اندھـــی تقلید کا واویلا کرنیوالت ناعاقبت اندیشوں نے کبھی تحریک منھاج القران کی فکری احساس کو پڑھا ھو تو سوال کرنیوالوں کو لعنت ملامت کی بجائے وہ خود اپنی گھٹیا سوچ کا ماتم کریں ، موجودہ قیادت جو آنکھیں بند کرکے کارکنان کو انکی دونمبری پر بھی امین کہنے کا درس دے رھی ھے وہ قرآن اور پھر اسی منھاج القرآن کےبنیادی فکر و فلسفے کا کیسے انکارکرسکتی ھے ؟
کہا گیا کہ اِسلام نے اپنی پہلی وحی کے دِن سے ہی بنی نوعِ اِنسان کو آفاق و انفس کی گہرائیوں میں غوطہ زن ہونے کا حکم دیا۔ یہ اِسلام ہی کی تعلیمات کا فیض تھا کہ دُنیا کی اُجڈ ترین قوم ’عرب‘ أحکامِ اِسلام کی تعمیل کے بعد محض ایک ہی صدی کے اندر دُنیا بھر کی اِمامت و پیشوائی کی حق دار ٹھہری اور دیکھتے ہی دیکھتے اُس نے دُنیا کو یونانی فلسفے کی لاحاصل مُوشگافیوں سے آزاد کراتے ہوئے فطری علوم کو تجربے (کی بنیاد عطا کی ۔آج سے کم و بیش ڈیڑھ ہزار سال پہلے بنی نوعِ اِنسان کے ذِہن میں علم کے موجودہ عروج کا ادنیٰ سا تصوّر بھی موجود نہ تھا۔ اِنسان یوں جہلِ مرکب میں غرق تھا کہ اپنی جہالت کو عظمت کی علامت گردانتے ہوئے اُس پر نازاں ہوتا تھا۔ اِسلام کی آفاقی تعلیمات نے اُس دَورِ جاہلیت کا پردہ چاک کرتے ہوئے ہزارہا ایسے فطری ضوابط کو بے نقاب کیا جن کی صداقت پر دَورِ حاضر کا سائنسی ذِہن بھی محوِ حیرت ہے۔قرآنی تعلیمات اور سائنسی علوم کی ترغیب اِسلام کا فلسفۂ زندگی دیگر اَدیانِ باطلہ کی طرح ہرگز یہ نہیں کہ چند مفروضوں پر عقائد و نظریات کی بنیادیں اُٹھا کر اِنسان کی ذِہنی صلاحیتوں کو بوجھل اور بے معنی فلسفیانہ مُوشگافیوں کی نذر کر دیا جائے اور حقیقت کی تلاش کے سفر میں اِنسان کو اِس طرح ذِہنی اُلجھاؤ میں گرفتار کر دیا جائے کہ اُس کی تمام تر تخلیقی صلاحیتیں مفلوج ہو کر رہ جائیں۔ اِسلام نے کسی مرحلہ پر بھی اِنتہاء پسندی کی حوصلہ اَفزائی نہیں کی، بلکہ اِس کے برعکس اِسلام کی فطری تعلیمات نے ہمیشہ ذہنِ اِنسانی میں شعور و آگہی کے اَن گنت چراغ روشن کر کے اُسے خیر و شر میں تمیز کا ہنر بخشا ہے۔ اِسلام نے اپنے پیروکاروں کو سائنسی علوم کے حصول کا درس دیتے ہوئے ہمیشہ اِعتدال کی راہ دِکھا ئی ہے
قُلْ ہلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لاَ يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ O (الزمر، ٣٩:٩) آپ فرما دیجئے کہ علم والے اور بے علم کہیں برابر ہوتے ہیں! تحقیق سوچتے وُہی ہیں جو صاحبِ عقل ہیںO
آپ ﷺپر نازِل ہونے والے صحیفۂ اِنقلاب نے اِنسانیت کو مذہبی حقائق سمجھنے کے لئے تعقّل و تدبّر اور تفکّر و تعمق کی دعوت دی۔ اَفَلاَ تَعقِلُونَ (تم عقل سے کام کیوں نہیں لیتے؟)، اَفَلاَ یَتَدَبَّرُونَ (وہ غور و فکر کیوں نہیں کرتے؟) اور اَلَّذِینَ یَتَفَکَّرُونَ فِی خَلقِ السَّمٰوٰتِ وَ الاَرضِ (جو لوگ آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں غور و فکر کرتے ہیں) جیسے الفاظ کے ذریعے اللہ ربّ العزت نے اپنے کلامِ برحق میں بار بار عقلِ اِنسانی کو جھنجھوڑا اَور اِنسانی و کائناتی حقائق روز و شب ، زندگی کے اتار چڑھاؤ اور اسکے علاوہ آفاقی نظام کو سمجھنے کی طرف متوجہ کیا۔
