پنجاب پاکستان کا رقبے کے لحاظ سے دوسرا بڑا اور آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے‘ محتاط اندازے کے مطابق اس وقت پنجاب کی آبادی تقریبا 9 کروڑ ہے‘ پاکستان کا صوبہ پنجاب اپنی انفرادیت کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے‘ سیاسی لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے (آبادی کے لحاظ سے) پر حکومت کا سب سے زیادہ ’’شرف‘‘ پاکستان مسلم لیگ (نواز) کو حاصل ہے اور اس وقت بھی صوبے میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے اور میاں محمد شہباز شریف صوبے کے وزیر اعلیٰ ہیں۔
قارئین کرام! وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف بلا شبہ بہترین انتظامی صلاحیتوں کے مالک ہیں لیکن ستم ظریفی یہ کہ ان کی یہ ’’انتظامی صلاحیتیں‘‘ اکثر و بیشتر ذاتی ‘ سیاسی‘ انفرادی مفاد ات سے منسلک نظر آتی ہیں ‘ 2013 ء کے عام انتخابات سے قبل جوش خطابت میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کو تین سال میں ختم کرنے کے وعدے تو دور کی بات شہباز شریف اس وقت لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے کوئی بات سننا ہ نہیں پسند کرتے‘ وزیر اعلیٰ پنجاب اس وقت پورا زور صوبے میں متنازعہ میٹرو بس منصوبے کا جال بچھانے میں صرف کرتے نظر آ رہے ہیں‘ لاہور کے بعد راولپنڈی اور پھر فیصل آباد اور ملتان کو میٹرو بس جیسے ’’عظیم الشان‘‘ منصوبے سے فیضیاب کروانے کی قسم وزیر اعلیٰ پنجاب پہلے ہی کھا چکے ہیں اور بقول ان کے وہ لاہور کو پیرس بنا کر دم لیں گے‘ اسلئے اب ان منصوبوں کے نا مکمل ہونے کا سوال پیدا ہوتا نظر نہیں آ رہا‘ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ میٹرو بس منصوبہ بہت افادیت کا حامل ہے لیکن ایسے حالات میں قطعی نہیں جب ملک میں بجلی‘ گیس‘ پانی‘ بے روزگاری اور مہنگائی جیسے شدید بحران موجود ہوں۔
دنیا کا کوئی ملک بھی کرپشن کی لعنت سے مکمل طور پر پاک نہیں لیکن پاکستان میں ایسے بیشتر منصوبے کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں‘ مبینہ طور راولپنڈی میٹرو بس منصوبے میں صرف ایک سابق ایم این اے جن کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے انہوں نے 6 ارب روپے منصوبے کیلئے مختص فنڈ میں سے ایسے غائب کئے جیسے دودھ میں سے مکھی نکالی جاتی ہے اور اس بارے صوبائی حکومت نہ کوئی بات سننے کو تیار ہے اور نہ ہی کوئی ایکشن لینے کی حامی بھرتی نظر آتی‘ قارئین کرام ایک اور دلچسپ بات میں یہاں کرنا ضروری سمجھوں گا کہ رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کا کل بجٹ 44 ارب روپے جبکہ راولپنڈی شہر میں صرف ایک میٹرو بس منصوبہ 60 ارب روپے میں مکمل ہوا اور وہ پورے 60 ارب روپے کہاں گئے یہ ابھی تک ایک سوالیہ نشان ہے۔ایسے حالات میں جب ملک بجلی کے شدید بحران سے گزر رہا ہے کیا یہ ضروری نہیں کہ میٹرو بس جیسے منصوبوں سے ہاتھ کھینچتے ہوئے یہی فنڈز بجلی کی پیداواری صلاحیتوں کو بڑھانے پر خرچ کئے جائیں؟ پاکستانی عوام کی ایک بڑی تعداد اس بات کی حامی ہے کہ میٹرو بس منصوبوں کی بجائے یہی فنڈز بجلی ‘ گیس‘ بے روزگاری کے خاتمے اور ان جیسے ہی دوسرے مسائل کے حل پر خرچ کئے جائیں لیکن پھر بھی ملک کے چار بڑے شہروں میں میٹرو بس منصوبے کی قسم شاید اپنے پیچھے یہی محرک رکھتی ہے کہ اس میں موصوف وزیر اعلیٰ کا کوئی ذاتی مفاد چھپا ہوا ہے اور یہی ذاتی مفاد دیگرمخالف سیاسی قوتوں کی جانب سے ہائی لائٹ بھی کیا جاتا رہا ہے۔۔۔۔
