادکے ڈی چوک میں126 روزہ دھرنادیا۔ دھرنے کے دوران پارلیمنٹ ہاؤس ،وزیرِاعظم ہاؤس اورپی ٹی وی پرقبضے کی کوششوں کے علاوہ امپائرکی انگلی کھڑی ہونے کاانتظار بھی کیاجاتا رہا۔ جوڈیشل کمیشن کافیصلہ اسی ہفتے متوقع ہے اورہمیں یقین ہے کہ منظم دھاندلی ثابت نہیں ہو سکے گی کیونکہ کنٹینرپر کھڑے ہوکر کچھ کاغذات کوہوا میں لہراتے ہوئے جذباتی نوجوانوں کو ورغلانااور بات ہے اورٹھوس ثبوت پیش کرنایکسرمختلف ۔تحقیقاتی کمیشن ٹھوس ثبوت مانگتاہے جس میں تحریکِ انصاف تاحال بری طرح ناکام ہے ۔اسی لیے کہاجا سکتاہے کہ اِس میدان میں بھی تحریکِ انصاف کوہزیمت کاسامنا ہی کرناپڑے گا۔
تحریکِ انصاف کاوجود قوم کے لیے اِس لیے ضروری ہے کہ حکمرانوں کو راہِ راست پررکھنے کافریضہ اپوزیشن ہی سرانجام دیتی ہے اوراگر اپوزیشن مضبوط ہوتو حکمران کبھی من مانی نہیں کر سکتے ۔بدقسمتی سے خاں صاحب سمیت اکابرینِ تحریکِ انصاف کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے اُفقِ سیاست پراُبھرتی ہوئی یہ جماعت اپنی مقبولیت متواترکھوتی چلی جارہی ہے جس کا واضح ثبوت ملک کے طول وعرض میں ہونے والے ضمنی انتخابات ہیں جن میں تحریکِ انصاف کوزیادہ تر ہزیمت کاسامناہی کرناپڑا ۔حال ہی میں ہونے والے ننکانہ صاحب اورمنڈی بہاؤالدین کے قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں تحریکِ انصاف کونون لیگ کے مقابلے میں 35 ہزارسے زائد مارجن پرشکست ہوئی ۔منڈی بہاؤالدین کی نشست توتحریکِ انصاف کی خالی کردہ تھی پھربھی نوازلیگ کے امیدوار کو77 ہزارسے زائدووٹ ملے جبکہ تحریکِ انصاف کے امیدوار کوصرف 40 ہزار ۔گلگت بلتستان کے انتخابات میں نوازلیگ نے واضح کامیابی حاصل کرتے ہوئے 27 میں سے 14 نشستیں جیت لیں جبکہ پیپلزپارٹی کاصفایا ہوگیا اور اُس کے سابق وزیرِاعلیٰ گلگت بلتستان بھی ہار گئے ۔ تحریکِ انصاف کوبھی ہزیمت کاہی سامناکرنا پڑااور اس کے حصے میں صرف ایک نشست ہی آسکی ۔2013 ء کے انتخابات کے بعد ہونے والے ضمنی الیکشنز اورگلگت بلتستان کے الیکشن سے تو یہی ظاہرہوتا ہے کہ نوازلیگ کی مقبولیت کاگراف متواتر بڑھتاچلا جارہا ہے اِس لیے کیایہ بہتر نہ ہوگا کہ محترم خاں صاحب ’’منظم دھاندلی‘‘ کاشور مچانے کی بجائے قومی دھارے میں شامل ہوکر اپنی صلاحیتیں ملک وقوم کی بہتری کے لیے وقف کردیں۔