ہفتہ ہونے کو ہے کراچی کی گرمی ختم ہونے کا نام تک نہیں لے رہی ۔آج پھر محکمہ موسمیات نے اپنی فورکاسٹ دی ہے کہ کراچی کا درجہ حررات ۴۰ سینٹی گریڈتک جائے گا۔ آج بھی کئی اموات ہوئیں۔کے الیکٹر ک نے تو طے کر رکھا ہے کہ بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کرنی ہی کرنی ہے۔دن میں کئی دفعہ دفعہ بجلی غائب ہو جاتی ہے۔ ٹی وی پر پٹیاں چل رہیں کہ فلاں آبادی میں چار دن سے بجلی نہیں۔ فلاں آبادی میں تین دن سے بجلی نہیں۔کوئی معلوم کرنے والا نہیں کہ عوام کو عذاب میں کیوں مبتلا کیا جاتا ہے۔اگربجلی تسلسل سے ملے تو بھی کم جانی نقصان ہو مگر کراچی کا آوے کا آوا ہی بگاڑ کر رکھ دیا گیا ہے۔ ایک طرف خوف ہراس نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ ٹارگٹڈ آپریشن سے امن و امان کا کچھ مسئلہ حل ہو ا ہے اب روزانہ بیس بیس لاشیں نہیں گر رہیں۔مگر شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بالکل خراب ہے۔ رمضان کے اندر مزید گرمی اور ویگنیں لوگوں سے بھری ہوتی ہیں۔ عوام ویگنوں کی چھتوں پر بیٹھ کر سفر کرتے ہیں۔ جہاں تک پانی کا تعلق ہے تو نلوں کے ذریعے پانی نہیں مل رہا۔ ٹینکر والے ڈبل پیسے مانگتے ہیں۔ کراچی ایک غریب پرور شہر ہوا کرتا تھا۔ سمندر کی نمی والی ہوائیں چلتیں تھیں۔ گرمی کا نام تک نہیں ہوتا تھا۔اگر سایہ میں بجلی کے پنکھے کے نیچے بیٹھ جاتے تو گرمی کا احساس تک نہ ہوتا تھا۔ کراچی کی رات توہمیشہ ٹھنڈی ہو جاتی تھی۔ صبح فجر کی نماز پڑھنے والے نسیمِ سحر کے مزے لیتے تھے۔دن بھر پٹرول سے چلنے والی گاڑیوں کے لڈ ملے دھواں کو سمندری ہوائیں اُٹھا کر پھینک دیتی تھی جس سے بیماریوں سے جان بچی رہتی تھی۔پھر نہ جانے کراچی کے باسیوں سے کراچی کا موسم کیوں خفا ہو گیا کہ جون کے مہینے میں سورج آگ پھینکنے لگا۔ لوگ گرمی سے مرنے لگے۔ سمندر ی ہوائیں چلنا کم ہو گئیں۔ گرمی اور حبس کی وجہ سے لوگوں کو ہیٹ اسٹروک ہونے لگا۔ کراچی کے ہسپتالوں میں گرمی کے مارے لوگ لائے جانے لگے۔ گورنمنٹ ہسپتالوں کے وراڈ میں مریضوں کے لیے جگہ کم پڑھنے لگی۔نجی ہسپتال والوں نے اپنی اپنی امرجنسی کے دروازے لوگوں پر بند کر دیے۔ کیونکہ جو مریض آ رہے تھے وہ غریب لوگ تھے۔ وہ گورنمنٹ کے لوگ نہیں تھے جو نجی ہسپتالوں میں پہلے سے رجسٹرڈ ہوتے ہیں۔ یا وہ امیر لوگ، سرمایا دار ، وڈیرے اورسیاست دان نہیں تھے جو لاکھوں کے بل ادا کر سکتے ہیں۔ یہ لوگ تو ایئر کنڈیشنڈ گھروں میں آرام کی نیند سو رہے تھے۔ مرنے والوں میں زیادہ تر محنت کش غریب مزدورپیشہ لوگ تھے۔مرنے والے تودن بھر مزدوری کرنے والے،گھنٹوں بس اسٹاپوں میں بسوں کا انتظار کرنے والے تھے۔ جو ہیٹ اسٹروک سے بے ہوش ہو گئے تھے۔ جن کو ایدھی ایمبولنس یا چھیپا ایمبولنس والے رضا کار اُ ٹھا اُ ٹھا کر لے جا رہے تھے۔کیا یہ قدرتی آفت نہیں تھی؟ یا یہ ناگہانی آفت نہیں تھی؟ تھی یقیناً تھی !مگر کیا ذمہ داروں نے اس قدرتی آفت کا کچھ انتظام کر رکھا تھا نہیں نہیں بالکل نہیں۔ وہ تو کرپشن کرنے میں مصروف تھے۔ دنیا میں ہر حکومت قدرتی آفتوں کا انتظام کر کے رکھتی ہے مگر ہمارے ہاں اس کارواج نہیں۔ پھر ایسے موقعے پر تو جو بھی قریبی ہسپتال ہو یہ اُس ہی کی انسانی، قوم اور اخلاقی ذمہ داری تھی کہ اُس مریض کو فرسٹ ایڈ دیتی تاکہ اُس کی زندگی بچ جاتی مگر ایسا نہ ہوا۔نجی ہسپتالوں نے اپنی ایمرجنسی کو بند کر دیا ۔ رضاکاروں کیل الیکٹرونک میڈیانے انٹرویو لوگوں کو سنائے۔ وہ کہ رہے تھے مریض کو ایک ہسپتال لے گئے وہاں ایمرجنسی بند تھی۔دوسری ہسپتال لے گئے وہ بھی بند تھی۔تیسری ہسپتال لے جاتے ہوئے
