دامادِ مصطفیٰ ﷺحیدرِ کرار ،ابو الحسن ، ابو تراب،ید اللہ ، ابو الحسین ، نفس اللہ ، اسد اللہ،یعسوب الدین والمسلمین،اخوہ رسول ،زوج البتول،سیف اللہ المسلول ،سید العرب و العجم،کاشف الکرب،ذولقرنین،والقاضی دین الرسول ،الشاھد خلیفہ چہارم امیر المومنین سیدنا حضرت مولا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ شیرِ خدا کی فضیلت یہ ہے کہ آپؓ کی ولادت با سعادت بروز جمعتہ المبارک تیرہ رجب سن تیس عام الفیل کو خانہ کعبہ کے اندر ہوئی ۔ اس واقعہ کو شاہ عبدالحق دہلوی ؒ ، شیخ سادی ؒ ،امام عبد الرحمٰن جامیؒ ، شاہ ولی اللہؒ ، غلام رسول رضوی ؒ ، سید فدا حسین شاہؒ سمیت متعدد علماء اکرام نے قلم بند کیا ہے۔ خانہ کعبہ کے اندر حضرت مولا علیؓ بن ابی طالب کی ولادت اللہ پاک کی جانب سے آپؓ کی عظمت و جلالت اور منزلت کا خصوصی اہتمام ہے کہ اللہ پاک نے آپؓ کے وجود پرنور کے دنیا میں ظہور کیلئے اپنے پاک گھر خانہ کعبہ کا انتخاب کیاقبل اس کے نہ ایسا ہوا اور نہ رہتی دنیا تک ایسا ہوگا ۔
آپؓ کی والدہ ماجدہ جناب فاطمہ بنتِ اسد فرماتی ہیں کہ جب مجھے دردِ زہ شروع ہوئی تو میں خانہ کعبہ کا طواف کر رہی تھی کہ اچانک کعبہ کی دیوار شک ہو گئی اور میں اندر چلی گئی اندر مجھے جنتی پھل اور میوے غیب سے تین روز تک ملتے رہے پھر تین روز بعد جب باہر نکلنے کا ارادہ کیا تو وہی سے دیوار پھر شک ہوئی اور میں خانہ کعبہ سے باہر نکلی تو میری گود میں ایک معصوم شہزادہ نورانی چہرے والا طفل تھا ۔روایت ہے آپ فرماتی ہیں پھر ہاتفِ غیبی سے ایک ندا آئی کہ ’’ اے فاطمہ ! اس بچے کا نام علی رکھنا اور اللہ علی الا علیٰ ہے اس کا نام میرے نام سے نکلا ہے (یاد رہے اللہ کے ننانوے ناموں میں ایک نام علی بھی ہے ) ۔
فاطمہ بنتِ اسد مزید فرماتی ہیں کہ جب میں اس ننھے شہزادے کو گود میں لے کر واپس آرہی تھی تو بڑی پریشانی کے عالم میں تھی کیونکہ بچے کی ولادت کو بہت دیر گزر چکی تھی لیکن ننھا شہزادہ نہ آنکھیں کھولتا تھا اور نہ کوئی بچوں والی حرکت کرتا تھا بس عجب بے چینی کے عالم میں تھا میں گھبرا گئی کہ اچانک سامنے سے رسولِ پاک ﷺ تشریف لاتے دکھائی دیے آ پ ﷺ میرے قریب آئے اور میری پریشانی کا سبب پوچھا تو میں نے سار ا قصہ سنا دیا پھر آپ ﷺ نے چہرہ مبارک ننھے طفل کی جانب کیا اپنی پاک زبان مبارک کو بچے کے منہ میں ڈالا اور معصوم علیؓ زبان مبارک کا لعاب دہن چوستے چوستے سکون میں آگئے یوں میرے لختِ جگر نے فوراً آنکھیں کھول دیں اور سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ کا دیدار کیا ساتھ میں کھلکھلا کر ہنسنے اور مسکراکر ہاتھ پاؤں چلانے لگے۔ حضرت محمد ﷺ کے چہرے مبارک پر بھی مسکراہٹ سج گئی ۔آپؓ کابچپن اور جوانی آغوشِ رسالت ﷺ میں کروٹیں لیتے گزری۔
