پاکستان تو ویسے بھی بیرونی سازشوں کی وجہ سے حادثوں کی زد میں ہے مگر ہماری حکومتوں کی بے عملی کی وجہ سے بھی حادثے ہوتے رہتے ہیں۔ بہادرپاکستانی قوم آئے دن ایک سے ایک حادثہ برداشت کر رہی ہے۔ اللہ نے اسے صبر سے نوازہ ہے ورنہ اتنے حادثے کوئی قوم بھی برداشت نہیں کر سکتی۔گوجرانوالہ کے قریب پل پر ٹرین انجن کے سمیت چار ڈبے نہر میں گر گئے۔ یہ ٹرین پنو عاقل فوجی چھاؤنی سے کھاریاں فوجی چھاؤنی جاری تھی جس میں ہمارے بہادر فوجی اور کچھ سامان لوڈ تھا۔ اس حادثہ میں ۱۹؍ قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں۔ یہ امر قابل اطمینان ہے کہ ریسکو ٹیمیں وقت پر حادثے کے مقام پر پہنچ گئی اور ریسکو آپریشن شروع کر دیا۔تمام قیمتی جانوں کو نہر سے نکال بھی لیا گیا۔گوجرانوالہ چھاؤنی میں ان تمام شہدا کی نماز جنازہ ادا کر دی گئی جس میں جنرل راحیل شریف پاک فوج کے سپہ سا لاربھی شریک ہوئے۔ تمام میتوں کو ان کے آبائی مقامات تک پہنچا دیا گیا۔ وہاں پر ان کی تدفین مکمل فوجی اعزازات کے ساتھ بھی عمل میں لائی جا چکی ہے جس میں سیاسی و عسکری قیادت سمیت ہزاروں شہریوں نے شرکت کی۔ پوری قوم ان کے درجات کے لیے اللہ سے دعا گو ہے۔ وہ اپنی ڈیوٹی پر تھے کہ یہ حادثہ پیش آیا ۔مرنے والے تمام کے تمام شہید ہیں ۔ ہماری فوج کے جوان اپنے ملک کی حفاظت کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی حادثے ہوئے جن میں گیاری سیکٹر سیاہ چین میں ہمارے کئی فوجی برف کے تودے کے نیچے دب کر شہید ہوئے تھے۔ اللہ سب کی شہادت قبول فرمائے۔ ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین۔جہاں تک ہماری موجودہ حکومت کا تعلق ہے تو وہی روایاتی طور پر باتیں کی گئیں۔ وزیر ریلوے صاحب نے کہا اس امر کو دیکھ رہے ہیں کی یہ تخریبی کاروائی ہے کہ نہیں! وزیر ریلوے صاحب جائے حادثہ پر گئے اور محکماتی طور پر تحقیق کے لیے کمیٹی قائم کر دی ہے۔اس کے علاوہ ۷؍ رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بھی تشکیل دے دی گئی ہے جس میں ریلوے اور فوج کے سینئر افسران شامل ہیں۔یہ ٹیم ۷۲؍ گھنٹوں میں رپورٹ وزیر اعظم صاحب کو پیش کرے گی۔ رپورٹ تو جو بھی ہو گی وہ وزیر اعظم کے سامنے آ جائے گی ۔ پاکستان کے اداروں کا جو حال ہے جس طرح کرپشن ان اداروں میں سرت کر گئی ہے وہ بہت ہی افسوس ناک ہے ۔ گو کہ موجودہ دور حکومت میں ریلوے میں کچھ اچھے کا م بھی ہوئے ہیں۔ ٹرینیں وقت پر چل رہی ہیں۔ جبکہ اس سے قبل پیپلز پارٹی کے اتحادی وزیر بلور صاحب کے دور میں ریلوے تباہی کے دھانے پر کھڑی تھی۔ گو کہ پاکستان کے سارے کے سارے ادارے کرپشن اور ناہل کی زد میں ہیں جہاں تک ریلوے کے پرانے دور کے حالات ایک نجی ٹی وی ۹۲پرٹی وی شو میں ٹی اینکر اور سینئر صحافی کلاسرا صاحب، سابقہ سفیرہلالی صاحب اور جماعت اسلامی اور ریلوے یونین کے راہنما سلمان بٹ صاحب نے بیان کئے ہیں۔