گزشتہ روز وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے اچانک جنوبی پنجاب کے سیلاب متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا ، اس موقع پر انہوں نے سیلاب متاثرین کے لئے حکومتی اقدامات کو ناکافی قرار دیتے ہوئے فوری طور پر مذید اقدامات اور مذید کشتیوں کا انتظام کرنے کا حکم دیا۔ جنوبی پنجاب سمیت پاکستان بھر کے زراعتی علاقے مون سون کی حالیہ بارشوں اور بھارت کی جانب سے پانی چھوڑے جانے کے بعد سیلاب سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔بھارت کی طرف سے آنے والے بڑے سیلابی ریلے نے دریائے چناب اور دریائے سندھ کے آس پاس ہزاروں بستیوں اور کئی شہری علاقوں کو روند ڈالا،لاکھوں ایکڑکھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں۔پاک فوج اور حکومتی اداروں کی کامیاب حکمت عملی سے سیلاب کا راستہ آگے بڑھنے سے تو روکا جارہا ہے لیکن اب تک سیلاب سے ہونے والے مالی نقصان کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔سیلاب متاثرین کھلے آسمان تلے سڑکوں پر موجود ہیں۔ملتان کے علاقے قاسم بیلا،مظفرگڑھ ، علی پور ،لیہ، ڈیرہ غازیخان ،رحیم یار خان ، چاچڑاں،کوٹ ادو جبکہ سندھ کے علاقے پنو عاقل چھاؤنی اور شمالی علاقہ چترال ودیگر علاقوں میں دیہی آبادیوں کے ساتھ ساتھ شہری آبادیاں بھی سیلاب سے شدید متاثر ہوئی ہیں۔سینکڑوں پکے مکانات بھی سیلابی پانی کی نذر ہوگئے ہیں۔پاک فوج اورحکومتی اداروں کی طرف سے متاثرین کو فوری طور پر جہاں تک ممکن ہوسکا ریلیف دیا گیا۔سرکاری اداروں کے علاوہ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن اور دیگر سیاسی ،مذہبی وسماجی تنظیمیں بھی سیلاب متاثرین کی مدد میں پیش پیش ہیں۔ فلاح انسانیت فاونڈیشن، الخدمت فاونڈیشن اور بحریہ ٹاؤن کی جانب سے سیلاب متاثرین کی مدد میں حتی المقدور حد تک کوششیں کی جارہی ہیں۔دیگر سیاسی وسماجی تنظیموں نے بھی سیلاب متاثرین کی مدد کیلئے اپنا حصہ ڈال رہے ہیں ، لیکن سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے مکینوں نے بتا یا کہ وہ کئی روز سے بھوکے ہیں ۔میڈیا رپورٹس کے مطابق پاک فوج کے بعد فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے رضاکار بھی متاثرہ علاقوں میں ریسکیو اور ریلیف آپریشن میں نمایاں نظر آرہے ہیں ۔ بھارت نے گذشتہ کئی سالوں سے پاکستان پر آبی جنگ مسلط کررکھی ہے۔گذشتہ کئی سالوں سے یہی علاقے مسلسل سیلاب سے متاثر ہوتے ہیں۔حکمرانوں واپوزیشن میں بھارتی آبی جارحیت کیخلاف آواز بلند کرنے کی جرات نہیں ہے۔ اگر ملک میں مذید بڑے بڑے ڈیم بنالیے جاتے تو نہ صرف ان ہر سال کے سیلاب سے نجات میسر آتی بلکہ ملکی انرجی بحران بھی ختم ہوجاتا۔