اس بنیادی نکتے کو سمجھنے کے بعد کہ اندھی تقلید کا فلسفہ قرآنی تعلیمات کے یکسر مخالف فرمان مصطفیٰ ﷺ ، خلفائے راشدین کے عمل اور تحریک منھاج القرآن کی فکر و فلسفے کی بنیادی اساس کا قتل ھے
سیاست میں حصہ لینا ھے یا غیر سیاسی جدوجہد کرنی ھے ، دھرنا دینا ھے یا دھرنا لپیٹ کر واپس آنا ھے ،دھرنے پر کل کتنے اخراجات آئے ، کنٹینر کس نے بنوایا کتنا خرح آیا کس مد سے کنٹینر کیلئے ایک کروڑ سے زائد کی ادائگیی ھوئی ،اس کنٹینر کی تعمیر پر ناقص میڑیل کے استعمال کا زمہ دار کون سا مرکزی لیڈر ھے ، پالسی کیا ھوگی پلانننگ زید بکر بنائے گا یا گھر کی فلاں باجی ھی سب کچھ کرے گی، مطالبات کیا ھونگے ، ان میں سے کونسا مطالبہ حتمی ھوگا اور کس پر لچک دکھائی جاسکتی ھے ، پہلے 26 سال انتخابات میں حصہ لیکر نتیجہ دیکھ لیا اب آپ کو کس نے امید دلائی ھے کی آپ انتخابات میں کھڑے ھوں کلین سویپ کرجائینگے ، کفن پہنکر قبریں کھودکر ایک پورا جزباتی ماحول کیا صرف کسی کو ڈرانے کیلئے تھا یا محض دل پشوری کیلئے کیا گیا تھا، ماڈل ٹاون سانحے جیسے واقعے کی آپ نے انٹرنل تحقیقات کیوں نہیں کروائی ، جو سب سے پہلا لازمی کام تھا کیوں نہ ھوا آخر 14 انسان مرے تھے بے گناہ مارے گئے تھے کس نے سٹوڈنٹس کو کربلا کے نعرے لگاکر مقابلے پر اکسآیا اور کیا پولیس کو پھینٹی لگاؤ اور منھاج القرآن مسجد کے الاؤڈ سپیکر سے نوجوانوں کر چارج کرنیوالے دونوں علماۓ نے کیا اپنے طور پر یہ عمل کیا یا انکے پیچھے کوئی اور شخصیت تھی جو انہیں مقابلے کیلئے اکسانے کا کہہ رھی تھی ، یاد رھے اسوقت تک گولیاں نہیں چلی تھیں اور پھر کربلا سجانیوالے منھاج القرآن کے دونوں ذاکر ( اھم مرکزی لیڈر) خود مسجد کی چھت پر چڑکر کیوں چھپ گئے انہوں نے خواتین کو مرتبہ شہادت پر پہنچاکر خود اپنے لئے مرتبہ یہ شہادت پسند کیوں نہ فرمائی ، آپ نے ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی درج کروانے میں تاخیر کیوں کی کیا قابل اعتبار بندہ ڈھوندٹنے میں اتنی تاخیر کیوں ھوئی ، اب جے آئی ٹی رپورٹ پر خاموش کیوں ھوگئے ، اسکو چیلنج کرنے کا پراپر پلیٹ فارم ھائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ تھا ، اجتجاج کرنے سے تو آپ کو کسی نے نہیں روکا ، اس کیلئے آپ کیوں تیار نہیں ، جب آپکو پتہ تھا وزیراعلی استعفی دیتا ھے اور نہ قانونی ایکشن کرتا ھے پھر رحیق عباسی نے باقاعدہ طے کرکے اس سے ملاقات کیوں کی ، ملاقات کا اھتمام کس نے کروایا ، میاں زاھد اسلام اور خواجہ سعد رفیق کا کیا کردار تھا ، پیلے آپ نے کہا یہ راہ چلتے ملاقات ھوٰئی تھی کارکنوں آپکو کیا بتاتے پھر سب مان گئے یہ باقاعدہ طے شدہ ملاقات تھی ،ظاھر پھر اسکا ایجنڈا بھی تو کوئی طے ھوا ھوگا ؟؟؟؟؟؟
