رقص

Published on July 20, 2015 by    ·(TOTAL VIEWS 1,021)      No Comments

imagesافسانہ نگار ۔۔۔۔۔۔ مریم ثمر
سندھ کے دور افتادہ گاوں چھاچھرو کا بڑا افسر راہمو ں اعداد و شمار کی فائل بغل میں دبائے نپے تلے قدم اٹھاتا کانفرنس روم کے دروازے تک پہنچا اس سے پہلے کے باوردی دربان دروازہ کھولتا اس نے چپکے سے اپنے چمکتے دمکتے بوٹوں کو باری باری پتلون سے مزید چمکایا سندھی ٹوپی پر بنے مہراب کو اندازے سے ماتھے پر بنے مہراب کے عین وسط میں جمایا کندھے سے کھسکتی اجرک کو کندھے کی طرف کھسکایا ماتھے پر آئے پسینے کو روما ل سے صاف کیا اور انتہائی با ادب ہوکر اندر داخل ہوگیا ۔
مقامی سیاست دان آرام دہ کر سیوں پر اک شان بے نیازی سے براجمان تھے ۔ ان کے سامنے منرل واٹر کی بوتلیں دھری تھیں ۔ اس علاقے میں پانی کا حصول مشکل ہی نہیں ناممکن بھی تھا اور جو اکا دکا جگہوں پر دستیاب تھا وہ انسان تو کیا جانوروں کے بھی پینے کے لائق نہیں تھا ۔ اس کے باوجود دونوں ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے اور جان لیو ا بیماریوں میں مبتلا ہوتے تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ قوم کے راہنماوں کی زندگیوں کو خطرے میں نہیں ڈالا جاسکتا ۔
راہموں کے لئے کرسی کا انتظام نہیں تھا ۔ اگرچہ وہ اپنے علاقے کا بڑا افسر تھا ۔ مگر اس وقت اس سے بھی بڑے بڑے افسر موجود تھے ۔ جن کے سامنے اس کی حیثیت کسی مجبور بے بس اور لاچار ہاری سے کم کی نہ تھی ۔
میٹنگ کا آغاز ہوا ہی چاہتا ہے ۔ مگر ابھی وزیر اعلی کی آمد کا انتظار ہے ۔ جن کی گاڑی کو علاقے کے بھوکے ننگے بچوں نے گھیر رکھا ہے ۔ وہ ساتھ ساتھ بھاگ رہے ہیں ۔ تھکنے کے باوجود مسلسل چل رہے ہیں ۔ اور کچھ تو رینگ رہے ہیں ۔
وزیر اعلی کی ناک پر اس وقت سے رومال دھرا ہے جب سے ان کے حلقے کا پسماندہ ترین علاقہ شروع ہوا ہے ۔ باہر کے منظر سے اکتا کر وزیر موصوف پچھلی نشست سے تھوڑا آگے جھکتے ہیں اور ڈرئیور کے کندے پر ہاتھ رکھ کر بیزاری سے کہتے ہیں ۔ ” ان کا کچھ کرو بابا میٹنگ میں دیری ہورہی ہے ۔ ”
ڈرائیور متانت سے جواب دیتا ہے ۔ ” جی سائیں بابا ، جو حکم ۔” ساتھ ہی پانی کی بوتل گاڑی کا شیشہ کھول کر باہر اچھا لتا ہے باہر کی دھول سے بچنے کے لئے فورا ہی شیشہ دوبارہ چڑھا دیتا ہے اور اطمنان سے گاڑی کو تیز رفتاری سے آگے بڑھاتا چلا جاتا ہے ۔
ادھر یکدم سنا ٹا چھا جاتا ہے زندگی میں جیسے ٹہراو سا آجاتا ہے ۔ سب بچے ایک حلقہ بناتے ہیں اور باری باری پانی کی بوتل سے ایک ایک گھونٹ پیتے ہوئے تشکر بھری نظروں سے دور جاتی دھول اڑاتی گاڑی کو دیکھتے ہیں ۔ ان میں سے ایک لاغر جسم میں تھوڑی جان آتی ۔ یہ رام چندر ہے جو اس سکوت کو توڑتے ہوئے ۔ کہتا ہے ۔واہ ! سائیں تو بہت رحم دل ہے اڑے بابا ۔ ام تو اپنا ووٹ اسی بابا سائیں کو دے گا ۔اس کے جواب میں کئی لاغر ، بے جان اور بے بس روحیں اثبات میں سر ہلاتیں اپنے جسموں کے بوجھ کو دھکیلتے ہوئے ایک ایک کرکے وہاں سے غائب ہونے لگتی ہیں ۔
