وہ جانتا تھا کہ رحم و مروت اور مہرو محبت میں آپ ﷺ کا کوئی ثانی نہیں اور دوسری وجہ مسلمان باشندوں کے درمیان مدینہ تنہا ہی چلے آنے کی یہ بھی تھی کہ جزیرۃ العرب میں اکیلا چلا آنا ایک طرح کی مدد مانگنا بھی تصور کیا جاتا تھا اور یوں اُس شخص کی نہ صرف جان و مال محفوظ رہتے بلکہ عرب پناہ مانگنے والے کی حفاظت کیلئے اپنی جان تک کی بازی لگا دیتے خواہ وہ شخص اُس قبیلے کا خونی دشمن ہی کیوں نہ ہو ۔ ابو سفیان مدینہ پہنچ کر اپنی بیٹی حضرت اُمِ حبیبہؓ جو کہ پیغمبرِ کائنات امام الانبیاء محمد ﷺ کی زوجہ بھی تھیں کے گھر میں داخل ہوا تو بیٹی اُمِ حبیبہؓ نے فرش سمیٹ لیا اور فرمایا کہ ’’اِس پاک فرش (بیٹھنے والی چادر ) پر رسول اللہ ﷺ تشریف فرماتے ہیں اور تم مشر ق ہو تم جیسا بت پرست اِس پاکیزہ فرش پر بیٹھنے کے لائق نہیں ۔
ابو سفیان کی مکہ سے سفر کر کے مدینہ آنے کی اہم وجہ یہی تھی کہ اُس نے اپنے قبیلہ قریش سمیت صلح حدیبہ کے قوانین کی خلاف ورزی کی تھی ۔صلح حدیبیہ کی شرائط میں سے ایک اہم شرط یہ بھی تھی کہ ’’ایک فریق جب کِسی قبیلے یا قبائل سے لڑ رہا ہو تو دوسرا فریق اس کے دشمن کی حمایت نہیں کرے گا اور بے طرف رہے گا ‘‘ لیکن قبیلہ قریش کے اشراف نے نہ صرف اپنے اتحادی قبیلے بنو بکر کو ہتھیار اور سپاہی فراہم کیے بلکہ انہیں مسلمانوں کے اتحادی قبیلے خزاعی پر حملے کی ترغیب دی اور بھر پور پشت پناہی بھی کی جو کہ صلح حدیبیہ کی کھلم کھلا خلاف ورزی تھی ۔ خیبر فتح ہوتے ہی جزیرۃ العرب کے وسعی خطے میں مسلمانوں کی واضح برتری قائم ہوگئی تو اشرافِ مکہ کے رونگٹے کھڑے ہوئے اور انہیں اپنی غلطی کا اس شدت سے احساس ہونے لگا اور وحشت و اضطراب کی ایسی سنسنی خیز کیفیت طاری ہوگئی کہ سوتے جاگتے میں مسلمانوں کے اپنی جانب بڑھتے لشکر نظر آنے لگے لہذا ابو سفیان مشرقین کی نمائندگی کرتا ہوا باہمی اختلاف حل کرنے کی کوشش میں تنہا ہی مدنے پہچا ۔
ابوسفیان حضو ر پاک ﷺ کو ڈھونڈتا ہوا مسجد پہنچا تو آپ ﷺ کو وہاں موجود پایا ۔آپ ﷺ اپنے جانی دشمن کے ساتھ نا صرف خوش اخلاقی سے پیش آئے بلکہ اُسے اپنے پاس بیٹھاکرانتہائی شفقت سے مسکراتے ہوئے اُس کے آنے کا سبب دریافت کیا ۔(یاد رہے کہ ابھی تک ابو سفیان نے اسلام قبول نہیں کیا تھا )ابو سفیان بولا ’’میں یہ کہنے آیا ہوں کہ ہم اہلِ مکہ نے صلح حدیبیہ کی شرائط کے مطابق قبیلہ بنو بکر اورخزاعی کے درمیان ہونے والے جھگڑے کے دوران ذرا بھی مداخلت نہیں کی اور نہ ہی قبیلہ بنو بکر کا ساتھ دیا ہے لیکن میں جانتا ہوں کہ خبر یہی گردش کر رہی ہے کہ ہم نے اپنے اتحادی قبیلے کی مدد کی ہے اور اگر آپ بھی یہی سمجھتے ہیں تو ہم (اہلِ مکہ ) مسلمانوں کے اتحادی قبیلے خزاعی کا سارا نقصان پورا کرنے کی حامی بھرتے ہیں ۔