قبا سے روانگی کے بعد جب حضرت محمد ﷺ اپنی اُونٹنی قصویٰ پر تشریف فرما کر مدینہ میں داخل ہوئے تو وہاں بھی مسجد تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا مسجد مدینہ کا قبلہ بھی مسجد قبا کی سمت جیسا ہی تھا کیونکہ ابھی یہ احکام نہیں آئے تھے کہ قبلے کا رخ کعبہ کی جانب موڑ دیا جائے ۔یہاں پہنچ کر آپ ﷺ نے انصار اور مہاجرین کو بھائی بھائی بنایا لیکن حضرت علیؓ شیرِ خدا کو کِسی کا بھائی منتخب نہیں کیا گیا ۔ مولا علیؓ متجسس کھڑے سارا ماجرہ دیکھتے رہے پھر آخر میں حضرت محمد ﷺ نے آپؓ کی جانب مسکرا کر دیکھا اور فرمایا ’’اے علی میرے چچا ابی طالب کے بیٹے آج میں آپ کے ساتھ عہدِ اخوت باندھتا ہوں آج سے تم میرے بھائی اور میں تمہارا بھائی ۔ ہم ایسا کریں گے اپنے ذریعہ معاش کیلئے ایک دن تم کام پر جایا کرنا اور ایک دن میں جایا کرونگا ‘‘ لیکن حضرت علیؓ نے جواب میں کہا یا رسول اللہ ﷺ آپ پر میری جان قربان آپ کو مسجد مدینہ کے قریب رہنے کی زیادہ ضرورت ہے آپ ﷺ یہاں رہیں میں اکیلا ہی کام پر جایا کرونگا اور پھر آپؓ نے جو کام مدینہ میں انجام دیا وہ آپؓ کے خاندانی وقار اور اعلیٰ طبقے کی حیثیت کے مطابق بالکل بھی نہ تھا ۔حضرت علیؓ صبح سے شام تک دور دراز اُونچے نیچے علاقوں سے پانی کے ڈول بھر بھر کر لاتے بیچتے اور یوں سارے دن میں صرف سولہ سے سترہ ڈول ہی لا پاتے اور جس کے عوض آپؓ کو مزدوری میں صرف سولہ دانے کھجوروں کے ملتے اور آپؓ آٹھ دانے کھجوروں کے آپ ﷺ کو دے دیتے یوں آپ ﷺ اور حضرت علیؓ نے ایک عرصہ تک انہی کھجوروں پر گزارا کیا ۔آپؓ کی شان و عظمت پر جس قدر لکھا ، کہا اور سنا جائے کم ہے تشنگی کبھی ختم نہیں ہوتی ۔آپؓ کے اقوال دورِ حاضر میں تقریبا ہر شخص کے زیرِ زبان ہیں ۔
فاتح خیبر ‘سیدنا علی المرتضیٰؓ بچپن میں ہی حضور پاک ﷺ پر ایمان لے آئے اور ایمان کی پختگی کا یہ عالم تھا کہ آپؓ بزرگوں کے بزرگ فرماتے ہیں ہجرت کی رات جب حضور پاک ﷺ نے مجھے اپنے بستر پرسونے کا حکم دیا اور فرمایا کہ صبح یہ کچھ امانتیں جو میرے پاس ہیں اہلِ مکہ کے حوالے کر کے مدینہ چلے آنا تو مجھے اُس رات پختہ یقین تھا کہ آج رات مجھے کِسی صورت موت نہیں آ سکتی کیونکہ صبح تک جینے کی بشارت میرے نبی پاک ﷺ نے جو دے دی ہے اس رات میں چاروں جانب کفارِ مکہ کے نرخے میں ہونے کے باوجود پرسکون نیند سویا ۔دربارِ رسالت ﷺ سے آپ کو ’’ باب العلم ‘‘ کا خطاب عطا ہوا اور رسول اکرم ﷺ نے آپؓ کو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا قرار دیا ۔تمام عمردین کی سربلندی ، عدل ومساوات کا قیام اور انسانی اقدارکا تحفظ آپؓ کی زندگی کا نصب العین رہا۔امام الانبیا حضرت محمد ﷺ کا فرمانِ عالی شان خوشبودار ہے کہ ’’ میں علم کا شہر ہوں اور علیؓ اس کا دروازہ پس جو علم حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ دروازے کی جانب سے آئے ‘‘ ۔
آپؓ ہر جنگ میں کفار کے سامنے پہاڑ بن کر کھڑے ہو گئے اور وہ جاں نثاری دکھائی کے مخالفین کو منہ کی کھانی پڑی آپؓ کی بہادری کی مثالیں تمام جزیرۃ العرب میں مشہور تھیں۔آپؓ کی شانِ پاک میں چند احادیثِ مبارک ﷺ کا مخفف بیان کیا جا رہا ہے۔ حضرت ابنِ ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ’’جس شخص نے علیؓ کو آزار پہنچایا اُس نے مجھ محمدﷺ کو آزار پہنچایا ۔