حکمت کی عظیم الشان کتاب نے منادی کردی ’’جوکسی مسلمان کوجان بوجھ کرقتل کرے ،اُس کی سزا جہنم ہے ،وہ اِس میں ہمیشہ رہے گا۔ اُس پراللہ کاغضب نازل ہوگا۔ اُس پراللہ کی لعنت ہے اوراللہ نے اُس کے لیے بڑاعذاب تیارکر رکھاہے‘‘(النساء)۔ میرے نبیﷺ نے توفیصلہ ہی کردیا کہ’’مسلمان تووہ ہے جس کے ہاتھ اورزبان سے دوسرے لوگ محفوظ رہیں‘‘۔ لیکن بزعمِ خویش مسلمان کہلانے والوں نے کراچی خونم خون کردیا۔ اُدھرسے آنے والی ہواؤں کے جھونکے بھی سوگوارکہ اُن میں خون کی بو رچی تھی ۔ موجِ خوں سروں سے گزرتی رہی لیکن لبوں پہ مہرِخاموشی، پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیابھی ’’ٹک ٹک دیدم ،دم نہ کشیدم‘‘۔ایساہرگز نہیں کہ اذہان وقلوب کی کھیتیاں بنجر ہوئیںیافہم وادراک زنگ آلودالبتہ خوف ۔۔۔ جوزبانوں پہ لکنت طاری کردیتا، خوف جوکسی اندھی گولی کے جسم میں ترازو ہوجانے کاتھا، خوف ، جرمِ ضعیفی کاخوف ۔خوف کی تنی چادرتلے تلاشِ رزق میں نکلے ’’پرندے بہ نوکِ تیر سجتے رہے لیکن کسی منصورِحقیقت نے صدابلند نہ کی ، سچ یہی کہ’’اناالحق‘‘ کانعرۂ مستانہ بلندکرنے والا منصورِ حقیقت کوئی تھاہی نہیں، سبھی طاغوت کے خوف سے لرزہ براندام۔ کھلی چھٹی تھی لندن میں بیٹھے اُس ’’زبان دراز‘‘کو جس کے ہاتھ سے کوئی محفوظ تھا نہ زبان سے ۔ وہ سمجھتارہاکہ لوگ اُس کی تعظیم کرتے ہیں لیکن حقیقت اِس کے برعکس کہ اُس کی تعظیم محض اُس کے شَر کے خوف سے تھی۔الیکٹرانک میڈیاپر اُس کی اجارہ داری ،وہ گھنٹوں بلکہ پہروں’’زباں درازی‘‘ کرتارہا لیکن اُسے تواِس قولِ علیؓ کاپتہ ہی نہیں تھاکہ ’’انسان جب عقل میں پختہ ہوجاتا ہے تواُس کاکلام مختصرہو جاتاہے‘‘۔اُس کے زہرمیں بجھے نشترچلتے رہے ، فضائیں زہرناک ہوتی رہیں لیکن اُس کی طرف بڑھتے ہاتھوں پر لرزہ طاری ہوجاتا۔ غلط فہمی تھی اُس نرگسیت کے شکارکو کہ وہ پاکستان کامالک ہے اورعزووقار کی رفعتوں پر، لیکن آقاﷺ کاتو فرمان ہے ’’لوگوں میں سب سے براوہ ہے جس کی تعظیم اُس کے شَر کے خوف سے کی جائے ‘‘۔
پھرمیرے رَبّ کی درازرسی تَن گئی اورفضائے بسیط میں اُمیدوں کے چراغ ٹمٹمانے لگے۔ سیاسی اورعسکری قیادت ایک صفحے پر، ’’شریفین‘‘ کایہ عہدکہ بَس اب بہت ہوچکا۔ سیاسی جماعتیں بھی ساتھ دینے کے لیے آمادہ وتیارلیکن خباثتوں سے متعفن دلوں میں یہ تمسخرکہ ’’یہ بازومیرے آزمائے ہوئے ہیں‘‘۔ شایداُنہیں ادراک ہی نہیں تھاکہ اب کے موسموں کے تیورکچھ اورہیں اورفضاؤں میں جاں فزاء اُمیدوں کی سرگوشیاں۔ جب عزمِ صمیم میں گندھے ہاتھ خائنوں ،بددیانتوں ،کرائے کے قاتلوں، بھتہ خوروں اور دہشت گردوں کے گریبانوں تک پہنچنے لگے توسبھی چونک اُٹھے۔ ایک نے کہا’’اینٹ سے اینٹ بجادیں گے‘‘۔ دوسرے نے کہا’’جن افسران نے نائن زیرومیرے گھرپر چھاپہ مارا، وہ بڑے مردکے بچے ہیں، وہ رینجرزکے افسران تھے ،وہ تھے اور انشاء اللہ ’’تھے‘‘ہوجائیں گے‘‘۔ ایک دبئی میں’’پناہ گزین‘‘ہوااور دوسراتو 92ء سے ہی لندن میں بیٹھا ہزیان بک رہاہے۔ جب ایک اینکر نے اُس سے سوال کیاکہ وہ ایسی متنازع زبان کیوں استعمال کرتاہے تواُس کاجواب تھا ’’دو، تین سالوں سے ذہنی دباؤ کاشکار ہوں، اسی لیے زبان سے غلط باتیں بھی نکل جاتی ہیں لیکن معافی بھی مانگ لیتاہوں۔کیامعافی کافی نہیں؟‘‘۔ حقیقت یہی کہ وہ عالمِ بیخودی میں ہزیان بکتااور معافی مانگتارہتا ہے ۔ پہلے وہ سیاستدانوں پرگرجتا برستارہتا تھا لیکن اب افواجِ پاکستان اوررینجرز براہِ راست اُس کے نشانے پر۔ اِ ددریدہ دہنی پر پوری قوم تلملااٹھی اورحکمرانوں کوبھی ہوش آگیا ۔