قربان جائیے پیارے آقا محمدﷺ کی شانِ اقدس پر آپ ﷺ نے تبسم فرمایا اور ابو سفیان سے گویا ہوئے ’’اگر تم سچے ہو تو پریشان کیوں ہوتے ہو ‘‘ ابو سفیان نے جب حضور ﷺ کا یہ خوبصورت معنی خیز جواب سنا تو اپنا اندرونی اضطراب چھپانے کی خاطر فوراً وہاں سے روانہ ہوگیا لیکن وہ یہ جانتا تھا کہ ہم نے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے اب مسلمانوں کے پاس اہلِ مکہ پر حملہ کرنے کا جواز موجودہے اور یوں مسلمانوں پر صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی کا الزام بھی عائد نہیں ہو سکتا ۔ابو سفیان واپس مکہ پہنچا اور اپنی تشویش کا اظہار اہلیانِ مکہ سے کیا ۔
اس دوران حجاز کی سرزمین پر جگہ جگہ فتح کے جھنڈے لہرانے کے بعد حضور اکرم ﷺ نے مکہ فتح کرنے کا ارادہ کیا اور اِس بات کو ایک راز رکھا اور مدینہ کا رابطہ بھی باہر کی دنیا سے منقطع کر دیاگیا۔مدینے کی حدود میں باہر کا کوئی باشندہ داخل نہیں ہوسکتا تھا اور نہ ہی مدینہ کا کوئی باسی شہر کی حدود سے باہر جاسکتا تھااس پابندی کے بعد مسلمانوں کی تیاریاں زورو شور سے شروع ہوگئیں ۔حضورپاک ﷺ کو اس بات کا خدشہ تھا کہ لوگوں کی شہر سے اندر باہر آمدورفت کے باعث اگر لشکرِ اسلام کی تیاریوں کی خبر باہرنکل گئی تو مشرقین جو شاطر ترین اور دوغلی پالیسی چلنے کے ماہر ہیں وہ یقیناًاریب قریب کے قبیلوں کو مسلمانوں کے خلاف منفی انداز میں بھڑکاکر اپنا اتحادی بنالیں گے اسی وجہ سے مدینہ کا رابطہ بیرونی دنیا سے مکمل طور پر کاٹنا پڑا ۔اِسی دوران مسلمان قبائل کو بھی پیغام بھیج دیا گیا کہ وہ بھی جنگ کیلئے امادہ رہیں لیکن کِسی کو یہ علم نہیں تھا کہ جنگ کرنی کہاں اور کِس سے ہے ؟حضور اکرم ﷺ کی عظیم لیڈرانہ قیادت اور جنگی جوہر کے مسلمان جنگِ بدر میں ہی معترف ہو گئے تھے جب آپ ﷺ نے مسلمانوں کو ایسی جنگی صف آرائی (فالاثر)سے روشناس کروایا جو ہزار سال قبل اسکندر مقدونی کے زمانے میں اپنائی گئی تھی ۔اسلامی تذکرہ نویس لکھتے ہیں حضور پاک ﷺ حربی فنون سے باخوبی آگاہ تھے لیکن ہم یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ آپ ﷺ نے جنگی تربیت کہاں حاسل کی ۔لشکر اسلام کی تیاریوں کو دیکھتے ہوئے اہلِ مدینہ میں مختلف افواہیں اڑنے لگیں اور کچھ لوگ سمجھنے لگے کہ شاید پیغمبرِ کائنات ﷺ جنگِ موتہ میں ہونے والے مسلمانوں کے نقصان کی تلافی کا ارادہ رکھتے ہیں ۔
مسلمانوں کا دس ہزار کا ایمان افروز لشکر حضورکریم ﷺ کی قیادت میں (کچھ اسلامی تذکرہ نویسوں کے مطابق ) یکم رمضان کو مدینہ سے مکہ کی جانب روانہ ہوا ۔سفر کے دوران مسلمان باقائدگی سے روزے رکھتے اور صحرا میں اپنا سفر جاری رکھتے لیکن مسلمانوں کا لشکر جب غدیر یا قدیر نامی مقام پر پہنچا تووحی کی صورت اللہ پاک کا حکم نازل ہو گیااور حضور پاک ﷺ نے مسلمانوں سے فرمایا اللہ نے یہ حکم نازل کیا ہے کہ مسلمانوں کو سفر کے دوران روزے رکھنا معاف ہیں۔ مسلمان جب مکہ سے قریب صرف ایک منزل کی دوری تک پہنچ گئے تو آپﷺ کے فرمان کے مطابق لشکرِ السلام نے وہی پڑاؤ ڈالا یہاں تک کے رات کی تاریکی چھا گئی پھر آپﷺ کے حکم پر مسلمانوں کا لشکر پھیل گیا اور سب نے آگ جلا کر شمعیں روشن کر لیں ۔ مکہ سے منزل بھر کی دوری پر ہر جانب آگ ہی آگ جلتی دیکھی تو اہلِ مکہ کے ہوش اُڑ گئے کہ اِس قدر بڑے لشکر نے شہرِ مکہ کا محاصرہ کر لیا ہے ۔پھر عمِ رسول ﷺ حضرت عباسؓ اپنی نگرانی میں ابو سفیان کو حضور پاک ﷺ کے پاس لائے کیونکہ حضرت عباسؓ اسلام قبول کرنے سے قبل ابو سفیان کے اچھے دوست بھی رہ چکے تھے (کچھ مورخین لکھتے ہیں کہ حضرت عباسؓ فتح مکہ کے دوران ہی دائرہ اسلام میں داخل ہوئے تھے ) ہوا کچھ یوں تھا کہ حضرت عباسؓ نے کچھ فاصلے پر مشعل بردار لشکر کے بارے دھیمی آواز میں دو افراد کو چھپ کر گفتگو کرتے سناآپؓ قریب گئے تو دیکھا اُن میں سے ایک ابو سفیان ہے تو آپؓ نے ابو سفیان کو سمجھایا کہ اسلام کی دعوت قبول کر لے کہ آج فیصلے کا دن آگیا ہے اور تو امیرِ مکہ میں شامل ہوتا ہے سب سے پہلے تیری ہی گردن اڑے گی یہ سن کر ابو سفیان نے اسلام قبول کرنے پر رضامندی ظاہر کردی ۔ پھر حضرت عباسؓ ابو سفیانؓ کو اپنی ضمانت پر بحفاظت حضور پاک ﷺ تک لے آئے۔ راستے میں حضرت عمرؓ نے ابوسفیانؓ کو دیکھا تو تیش میں آگئے اور اُنہیں قتل کرنے کا ارادہ کرلیا لیکن پھر حضرت عباسؓ کے سمجھانے پر حضور کریم ﷺ کا حکم آنے تک باز رہنے کا ارادہ کرلیا ۔
صبح حضور پاک ﷺ نے ابوسفیان سے ملاقات کی ۔آپ ﷺ نے بھی اہلِ مکہ کے سامنے ابو سفیانؓ کا وقار اور عزت کو قائم رکھا اور فرمایا ’’جو شخص بھی آج ابو سفیانؓ کے گھر پناہ لے لے اُسے بھی امان حاصل ہے اور اِس کے مال کو بھی کوئی خطرہ نہیں پھر حضور ﷺ کے فرمان کے مطابق ہی اسلامی لشکر ابو سفیانؓ کے سامنے سے سلامی دیتے ہوئے گزرا ۔اسلامی لشکر حضور پاک ﷺ کی قیادت میں شان و شوکت کے ساتھ ۱۰رمضان المبار ک ۸ہجری کو مکہ میں داخل ہوا اور بنا کِسی خون و خرابے کے مکہ فتح کر لیا ۔فتح مکہ کے دوران کچھ لوگ تیزی سے خانہ کعبہ کی حدود کی جانب دوڑے ،کچھ نے ابو سفیانؓ کے گھر کا رخ کیا ، کچھ نے اپنے گھروں کی کھڑکیاں دروازے بند کر لیے اوریوں سب کو امان حاصل ہوگیا ۔
حضور پاک ﷺ نے اس دوران لشکرِ اسلام کو چار مختلف دستوں میں بانٹا تھا ۔ایک دستے کی قیادت حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریمؓ فرما رہے تھے ، دوسرے کی قیادت کی ذمہ داری زبیرؓ بن عوام کے سپرد تھی ، تیسرے دستے کی سربراہی سعدؓ بن عبادہ انصاری کر رہے تھے اور چوتھا دستہ جو کہ حضرت خالدؓ بن ولید کی قیادت میں تھا اُسے جنوب کی جانب سے مکہ میں داخل ہوتے وقت قریش کے کچھ لوگوں اور قبیلہ احابش کا سامنا کرنا پڑا اور تلواریں نیام سے نکل آئیں۔آپ ﷺ نے اپنے چاروں سرداروں کو تاکید کی تھی کہ’’ جب وہ شہر میں داخل ہوں تو اپنی تلواریں نیام سے نہ نکالیں اور نہ ہی کِسی پر حملہ کریں مگر یہ کہ ان پر حملہ کیا جائے‘‘ اور قریش اور قبیلہ احابش کے لوگوں نے حضرت خالدؓ بن ولید کے دستے کی سپاہ پر حملے میں پہل کی اور جانی نقصان اُٹھایا باقی تمام اسلامی دستے کِسی بھی مزاحمت کے بنا مکہ میں داخل ہو گئے ۔
