دینی مدارس اسلام کے قلعے ہیں علمائے اسلام کی محنت سے قائم کردہ اسلامی یونیورسٹیا ں اسلام کی چھاونیاں ہیں مساجد کے مینار اسلام کے میزائل ہیں یہ مسلمان قوم کے دل میں اسلام کی نشاۃثانیہ کا کو موجب بن رہے ہیں ان کو ہی دیکھ کر صلیبیوں کے دلوں میں اسلام کا خوف تاری رہتا ہے۔ دینی مدارس اسلام کے قلعے ہیں ، ہم اسکے حفاظت خون کے قربانیوں سے کریں گے۔ ان خیالات کے اظہار جمعیت علماء اسلام سٹی چمن کے زیراہتمام دفاع دینی مدارس اور برما کے مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم پر مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کانفرنس سے جمعیت علماء اسلام ضلع قلعہ عبداللہ چمن کے سرپرست مولانا عبدالکریم ، ضلعی امیر مولانا عبدالرحیم، مولانا فتح محمد، تحصیل چمن امیرمولاناعبدالخالق،مولاناعبدالستار، صوبائی جوائینٹ سیکرٹری اور سابق صوبائی وزیر حاجی بہرام خان اچکزئی، تحصیل جنرل سیکرٹری حاجی غوث اللہ، حلقہ بوغرہ یونین چمن کے امیر حاجی امان اللہ، مولانا عبدالولی ،حافظ عزیزاللہ عزیزی، حافظ عبداللہ،مولوی حافظ محمد صدیق مدنی، مفتی محمد معروف اور عبدالقادر مسلم یارنے کیا۔
اسلام دشمن عناصراسلامی سیاسی پاکستان کے وجود ہی کے منکر ہیں اور پاکستان کی گاڑی کوگھسیٹ گھسیٹ کر سیکولر بنانے کی ہر کوشش کرتے رہتے ہیں مگر خاص کر ان کا نشانہ پاکستان کے دینی مدارس ہیں جہاں سے پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کا نعرہ مستانہ بلند ہوتا ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ دین کی پختہ تعلیم ہی پاکستان کی بقا کی ضامن ہے اور وہ دینی مدرسوں سے فارغ لوگوں کی وجہ سے ممکن ہے مشنری اسکولوں کے فارغ شدہ لوگ جن کا مذہب تو تبدیل نہیں کیا جاتا مگر ان کی سوچ کا مرکزمکہ و مدینہ کی بجائے واشکٹن؍ مغرب کی طرف کر دیا جاتا ہے وہ اپنی ہر مشکل کا حل انہیں کی فکر سے حاصل کرنے کی جد وجہد میں لگے رہتے ہیں اسی وجہ سے وہ دنیا میں سیکولر حکومتیں قائم کئے ہوئے ہیں جبکہ مدارس سے فارغ لوگوں کی سوچ کا مرکزمکہ و مدینہ ہے وہ ہر مسئلے کو اسلام کے بتائے ہوئے اصلوں کی روشنی میں دیکھتے ہیں اور مشکل کے وقت وہ اللہ اور رسول ؐ سے ہدایت حاصل کرنے کی جد و جہد کرتے ہیں اس بنیادی اصول کو سامنے رکھ کر�آپ یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ پاکستان کے مدارس کے پیچھے دنیا کے صلیبی کیوں پڑے ہوئے ہیں اس بات کو مذید سمجھنے کے لیے آپ غور کریں کہ مشنری اسکولوں سے فارغ ہونے والے اشخاص کے لیے اقتدار کا راستہ کس طرح ہموار کیا جاتا ہے حکومتی عہدوں میں شامل ہونے کے لیے جو مقابلے کے امتحان کا طریقہ رکھا گیا ہے وہ انگریزی زبان میں ہے انگلش میڈیا سے پڑھے ہوئے لوگ آسانی سے مقابلے کی امتحان میں پاس ہو جاتے ہیں اور عربی مدرسوں کے پڑھے ہوئے لوگ اس کے قریب بھی نہیں آ سکتے کیونکہ انہوں نے عربی میں تعلیم حاصل کی ہوتی ہے اس سازشی طریقہ کو پاکستان بننے سے پہلے ہی صلیبیوں نے جاری کیا ہوا تھا لہٰذا جب سے پاکستان بنا ہے صلیبیوں کے انگلش میڈیا اسکولوں،کالجوں سے فارغ شدہ اشخاص حکومت میں شامل ہوتے ہیں جو نظام حکومت چلاتے ہیں یہ تو ہوئے انتظامیہ کے لوگ جو مشنری اسکولوں سے پڑھ کر آتے ہیں جو پاکستان کی پارلیمنٹ میں لوگ جاتے ہیں ان میں بھی کافی تعداداپنی دولت کی بنیاد پر ان ہی مشنری اسکولوں سے ہی پڑھ کر آتے ہیں پارلیمنٹ میں جیت کے آنے والے پیسے کے زور پر جیت کر آتے ہیں پھر نفع بخش تجارت کے طور پر جائز نا جائز طریقے سے پاکستان کی عوام کی دولت کوہڑپ کرنے کی فکر میں رہتے ہیں