جنہیں سن کر عوام کو یقیناً حیرت ہوئی ہو گی کہ پاکستان کے اداروں کی ناہلی کہاں تک پہنچی ہوئی ہے اور کس طرح قوم کے اثاثوں کے ساتھ ظلم کیا جارہا ہے۔تبصرے میں یہ بات سامنے آئی کہ جب چین سے انجن خریدنے کی پلاننگ کی گئی تو تیس دن کے لیے پاکستانی وفد جو ریلوے کے ایکسپرٹ پر مشتمل تھا مطالعاتی دوراے پر چین گیا تھا۔اُس نے وہاں کیا تحقیق کی اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ٹی وی اینکرز نے کہا کہ جو ریلوے انجن امپورٹ کئے تھے وہ نا قص تھے اور کچھ ہی دنوں میں ہی خراب ہو گئے۔ وہ سب کے سب ریلوے کے گیرایج میں پہنچانے پڑے تھے۔چین کی کمپنی کو شکایت کی گئی وہ ان خراب انجنوں کوریپیرنگ کے لیے پاکستان آئے بھی مگر وہ درست نہ ہو سکے اور ریلوے کوکافی نقصان پہنچا۔ اسی طرح چین سے جو ریل کے ڈبے خریدے گئے تھے ان میں مسافروں کے داخلے کے دروازے پاکستان میں موجود پلیٹ فارموں کی اونچائی سے کم تھے۔ لہیٰذا ریلوے کو اپنے پلیٹ فارموں کی اونچائی ان ڈسبوں کے مطابق کرنی پڑی۔کیا اس پر ریلوے کے اخراجات نہیں آئے ہونگے؟اس تبصرے میں کہا گیا کہ کوریا نے اپنے ریلوے کو الیکٹرونک کر دیا تھا اس کے پاس ناکارہ ریلوے انجن بچ گئے تھے۔ پاکستان نے ان ناکارہ انجنوں کواین ایل سی کے لیے خریدا تھا این ایل سی انہیں استعمال میں نہ لا سکی۔ نہ ہی کسی کام میں آرہے تھے تو پاکستان ریلوے کو ذبردستی کرایہ پر دیے گئے۔ مزید تبصرے میں یہ بات بھی آئی کہ امریکہ سے جو انجن خریدے گئے جو واقعی ہی پائیدار ریلوے انجن تھے مگر ان امریکی ریلوے انجن کی اونچائی زیادہ تھی جو ہماری کوئٹہ جانے والی سرنگ سے نہیں گزر سکتے تھے لہیٰذا پاکستان ریلوے نے سرنگ کی اونچائی کو امریکن انجن کے مطابق کیا گیا تب جا کر ریل کوئٹہ پہنچی۔ اس طرح کلاسرا صاحب نے سابقہ امریکن سفیر عابدہ حسین صاحبہ کی کتاب کے ایک چیپٹر کابھی ذکر کیا جس میں امریکہ کی بوئنگ کمپنی سے ایک ڈیلنگ کا ذکر ہے امریکہ نے معاہدے کے مطابق ہوائی جہاز سپلائی نہیں کئے تو پاکستان نے امریکی بوئنگ کمپنی سے رقم کی واپسی کا مطالبہ کیا تو امریکی بوئنگ کمپنی نے کہا کہ ٹھیک ہے ہم آپ کو پیسے واپس کرتے ہیں لیکن اس میں تین بلین روپے کاٹ لیں گے وہ
آپکے اداروں نے ہم سے کمیشن کے طورپر لیے تھے۔یہ حال ہے پاکستان کے اداروں کا۔ ریلوے کو ہی لیجئے اس کے پلوں کی معاد سو سال سے زیادہ کی ہو گئی ہے۔اسطرح ریلوے لائینیں بھی پرانی ہو چکی ہیں۔ جو لائنیں انگریز ڈال کر گیا تھا ان میں ایک میل کا بھی اضافہ پاکستانی حکومتوں نے نہیں کیا۔ بل کہ ریل کے کئی روٹ منافع بخش نہ ہونے کی وجہ سے بند کر دیے۔ڈ کٹیٹرضیاء کے دور میں سیٹلائٹ کا نظام ریلوے کے لیے خریدا گیا تھا تاکہ ٹرینیں وقت پر چلیں اور وقت پر منزل پرپہنچیں مگر اس کو ناکارہ بنا کر رکھ دیا گیا۔ہماری حکومت کو چاہیے کہ وہ ریلوے کے پرانے پلوں کی جگہ نئے پل تعمیر کریں۔ ریلوے لینیں بھی نئی ڈالیں تاکہ گوجرانوالہ ٹرین حادثہ جیسے حادثات سے نجات مل سکے اور شہری امن اورحفاظت سے سفر کر سکیں جو ان کا آئینی حق ہے۔