جونہی وزیر اعلی صاحب کانفرس روم میں داخل ہوئے با ادب راہموں مزید با ادب ہوگیا ۔ اس کے دل کی دھڑکنیں بے قابو ہونے لگیں ۔ جھکی ہوئی گردن مذید جھک گئی ۔
وزیر اعلی نے تمام سیاست دانوں سے علاقے کی قحط زدہ صوتحال پر تجاویز اور رائے طلب کی اور یہ نتیجہ نکالا کہ لوگ قحط سے نہیں بلکہ غربت سے مر رہے ہیں ۔
راہموں نے فائل وزیر موصوف کے سامنے کانپتے ہاتھو ں سے رکھی ۔ لکھے گئے اموات کے اعداد وشمار شرمناک حد تک کم تھے ۔ اس لئے ایمر جنسی یا ہنگامی حالت کا اعلا ن فلحال موخر کر دیا گیا ۔ البتہ سند ھ کی ثقافت کو زندہ رکھنے کے لئے سند ھ فیسٹول کی منظوری دے دی گئی ۔
راہموں کے سپرد سندھ فیسٹول کے جملہ انتظامات تھے جو اس نے پوری ایمانداری اور محنت کیساتھ وقت سے پہلے ہی مکمل کر لیئے ۔
موہنجو دڑو کے دامن میں روشنیوں اور رنگوں کا سیلاب امڈ آیا ۔ کھانے پینے کا وافر سامان آنا فانا پہنچ گیا ۔ ویران علاقے میں زندگی عود کر آئی تھی۔ ایک طرف سند ھ فیسٹول کے نام پر رقص و سرو ر کی محفلیں برپا تھیں راگ رنگ ڈسکو ڈانس اور موسیقی پر دھماچوکڑی جاری تھی۔کم عمر اور پرجو ش نرم و نازک بدن تھرک رہے تھے ۔ دوسری طرف موت کا خاموش رقص بھی جاری تھا ۔ قحط کی وجہ سے کمزور سوکھی اور بے جان ٹانگیں کانپتی اور تھر تھراتی تھیں ۔
معقدہ فیسٹول سے کچھ ہی فاصلے پر سوجو میگھو ریت کے ٹیلے کی اوڑھ لے کر یہ سب نظارہ دیکھ رہا تھا ۔ وہ بھی قحط سالی کا شکا رتھا ۔ مگر یہ نئی دنیا دیکھ کر اس کا بھی نے تحاشہ ناچنے کا دل چاہ رہا تھا ۔ بے جان آنکھوں سے ایک ٹک بس دیکھ رہا تھا ۔ پھر اسے پتہ ہی نہیں چلا کب اس کی موت ہوگئی ۔ وہ بھول گیا تھا کہ موت اس کے تعاقب میں ہے اور جونہی وہ موت سے غافل ہوا اس نے فورا ہی اسے آدبوچا ۔
تھر کی تحصیل چھاچھروں کے بڑے بڑے گوداموں میں گندم کی بوریوں کے ڈھیر موجود تھے جو کسی بڑی دیو ہیکل قبروں کی طرح دکھائی دیتے تھے ۔ گودام سے باہر ٹھیکدا رکرم داد او ر ٹرک ڈرائیوروں کے درمیان روپے پیسے کے لین دین میں تناظہ شدت اختیار کرتا جارہا تھا ۔ ٹھیکدار کسی بھی صورت میں کرائے کی رقم کو بڑھانے کے لئے تیار نا تھا ۔ شیر خان ٖغصے سے خالی ٹرک لے کر جاچکا تھا ۔ اس کے دیکھا دیکھی باقی ڈرائیور اپنے ٹرک لے جانے کے لئے تیار تھے ۔ ٹھیکدار نے حقارت سے ان کی طرف دیکھا اور غصے سے زمین پر تھوک دیا ۔” سالے رقم بڑھانے کی بات کرتے ہیں ۔ مجھے کمیشن سے بچتا ہی کتنا ہے ۔” ساتھ ہی غصے میں گودام کو بڑا سا تالا لگادیا ۔رات اچانک بارش برسنے لگی اور گودام کی ٹوٹی چھت کا سارا پانی اندر داخل ہوگیا ۔ یوں گودام میں رکھی ساری گندم بھیگ گئی ۔ ٹھیکدار نے ہفتے بعد گودام کا تالا کھولا تو سنہری گندم کالی ہو چکی تھی۔