اُس نے انتہائی محترم جنرل راحیل شریف کومخاطب کرتے ہوئے کہاکہ وہ پاک فوج کواِس میں شامل کالی بھیڑوں سے صاف کریں۔ ڈی جی رینجرز کراچی میجربلال اکبرکو طنزیہ اندازمیں کراچی آپریشن کی بجائے کشمیرمیں لڑنے کامشورہ دیااور رینجرزکو کہاکہ وہ نوکری چھوڑیں، دوسال بعداپنی سیاسی جماعت بنائیں اور کرنل طاہرکو جنرل سیکرٹری بناڈالیں۔ اُس نے اتنی گھٹیازبان استعمال کی کہ اخبارات نے اسے چھاپنابھی گوارانہ کیا ۔اگر وہ یہ سمجھتاہے کہ یہ سب کچھ میاں نواز شریف صاحب کی ایماء پرہو رہاہے توبالکل درست کہ یہ سعادت میاں صاحب کے حصے میں ہی آنی چاہیے تھی لیکن شایدوہ نہیں جانتاکہ صرف میاں صاحب ہی نہیں محترم جنرل راحیل شریف بھی کراچی آپریشن کومنطقی انجام تک پہنچانے کے لیے پُرعزم ہیں۔وہ شایدیہ بھی نہیں جانتا کہ محترم سپہ سالار اور ڈی جی آئی ایس آئی محترم جنرل رضوان اخترذاتی طورپر ’’نیشنل ایکشن پلان‘‘ کی نگرانی کررہے ہیں۔ یہ وہی جنرل رضوان اخترہیں جوکچھ عرصہ پہلے کراچی میں ڈی جی رینجرزہوا کرتے تھے ۔اُس وقت اُنہوں نے کہاتھا کہ نیٹوکے اسلحے سے بھرے ہزاروں کنٹینر کراچی میں غائب ہو جاتے ہیں۔ تب لوگوں کی سمجھ میںیہ بات آئی کہ پورٹس اینڈشپنگ کی وزارت ہمیشہ ایم کیوایم کے وزیربابر غوری کے پاس کیوں رہتی تھی اورایم کیوایم اِس وزارت پرسمجھوتا کرنے کوتیار کیوں نہیں ہوتی تھی۔ جنرل رضوان اخترصاحب سے بہتر ایم کیوایم کی اصلیت اورکون جان سکتاہے ، وہ توایم کیوایم کی خباثتوں کے چشم دیدگواہ ہیں۔ اُنہی دنوں مہاجر ریپبلکن آرمی کاشور بھی اٹھااور وزیرِداخلہ چودھری نثاراحمد نے یہاں تک کہہ دیا’’ مہاجر ریپبلکن آرمی کی رپورٹ توتھی لیکن یہ رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرنے کے لیے نہیں تھی‘‘۔اُس وقت بھی حکومت کے پاس ’’ایکشن‘‘ کے لیے بہت کچھ تھالیکن نامعلوم مصلحتیں آڑے آتی رہیں۔ جب پانی سَرسے اونچاہونے لگاتو پھرچودھری نثاراحمد کوبھی کہناپڑا ’’متحدہ کے قائدنے اپنی تقریرمیں تہذیب ،شائستگی اورشرافت کی تمام حدیں پار کردیں، فوج اوررینجرز کے بارے میں اخلاق سے گری ہوئی باتیں ،باعزت لوگوں کو گالم گلوچ اوردھمکیاں دینا ناقابلِ برداشت ہے۔ موجودہ صورتِ حال کاذمہ دارپاکستان، افواج یارینجرز نہیں، اُن کے اپنے کرتوت ہیں۔ اب وقت آگیاہے کہ برطانیہ سے اِس سلسلے میں باضابطہ بات کی جائے‘‘۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا’’الطاف حسین نے ہمارے سکیورٹی اوردفاعی اداروں کے حوالے سے ایسی بدترین زبان استعمال کی جوکسی بھی صورت قابلِ قبول نہیں ۔یہ زبان ہمارے دشمن بالخصوص بھارت عرصۂ درازسے ہمارے خلاف استعمال کررہا ہے ۔1971ء کے حوالے سے الطاف حسین نے جوزبان استعمال کی ہے ہوبہو وہی زبان بھارت بھی استعمال کرتاہے‘‘۔ عرض ہے کہ کیاحکمران نہیں جانتے الطاف حسین تو عشروں سے ایسی زبان ہی استعمال کرتے چلے آرہے ہیں؟۔کیا اُنہوں نے کارکنوں کو گھریلو سامان بیچ کراسلحہ خریدنے کاحکم نہیں دیاتھا؟۔کیا حکمران لاعلم تھے کہ الطاف حسین نے بھارت میں جا کربرِصغیر کی تقسیم کوغلط قراردیا،جناح پورکا منصوبہ بنایا، عسکری ونگزقائم کیے ،نوگو ایریازاور عقوبت خانے بنائے، بھتہ خوری اورٹارگٹ کلنگ کوعروج دیا، کارکنوں کو ’’را‘‘سے تربیت دلوائی اوربھارت سے پاکستان میں افراتفری پھیلانے کے لیے فنڈزبھی وصول کرتے رہے ؟۔ پھر حکمران کس مصلحت کے تحت خاموشی کی ’’بُکل‘‘مارے سوتے رہے؟۔ جوکام عشروں پہلے ہوجانا چاہیے تھااُس کے لیے اگرآج ڈول ڈالاجا رہاہے توپھر اسے منطقی انجام تک پہنچنابھی چاہیے ،قوم کی دعائیں اُن کے ساتھ ہیں۔