ان کی اکثریت قانون سازی میں سیکولر سوچ کے مددگار بنتی ہے اس اسکیم کو صلیبی ماہر تعلیم لارڈ میکالے نے اپنی محکوم نو آبادیوں کے لیے ترتیب دیا تھا اس کے پیچھے انگریز کی سوچ تھی کہ جس اسلامی تعلیم سے اسلام نے دنیا کے ایک کثیر حصے پر حکومت کی تھی اس کی جڑ کاٹ دی جائے چوں نا چہ اس اسکیم کے ذریعے دین سے غافل کلرک پیدا کیے گئے جو ایک طرف اپنی اصل سے دور ہوتے گئے تو دوسرے طرف قابض حکومت کے کل پرزے بنتے گئے اسلامی تعلیم کے تمام راستے بند کر دیے گئے اور دنیوی تعلیم کے راستے کھول دیے گئے اس سے مسلمان دو حصوں میں تقسیم ہو گئے علمائے اسلام اس سازش کو سمجھ گئے تھے لہٰذا انہوں نے نامساحد حالات کے باجود دینی ؍ عربی تعلیم کو جاری رکھا مدارس قائم کئے حکومت کی طرف سے امداد نہ ملی تو مخیر حضرات کی مدد سے مدارس چلائے جو الحمد اللہ اب بھی پاکستان کے طول و عرض میں چل رہے ہیں ان کی وجہ سے پاکستان کی مساجد آباد ہیں ان ہی کی وجہ سے حفاظ تیار ہو رہے ہیں جو اللہ کے کلام کو اپنے سینوں سجائے ہوئے ہیں ہر رمضان میں پاکستان کے قریہ قریہ میں قرآن سناتے ہیں ان ہی کی وجہ سے
پاکستان میں اسلام کا بول بھالا ہے یہ ہی اسلام کے رکھوالے ہیں یہ ہی عوام کی دینی راہنماہی کرتے ہیں ۔
یہ مدارس اسلام کے قلعے ہیں علمائے اسلام کی محنت سے قائم کردہ اسلامی یونیورسٹیا ں اسلام کی چھاونیاں ہیں مساجد کے مینار اسلام کے میزائل ہیں یہ مسلمان قوم کے دل میں اسلام کی نشاۃثانیہ کا کو موجب بن رہے ہیں ان کو ہی دیکھ کر صلیبیوں کے دلوں میں اسلام کا خوف تاری رہتا ہے۔
دینی مدارس اسلام کے قلعے ہیں ، ہم اسکے حفاظت خون کے قربانیوں سے کریں گے۔
پاکستان میں قائم ان اسلامی اداروں سے اسلامی دنیا سے طالب علم حصول علم کے لیے آتے ہیں جن کو ہماری حکومتیں اکثر تنگ کرتی رہتی ہیں کبھی ان کو شدت پسند اور دہشت گرد کہا جاتا ہے اسلامی مدارس میں تکریب کاری کی تربیت نہیں دی جاتی اسلامی ملکوں کے طلبہ تعلیم کے لیے آتے ہیں انہوں نے کہا ڈکٹیٹر مشرف کے دور میں ہم نے اسلامی مدرسوں کی چھان بین کی تھی پاکستان میں کوئی تخریب کاری کی تربیت نہیں دی جاتی نہ ہی کوئی تخریب کار مدرسوں میں زیر تعلیم ہیں اسلامی ملکوں کے طالب علم پاکستان میں دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں لہٰٰذا ان پر شک کرنا اورناجائز طریقے سے تنگ کرنا درست نہیں یہ طالب علم تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے اپنے اسلامی ملکوں میں پاکستان کا اچھا امیج پیش کرتے ہیں سعودی وزیر عبدالعزیز بن عنداللہ العمار نے کہا ہے کہ پاکستانی مدارس دنیا کے لیے رول ماڈل ہیں ۔ عالمی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے مدارس کے خلاف کاروائی حکومت کو مہنگی پڑے گی حکمرانوں سے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں آئین سے اسلامی شقوں کے خاتمے کی مزا حمت کی جائے گی غیر ملکی طلبہ سے اگر قومی سلامتی کو کوئی مسئلہ ہے تو یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم طلبہ بھی یہ خطرہ ہو سکتا ہے حکمران ہمیں حبالوطنہ نہ سیکھائیں قومی سلامتی کی آڑ میں مدارس کے کؒ اف کسی بھی کاروائی کی مزحمت کی جائے گی ہمیں ملک کی سلامتی ان حکمرانوں سے زیادہ عزیز ہے اور انہوں نے مزید کہا ہے کہ دینی مدارس و مذہبی رہنما عصری تعلیم کے خلاف نہیں ان وفدکے اراکین نے وازیر اعظم سے کہا ہے کہ اگر کوئی بھی کسی مدرسے میں دشہت گردی کی تربیت کی جارہی ہے تو حکومت نشان دہی کرے علماء اس مدرسے کے خلاف قانونی کاروائی کرنے میں حکومت کا ساتھ د یں گے۔