چھاپر گاوں کے بڑے پنڈت لکیش نے تو اسی وقت قحط کی پیشگوئی کردی تھی جب اس علاقے کا مور ناچتے ناچتے دم توڑ گیا تھا ۔ مگر اس وقت کسی نے بھی اس کی باتوں پر دھیان نہیں دیا تھا ۔ موروں کے بعد اب انسانوں کے مرنے کی باری تھی ۔ اسلام کا درد رکھنے والے مسلمان ، ہندووں کو انسان سے زیادہ مسلمان بنانے پر تلے ہوئے تھے ۔ رام چند ہندو کے کئی رشتے دار کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوتے اور اس کے عوض ان کو سوکھی روٹی اور پانی کی ایک بوتل ملتی تھی ۔ وہ سیدھا مندر جاتے اور بھگوان کا شکر ادا کرتے ہوئے وہاں ماتھا ٹیک دیتے ۔
ادھر رام چند کی بیٹی اور ماں نے بھوک سے تنگ آکر خشک ہوتے گہرے کنویں میں چھلانگ لگاکر خود کشی کرلی ،ا س سے قبل ماضی میں خالہ کی بیٹیوں نے بھی بلوائیوں سے اپنی عزت بچانے کی خاطر کنویں میں چھلانگ لگا کر اپنی جان کا نزرانہ دیا تھا ۔
یوں رام چند کے گھر والوں نے اس روایت کو برقرار رکھا ۔ بھوک سے تنگ آکر خودکشی کرنے کے واقعات میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا تھا ۔ اور اب تو سجاول بھی اسی بارے میں سوچ رہا تھا ۔ مگر گوٹھ کی بڑی مسجد کے مولوی صاحب نے یہاں سے جانے سے پہلے اسے بتایا تھاکہ اس کے مذہب میں خود کشی حرام ہے ۔ بھوک سے اس کے ہونٹ خشک ہوگئے تھے اور ان میں پیڑیاں سے جم گئیں تھیں ۔ اب ان سے خون ٹپکتا تھا جس سے وہ اپنی پیاس بجھاتا تھا ۔ اس کی کمر خمیدہ ہوچکی تھی۔ پیٹ غبارے کی طرح پھول چکا تھا آنکھیں بار بار موت کا سامنا کرتے کرتے خوف اور دہشت سے بٹنوں کی طرح باہر کو ابھر آئیں تھیں ۔ کھڑے ہونے کی کوشش کرتا تو پتلی پتلی لاغر ٹانگیں اس کا ساتھ نہ دیتیں تھیں ، وہ لڑکھڑاتا اور واپس دھرتی ماں کے سینے پر گرجاتا ۔ اس کے آنسو بھی خشک ہوچکے تھے جو ایک آدھ آنسوتکلیف اور اذیت سے بہتا بھی تو وہ ایسا جما ہوا ہوتا کہ جھریوں بھرے چہرے سے آہستہ آہستہ لڑھکتا ہوا زمین پر جزب ہونے کی بجائے وہیں دم توڑ دیتا ۔۔سجاول موت کا زائقہ قطرہ قطرہ چکھ رہا تھا وہ فوری طور پر مر جانا چاہتا تھا ۔ وہ اس اذیت ناک اور ہولناک موت کو برداشت نہیں کر پارہا تھا ۔ اس کا جسم تو مر چکا تھا مگر دماغ اور دل زندہ تھا جس پر مسلسل ہتھوڑے برس رہے تھے ۔
دونوالے اور پانی کے چند قطرے ۔ ۔۔ بس دونوالے اور پانی کے چند قطرے ۔ اس سے آگے اس میں سوچنے سمجھنے کی تمام صلاحیتیں سلب ہوچکی تھیں ۔ اس نے بے چینی سے آہستہ آہستہ کروٹ بدلی اور اپنی بند ہوتی آنکھوں سے سامنے دیکھا ۔ اس کی دھندلائی ہوئی آنکھوں نے جو منظر دیکھا اس سے ان میں عجیب سی چمک اور جسم میں جیسے جان سی آگئی ۔ اپنے پورے جسم کی باقی ماندہ طاقت لگا کر اس نے اسے دھکیلنا شروع کر دیا ۔ اور بالاخر منزل پر پہنچ کر خود کو کنویں کے سپرد کر دیا ۔۔

Readers Comments (0)




WordPress Themes

Premium WordPress Themes