یہ نہایت حیران کن صورتحال ہے کہ متحدہ پر بھارت سے مدد حاصل کرنے کے گزشتہ دو دہایوں سے الزامات لگ رہے ہیں جس کی ابتداء 1992ء کے کراچی اپریشن سے ہوئی تھی جب متحدہ کے دفاتر سے بھارتی ساختہ اسلحہ کے علاوہ مبینہ طور پر جناح پور کا نقشہ بھی برآمد ہوا تھا جبکہ پیپلزپارٹی کے دور میں جنرل (ر) نصیراللہ بابر کی کی نگرانی میں ہونیوالے اپریشن کے دوران بھی حکومتی ایجنسیوں کی جانب سے متحدہ کیخلاف ایسے شواہد سامنے لائے گئے اور ان حالات میں ہی متحدہ کے قائد الطاف حسین جلاوطنی اختیار کرنے پر مجبور ہوئے تھے جنہوں نے 2002ء میں باقاعدہ برطانوی شہریت حاصل کرلی۔ انکے مخالف ان کے چند حالیہ بیانات سے بھی بھارت کے ساتھ متحدہ کے روابط کا تاثر لے سکتے ہیں جبکہ دو ماہ قبل ایس ایس پی راؤ انوار نے باقاعدہ پریس کانفرنس کرکے متحدہ کے گرفتار کارکنوں کے بیانات کی بنیاد پر بھارت سے رابطوں کے الزامات لگائے۔ اسی طرح سانحہ بلدیہ ٹاؤن کی جے آئی ٹی رپورٹ میں بھی متحدہ پر سنگین نوعیت کے الزامات لگائے گئے تھے۔ اور اب مشہور برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے گذشتہ بدھ کے روز جاری کی گئی اپنی خصوصی رپورٹ میں الزام عائدکیا ہے کہ پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت ایم کیو ایم متحدہ کو بھارتی حکومت سے مالی مدد ملتی رہی ہے۔ اس سلسلہ میں رپورٹ میں مقتدر پاکستانی ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ متحدہ کے دو سینئر رہنماؤں نے برطانوی حکام کے روبرو بھارت سے مالی معاونت حاصل ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ بی بی سی کے مطابق برطانوی حکام پہلے ہی ایم کیو ایم متحدہ کیخلاف منی لانڈرنگ کے الزامات کے تحت تحقیقات کررہے ہیں۔ بی بی سی کے بقول متحدہ کے رہنماؤں نے یہ انکشافات باضابطہ ریکارڈ کئے گئے انٹرویوز میں کئے جو انہوں نے برطانوی حکام کو دیئے تھے۔ رپورٹ کے مطابق ایک اعلیٰ پاکستانی اہلکار نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ایم کیو ایم کے سینکڑوں کارکنوں نے گزشتہ ایک دہائی کے دوران بھارت کے شمالی اور مشرقی علاقوں میں قائم کیمپوں سے گولہ بارود اور ہتھیاروں کے استعمال کی تربیت حاصل کی تھی۔ متذکرہ اہلکار کے مطابق 2005۔2006ء سے قبل ایم کیو ایم کے چند درمیانے درجے کے ارکان کو تربیت دی گئی جبکہ حالیہ برسوں میں متحدہ کے مزید جونیئر ارکان کو تربیت دی گئی ہے۔ برطانوی حکام نے ایم کیو ایم کیخلاف 2010ء میں اس وقت تحقیقات شروع کی تھیں جب اس پارٹی نے ایک سینئر رہنماء ڈاکٹر عمران فاروق کو شمالی لندن میں انکی رہائش گاہ کے قریب چاقو سے وار کرکے قتل کردیا گیا تھا۔ اس کیس کی تحقیقات کے دوران پولیس کو لندن میں متحدہ کے دفتر اور اسکے قائد الطاف حسین کے گھر سے پانچ لاکھ پاؤنڈ کی رقم ملی جس کے بعد منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع کی گئی۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ کے مطابق تحقیقات کے دوران برطانوی حکام کو ایم کیو ایم کی ایک عمارت سے ہتھیاروں کی فہرست بھی ملی جس میں مارٹر گولوں اور بموں کا ذکر تھا اور انکی قیمت بھی درج تھی۔ اگرچہ بی بی سی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان الزامات کی تصدیق یا تردید کیلئے بی بی سی کے نمائندے نے بھارتی ہائی کمشنر اور متحدہ کے قائدین سے کئی سوالات پوچھے مگر انکی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا جس کے بعد یہ رپورٹ جاری کی گئی ہے تاہم متحدہ کے عہدیداروں نے دوٹوک الفاظ میں بی بی سی کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے متحدہ کیخلاف جاری میڈیا ٹرائل کا حصہ قرار دیا ہے۔ اگرچہ متحدہ پر پاکستانی حکام کے ذرائع سے پہلے بھی اس نوعیت کے الزام لگتے رہے ہیں جن پر متحدہ کی جانب سے فوری طور پر تردید بھی پیش کی جاتی رہی ہیں۔ تاہم اس بار یہ الزامات ایک مستند برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی جانب سے اسکی تحقیقاتی رپورٹ میں عائد کئے گئے ہیں اس لئے جہاں پاکستان کی سلامتی کے حوالے سے یہ صورتحال پاکستانی حکام کیلئے لمحہ فکریہ ہے‘ وہیں یہ رپورٹ متحدہ کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے بھی پریشان کن ہو سکتی ہے ۔
اس لئے اگر متحدہ کی قیادت اگر سمجھتی ہے کہ بی بی سی نے کسی کے اشارے پر اس کیخلاف یہ رپورٹ جاری کی ہے جس کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے تو اسے فوری طور پر دادرسی کیلئے مجاز برطانوی فورم سے رجوع کرنا چاہیے اور بی بی سی کیخلاف برطانوی قوانین کے تحت ہتک عزت کا دعویٰ کرکے اپنی سرخروئی کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اگر متحدہ کی جانب سے بی بی سی کیخلاف قانونی چارہ جوئی سے گریز کیا جاتا ہے تو اس سے بادی النظر میں متحدہ پر بی بی سی کی رپورٹ میں عائد کئے گئے الزامات درست ثابت ہونگے جس کا متحدہ کو بطور پارٹی پاکستانی قوانین کے تحت بھی خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ اسی طرح ایک دشمن ملک کی ایجنسی سے مالی معاونت اور تربیت حاصل کرنے کا الزام اتنا سنگین ہے کہ اس پر متحدہ کیخلاف ملک سے غداری کا کیس بن سکتا ہے۔ یہ سنگین الزامات خود متحدہ کی قیادت کیلئے بھی یہ لمحہ فکریہ ہیں کہ کہیں بھارت نے اپنے مذموم مقاصد کے تحت اسکے چھوٹی سطح کے کارکنوں کو پاکستان میں انتشار پھیلانے کیلئے استعمال تو نہیں کررہا ہے جن کی کارروائیوں سے ملک کی سلامتی کے ساتھ ساتھ متحدہ کی اپنی ساکھ تباہ ہو سکتی ہے، اگر ایسا ہے تو متحدہ کی قیادت کو خود اپنی پارٹی میں تطہیر کا عمل شروع کرکے پارٹی کو ایسے گندے عناصر سے پاک کر دینا چاہیے اور ان کیخلاف قانونی کارروائی کیلئے متعلقہ قانونی اور آئینی اداروں کی خود معاونت کرنی چاہیے تاکہ انہیں ملنے والی سزائیں ملک کی سلامتی سے کھیلنے کی سوچ رکھنے والوں کیلئے باعث عبرت ہو سکیں۔