حضرت ابو ہریرہؓ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ اگر تم آدم کا علم، نوع کا عزم، ابراہیم کی خصلت ، موسیٰ کی مناجات ، عیسیٰ کا زہد اور محمد ﷺ کی ہدایت ایک ذات کے اندر جمع دیکھنا چاہتے ہو تو اس شخص کو دیکھو جو تمہاری جانب آرہا ہے لوگوں نے گردنیں اُٹھا ئیں تو دیکھا کہ علیؓ ابنِ طالب تشریف لا رہے تھے ۔حضرت ابنِ مسعودؓ فرماتے ہیں کہ نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ علیؓ کے چہرے کی جانب نظر کرنا عبادت ہے ‘‘۔حجۃ الوداع کے بعد آپ ﷺ جب مدینے کی جانب واپس پلٹے تو آپ ﷺ نے غدیر کے مقام پر حضرت علیؓ کا ہاتھ تھاما اور فرمایا ’’ جِس کا میں مولا ہوں ، علیؓ اُس کے مولا ہیں ۔ خداوند دوست رکھ اُسے جو علیؓ کو دوست رکھتا ہے اور دشمن رکھ اُسے جو علیؓ کو دشمن رکھے ‘‘۔
سنہ ہجری امامِ شجاعت و ہیبت سیّدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے مشورے سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جاری کیا جو آج تک جاری ہے ۔ابو الاثر حفیظ جالندھری شاہنامہ اسلام میں ’’بنو ہاشم میں تبلیغ ، حضرت علیؓ کا ایمان ‘‘ کے عنوان سے خوب صورت انداز میں لکھتے ہیں ۔
بتاؤ آپ میں سے کون میرا ساتھ دیتا ہے ۔۔۔بتاؤ کون اپنا ہاتھ میرے ہاتھ دیتا ہے
یہ سن کر منہ لگے اک دوسرے کا سب کے سب تکنے۔۔۔لگا تھا ابو لہب اُس وقت پھر کچھ ناروا بکنے
کہ طفل سیز دہ سالہ علی ابنِ ابی طالبؓ ۔۔۔وہی شیرِ خدا جو ساری دُنیا پر رہا غالب
اُٹھا اور اُٹھ کر بولا ‘ میں اگر چہ عمر میں کم ہوں ۔۔۔مری آنکھوں میں ہے آشوب گویا چشمِ پر نم ہوں
بھری محفل میں لیکن آج یہ اعلان کرتا ہوں ۔۔۔کہ میں سچے نبی پر جان و دِل قربان کرتا ہوں
میں اپنی زندگی بھر ساتھ دوں گا یا رسول اللہﷺ۔۔۔یقیں رکھیے کہ قدموں میں رہوں گا یا رسول اللہ ﷺ
جھکے شیرِ خدا جب بات اپنی بر ملا کہہ کر ۔۔۔رسول اللہ ﷺ نے سر پر ہاتھ رکھا مرحبا کہہ کر
بڑے بوڑھے جو چپ تھے کھلکھلا کر ہنس پڑے سارے ۔۔۔انہیں معلوم کیا تھا جا نتے کیا تھے وہ بیچارے
کہ یہ لڑکا وہ جس پر ہنس رہے ہیں اس حقارت سے۔۔۔پہاڑوں کے جگر تھرا اُٹھیں کے اس کی ہیبت سے
بنی ہاشم ہنسی میں بات اُڑا کر ہوگئے راہی ۔۔۔ علیؓ کو ہوگئی حاصل مگر دارین کی شاہی
آپؓ کو9رمضان 40ھ کو صبح فجر کی نماز کے وقت عین حالتِ نماز میں ابنِ ملجم نے زہر میں بجھی ہوئی تلوار سے زخمی کیا اور جب آپؓ کا قاتل گرفتار کر کے آپؓ کے سامنے لایا گیا تو قاتل کا زرد رنگ اور بجھا ہوا چہرہ دیکھ کر آپؓ کو اس ظالم پر بھی رحم آگیا اور حسنینؓ سے فرمایا کہ اس کے ساتھ کوئی سختی نہ برتنا یہ تمہارا قیدی ہے جو خود کھاؤاسے بھی کھلانا کہ دینِ اسلام ہمیں نرمی اور عفو و در گزر کا درس دیتا ہے۔ اگر میں اللہ کی رضا سے تندست ہو گیا تو میں جانوں اور یہ ، اور اگر میں اس فانی دنیا میں نہ رہا اور تم نے اس سے انتقام لینا چاہا تو ایک ہی ضرب لگانا کہ اس نے بھی مجھے ایک ہی ضرب لگائی ہے ۔دو روز تک آپ بستر پر انتہائی کرب اور تکلیف کی حالت میں رہے اور 21رمضان کو نمازِ فجر کے ہی وقت آپؓ نے جامِ شہادت نوش فرمایا’’پیدا ہوئے اللہ کے گھر میں پائی شہادت مسجد میں‘‘۔ حضرت حسنینؓ نے تجہیزو تکفین کی اور پشتِ کوفہ پر نجف کی سر زمین میں آپؓ کا مزار شریف بنایا گیا ۔ آپ کی مدت خلافت 4سال9ماہ 23دن ہے ۔