مریض نے دم توڑ دیا پھر اُسے ایدھی سرد خانے میں پہنچایا اور میت ا مانتاً رکھ دی تاکہ وارث آ کر لے جائیں۔اس طرح کئی مریض جان کی بازی ہار گئے۔ پھر ایک وقت آیاایدھی کے سرد خانے کے باہر بھی کاغذ پر نوٹس لکھ دیا گیا مزید مردے رکھنے کی گونجائش نہیں ہے۔ الیکٹرونک میڈیا نے قبرستان میں گورکنوں سے انٹرویوزکئے تو معلوم ہوا کہ قبرستانوں میں بھی جگہ کم پڑ گئی ہے۔اور ایک ایک قبر کئی ہزار رپوں میں کھودی جارہی ہے۔اس مشکل کی گھڑی میں کسی بھی حکومت کے اہلکار نے ذمہ داری قبول کر کے استعفیٰ نہ دیا۔ اس آفت کو ایک دوسرے کے سر ڈالتے رہے۔ سندھ حکومت نے کہا یہ وفاق کی ذمہ داری ہے کے الیکٹرک سے وفاق نے معاہدہ کیا ہوا ہے لہٰذا کراچی کی بجلی کی سپلائی کی بھی وفاق ذمہ دار ہے۔وفاق کے بجلی کے وزیر عابد شیر علی صاحب نے کہا کہ وفاق کے الیکٹرک کو ۶۵۰ میگاواٹ بجلی دے رہے ہیں۔باقی بجلی کے الیکٹرک نے خود پیدا کر کے سپلائی کرنی ہے جو کے الیکٹرک نہیں کر رہی۔لوگ مرتے رہے اور وفاق اور صوبہ سندھ کی نورا کشتی چلتی رہی۔ پنجاب حکومت میں جب بھی کوئی ایسا واقعہ ہوتا ہے اُس کا وزیرا علیٰ فوری مداوے کے لیے پہنچ جاتا ہے جبکہ اس دوران پیپلز پارٹی کی ساری قیادت ملک چھوڑ کر باہر چلی گئی جس سے سندھ کے لوگ مزید مایوس ہوئے کہ کراچی میں موت رقص کر رہی ہے بجائے اس کا کوئی مداوا کیا جائے سیاسی لیڈر شپ باہر چلی گئی۔عوام کے دباؤ اور چہ میگوئیوں کی وجہ سے پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری صاحب واپس کراچی آ گئے۔ آج سندھ حکومت کے ا
ہلکاروں کے ساتھ کراچی کی ہسپتالوں کا دورہ کیا۔ وفاق سے بھی ہفتہ بعد وزیر اعظم صاحب سندھ کے دکھی لوگوں کی دل جوئی کے لیے تشریف لارہے ہیں۔عمران خان صاحب نے بھی دو دن پہلے جناح ہسپتال کا دورہ کیا مگر دکھی عوام کی دل جوئی کی بجائے اُن کو مزید دکھ سہنے پڑے۔ دوگھنٹے کے لئے ایمرجنسی بند کر دی گئی مریض باہر انتظار کرتے رہے۔کل سراج الحق صاحب نے بھی کراچی کی لیڈر شپ کے ساتھ مل کرسول ہسپتال میں جاکر مریضوں کی خیریت دریافت کی۔ حکومت سے درخواست کی کہ مرنیوالوں کے بچوں کی کفالت کا انتظام کرے۔ عوام وفاقی اور صوبائی سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ نجی ہسپتالوں سے اس غفلت اور قومی جرم کا حساب لے گی اور انہیں آئندہ کے لیے پابند کرے گی کہ ایسی حرکتیں نہ کریں۔بل کہ ایسی آفت کے وقت لوگوں کی ہنگامی مدد کرنے کے خصوصی انتظامات کریں۔ صوبائی حکومت میتوں کے لیے مزید سرد خانے بنائے۔مرنے والوں کے لیے قبر ستان کی جگہ کا انتظام کرے۔ غریب شہریوں کی میتوں کے لیے بغیر قیمت کی قبریں مہیا کرے۔اگر یہ ضروری کام بھی حکومتیں نہ کر سکیں تو اس پھر ان کی حکومت کا جواز تلاش کرنا پڑے گا۔محکمہ موسمیات کے ذریعے تحقیقات کرائی جائے کہ اس سال جون میں معمول سے زیادہ گرمی کیوں پڑی تاکہ آئند اس کا ممکنہ ادراک کیا جاسکے۔