مون سون کی آمد آمد ہے اور ماضی کی طرح اس بار بھی ملک کے اکثر علاقوں میں بارشوں کے سبب سیلاب جیسی آفات کے 100 فیصد خدشات موجود ہیں جس کا ٹریلر راولپنڈی میں ایک ہی دن میں ہونے والی بارش کے باعث نالہ لئی کے پنڈی کی عوام پر پِل پڑنے کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے‘ اگر اسی طرح کی بارش لگاتار کچھ دن ہوتی رہی تو پھر تو پنڈی کی عوام کا خدا حافظ ہے‘ ہر سال ایک ہی طرح کے مسائل کا سامنا کرنے کے بعد ایک ہی طرح کے بیانات حکومت کی جانب سے سننے کو ملتے ہیں مگر ان مسائل کے حل کیلئے عملدرآمد ککھ نہیں ہوتا اور پاکستان کی ماشاء اللہ سے ’’غیرت مند‘‘ عوام بھی ایک دو دن کے بعد ان مسائل کو بھول جاتی ہے کہ چلو کوئی بات نہیں‘ وزیر اعلیٰ صاحب ایک طرف تو لاہور کو پیرس بنانے پر تُلے ہوئے ہیں جبکہ ان کا وہی لاہور پیرس سے سفر کرتا ہوا وینس تک جا پہنچا ہے اور ایسے لگتا ہے کہ عوام نے پانی کے بیچ و بیچ گھر بنائے ہوئے ہیں بس فرق یہ کہ وینس کا پانی ’’ترقی‘‘ یافتہ اور پاکستان کے ان شہروں کا پانی ’’ترقی پذیر۔۔کثافت یافتہ‘‘ ہے اورپاکستان کے ان ’’پیرسوں‘‘ ’’نیو یارکوں‘‘ ’’مانچسٹروں‘‘ اور ’’لندنوں‘‘ میں بارش کے بعد جگہ جگہ کھڑا ہوا پانی کسی دریا کا منظر پیش کرتا ہے اور ایسی ہی کچھ صورتحال راولپنڈی میں بھی دیکھی جا سکتی ہے جہاں ’’عظیم الشان‘‘ میٹرو بس منصوبے کے 70 فیصد سٹیشن بھی ایک ہی پری مون سون بارش سے پانی میں مکمل طور پر ڈوبے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
یقینی طور پر اس سال بھی ماضی کی طرح مون سون شروع ہونے پر ملک کے بیشتر علاقے پانی میں ڈوب جائیں گے ‘عوام ایک بار پھر اپنے ’’کرموں‘‘ کی سزا بھگتتے نظر آ ئیں گے اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نصف درجن سے زائد کیمرہ مینز کے ساتھ لانگ بوٹ پہنے آفت زدہ علاقوں میں فوٹو شوٹ کرواتے ہوئے ’’جوش خطابت‘‘ سے ’’غیرت مند‘‘ قوم کے ساتھ ’’کھلواڑ‘‘ کرتے ہوئے نظر آئیں گے (ویسے میرے ذاتی خیال میں آج کل سیلفیوں کا دور دورہ ہے اگر شہباز شریف ایک عدد سیلفی بھی لے لیں تو کیا خوب ہو جائے) اور مجھے قوی امید ہے کہ یہ سلسلہ اسی طرح اگلے برسوں میں بھی چلتا رہے گا کیونکہ ڈیم ہم نے بنانے نہیں‘ بجلی ہم نے دینی نہیں‘ بے روزگاری اور مہنگائی ختم کرنے کا امکان صرف امکان ہی رہنا ہے اور بس غریب عوام کو ’’انٹرنیشنل سٹینڈرڈ‘‘ کی سواری میٹرو بس میں سوار کروانا ہے‘ بقول شہباز شریف (ایک انٹرنیشنل جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے) کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ٹرانسپورٹ کا ہے ۔۔۔ آہ قربان جاؤں وزیر اعلیٰ کے اس بیان پر ۔۔ جب پاکستان کا سب سے ’’بڑا‘‘ مسئلہ ٹرانسپورٹ ہوگی تو ظاہر ہے پاکستان کے شہر وینس تو بنیں گے ہی۔۔۔۔ ویسے بھی پاکستانی قوم کیلئے ’’میٹرو بس‘‘ ہی سب کچھ ہے‘ یہی غریب کی روٹی ‘ کپڑا‘ مکان ہے‘ یہی بجلی‘ پانی‘ گیس ہے اوریہی روز گار ہے اور تو اور پاکستان کا آج اور اور کل بھی یہی میٹرو ہے۔۔۔ آخر میں اپنے کالم کے اس (حصہ اول) کا اختتام حکمرانوں کے نام اپنے اس شعر کے ساتھ کروں گا کہ
ظلم و ستم تمہارے کہاں تک سہے گا وہ
تم کو بہا لے جائیں گے آنسو غریب کے(حصہ اول)۔