اس وقت مکہ کے تمام بڑے بڑے سردار تھر تھر کانپ رہے تھے کیونکہ انہوں نے حضور پاک ﷺ اور صحابہ پر جو جو ظلم ڈھائے تھے وہ ہر گز معافی کے قابل نہیں تھے اور سب جانتے تھے کہ ابھی چند ہی لمحوں میں ان کی گردنیں تن سے جدا کر دی جائیں گیں ۔ کفارِ مکہ نے اونٹ کی خون آلود اوجڑی کا غلاف حضور پاک ﷺ کے سر مبارک پر چڑھایا ، ان پر پتھر برسائے ، نماز کی حالت میں شدید جان لیوا حملے کیے ،اسلام اور رسول اللہ ﷺ کے خلاف ہجو کہے اور طرح طرح کی تکلیفیں آپ ﷺ کو پہنچائیں مگر باوجود اس کے حضور پاک ﷺ نے اپنے اور اسلام کے کئی سرخت دشمنوں کے مقابلے میں انتہائی نرمی اور فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سب کو معاف فرمادیایہاں تک کے ہندہ جگر خور جس نے آپ کے چچا اور نامی گرامی سردار حضرت حمزہؓ کا کلیجہ نکال کر چبایا تھا اُسے بھی معاف کر دیا ۔فتح مکہ پر آپ ﷺ کی جانب سے جو عفو درگزر کا نمونہ دیکھنے کو ملا اس کی مثال پوری دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔
پھر آپ ﷺ نے اپنے صحابہ اکرامؓ کے ہمراہ خانہ کعبہ کا طواف کیا اور اور خطبہ ارشاد فرمایا ۔خطبے سے فارغ ہو کر آپ ﷺ نے خانہ کعبہ میں رکھے سب سے بڑے بت کو اپنے ہاتھوں سے گرا کر پاش پاش کر دیا اور پھر اپنے داماد اور جلیل القدر صحابی حضرت علیؓ سے فرمایا کہ تمام بتوں اور تصویروں کو خانہ کعبہ سے نکال باہر کرو اور توڑ دو ۔حضرت بلالؓ نے آپ ﷺ کے فرمان کے مطابق خانہ کعبہ کی چھت پر چڑھ کرآذان دی ۔حضور پاک ﷺ نے عثمان بن طلحہ جو کعبہ کے رکھوالے اور حفاطت پر معمور تھے (وہ بھی بعد میں ایمان لے آئے ) کو بدستور خانہ کعبہ کا والی کلید بردار مقرر کردیا اور یہ عہدہ اُن کی اولاد میں منتقل ہوتا رہا اور آج بھی جو لوگ خانہ کعبہ کے متوالی اور کلید بردار ہیں وہ دراصل حضرت عثمانؓ بن طلحہ کی اولاد میں سے ہی ہیں ۔
خانہ کعبہ کے خزانے سے حاصل ہونے والا سارا سونا آپ ﷺ نے خانہ کعبہ کے تصرف میں ہی رہنے دیا ۔فتح مکہ کے بعد حضور پاک ﷺ نے تقریباً پندرہ دن مکہ میں قیام کیا اور اس وقت تک تقریباً تمام اہلِ مکہ دائرہ اسلام میں داخل ہوچکے تھے پھر آپ ﷺ نے مدینہ واپسی کا ارادہ فرمایا۔ اہلِ مدینہ جو اس احساس میں مبتلا ہوگئے تھے کہ آپ ﷺ شاید پھر کبھی ان کے شہر کا رخ نہیں کریں‘ جب آپ ﷺ کو مدینہ جاتے دیکھا تو ان کے چہرے خوشی کے مارے دمک اُٹھے اور سب انصار مسکرانے لگے ۔