کارکنوں سمجھنے والی بات یہ ھے کی یہ چند سوالات اور اسطرح کے سیکنڈوں دوسرے سوالات تحریک منھاج القرآن کی موجودہ پالیسی ، حکمت عملی ، طریقہ کار، قیادت کے کردار، فنڈز کے استعمال، ناکامی کے اسباب اور اب انقلاب کے اپنے مستقبل پر اعلی قیادت سے پوچھنا جواب لینا ھر ایک شخص کا بنیادی حق ھے ،ساری دنیا میں یہ روایت ھے اس سے خامیوں پر قابوپانے اور بہترپالیسی بنانے میں مدد ملتی ھے ، یہ تحریک ھمارے فنڈز سے چلتی ھے یہ کسی کی ذاتی جاگیر نہیں ھے اور نی ھی یہ سوال پوچھنے سے کسی کا ایمان خارج ھوتا ھے ان سوالات کا ایمان سے کیا تعلق؟ یہ سوالات پوچھنا غداری کیسے ھوگئ؟ سوال کا جواب دینے کی بجاۓ گالیاں کیوں دی جاتی ھیں کیا دال میں کچھ کالا ھے یا ساری دال ھی کالی ھے ؟
مجھے ڈر ھے انقلاب یا ریاست کو ایک طرف رکھیں یہ تحریک اپنی بقاء کی جنگ بھی کہیں ھار نہ جائے ، بدقسمتی سے تحریک منھاج القرآن کی بھاگ دوڑ ایسے لوگوں کے ھاتھ میں ھے ک جنکے خاندان اس سے پل رھے ھیں انکی روٹیاں لگی ھیں انقلاب آئے یا نہ آئے انکی کرسیاں پکی ھیں تاریخ سے واقف لوگ جانتے ھیں جب هلاکو خان ایک عذاب بن کر بالخصوص اسلامی دنیا کو کچل رها تها اور اس کا نام خوف ودهشت کی علامت بن چکا تها. تاتاری جہاں جاتے وهاں سروں کے مینار بنا کر فتح کا جشن مناتے. ان کی آمد کی خبر سن کر هی شهر کے شهر خالی هو جاتے. جب وہ ماوراء النہر کو اپنے قدموں تلے پہنچا تو سمرقند و بخارا کے امیر نے اپنے مشیروں کا اجلاس طلب کیا کہ اس آفت سے کیسے نبرد آزما هوا جائے. چند جرنیلوں نے باهر نکل کر پہاڑوں میں گھات لگا کر انهیں گھیرنے اور لڑنے کی تجویز دی. لیکن مشیروں کی اکثریت نے جس میں زیادہ تر بڑے جید علماء اور فقہاء شامل تھے ،اس کی مخالفت کی اور عذاب الٰہی سے نمٹنے کا ایک هی طریقہ بتایا کہ ختم خواجگان کرائیں.
پهر جو ہوا وه تاریخ کا حصہ هے. سمرقند و بخارا کے سروں کے مینار پچھلے تمام کو مات کر گئے اور تاتاریوں کے قہر سے کوئی نہ بچا.
جب بغداد پر حملہ هوا تو عہد عباسیہ کا بغداد علم و ادب میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تها. هر صبح بڑے بڑے علماء اپنے تلامذہ کے هم راه چوراهوں میں براجمان هو جاتے اور مناظروں کا بازار گرم هو جاتا. هر روز نیا موضوع هوتا اور رفتہ رفتہ موضوعات کی تنگی پڑنے لگی. جس دن هلاکو نے حملہ کیا، اس دن علماء اس بات پر محو بحث تھے کہ سوئی کی نوک پر کتنے فرشتے سما سکتے هیں.
کیا اس طرح کے غیر عملی مشورے دینے والوں کی آنکھیں بند کر کے تقلید هو سکتی هے؟
کیا همارا اسلام یہی ره گیا هے کہ اپنے شیخ کے پیچھے سر دهنتے رهیں؟
غور فرمالیں ھمارا حال بھی ویسا ھی نہیں ھے ؟