اسلام سے دوری

Published on August 2, 2015 by    ·(TOTAL VIEWS 437)      No Comments

zakeer
تحریر۔۔۔ زکیر احمد بھٹی
ایک دن میں کالج میں پڑھ رہی تھی کہ میری ایک دوست نے آ کر مجھے بتایا آج پشاور کے آرمی سکول میں کچھ دہشت گردوں نے حملہ کیا ہے یہ سن کر میرے دل کو پتہ نہیں کیا ہوا میں ایک بت سی بن کر رہ گئی تھی میں نہ کچھ کر سکتی تھی اور نہ کچھ بول سکتی تھی میری سانس جیسے بند سی ہو کر رہ گئی تھیں میری دوست نے مجھے بہت ہلایا میرے ساتھ ایسا کیاہو گیا تھا کہ میرے جسم میں طاقت نام کی چیز ہی نہیں تھی مجھے معلوم ہی نہیں کہ میرے آس پاس کیا ہو رہا تھا میری دوست نے اونچی اونچی شور مچانا شروع کر دیا تھا اور بھی بہت سے دوستوں نے آکر مجھے آوازیں دیں ایسا لگ رہا تھا کہ مجھے کچھ بھی سنائی نہیں دے رہا تھااسی وقت میری دوستوں نے کالج کے میڈیکل سٹاف کو بلایا جس نے مجھے جلدی سے ڈرپ لگائی اور پانی کے چند قطرے پلائے میری سانسیں چلنا تو شروع ہو گئیں اور میں نے زاروقطار رونا شروع کر دیا تھا میرے جسم میں عجیب سے کفیت پیدا ہو گئی تھی نجانے جیسے کسی نے میرا دل ہی نکال لیا ہو ۔تقریباایک گھنٹے کے بعد ڈرپ ختم ہوئی کچھ دوستوں نے مجھے کنٹین میں لے جا کو جوس وغیرہ پلایا۔اب میں اپنے آپ کو کافی حد تک بہتر محسوس کر رہی تھی ۔نہ جانے کون سی بات تھی جو میری دل میں کٹھک رہی تھی جو مجھے چین بھی نہیں لینے بھی نہیں دے رہی تھی میں ابھی انہیں سوچوں میں گم تھی کہ میری ایک دوست جس کا نام کرن تھا نے آکر پوچھا کہ آکر صائمہ کو ہوا کیا ہے ۔جس پر میری ایک اور دوست جس کا نام عالیہ تھا نے بتایا کہ پشاور آرمی سکول کا جو واقع رونما ہوا ہے اس کے بارے میں میں نے آکر صائمہ کو خبر دی تھی کہ وہاں سکول میں بہت سے بچے اور ٹیچرز کو ہلاک کر دیا گیا ہے اس کے بعد اس کو نا جانے کیا ہو گیا ۔ میں اس کی باتیں سن رہی تھی اور جواب نہیں دے پارہی تھی ۔میری ایک کلاس فیلو نے کہا کہ یہ دہشت گرد تنظیمیں معلوم نہیں چاہتیں ہیں آئے دن حملے کر کے بہت سے لوگوں کی جانیں لے لیتے ہیں یہ لوگ سنت رسول ﷺ رکھ کر بھی خدا کے خوف سے نہیں ڈرتے ہم کیا کر رہے ہیں ۔ابھی اتنی ہی بات کی تھی کہ میں جلدی سے اٹھی اورعالیہ کو زور سے دکھا دے دیا اس کا سر ایک میز سے ٹکرا گیا اور اس کا سر پھٹ گیا اور خون نکلنا شروع ہو گیا تھا اور میں نے پھر زور زور سے رونا شروع کردیا تھا ۔ کنٹین میں موجود سب لڑکیا ںیہ دیکھ کر پریشان تھیں کہ آخر صائمہ کو ہوا کیا ہے میری دوستوں نے مجھے زبردستی پکڑ کر کنٹین میں ایک طرف لے جا کر ٹھنڈا پانی پلایا جس سے میرے ہوش ہوس قائم ہو گئے ۔میں نے سب کو کہا کہ مہربانی کر کے سب لوگ مجھے اکیلا چھوڑ دو ۔کرن نے کہا کہ میں کوئی بات نہیں کروں گی مگر تمھارے ساتھ ہی رہوں گی ۔میں نے غصے میں کہا کہ اگر بات کرنے کی کوشش بھی کی تو بہت برا ہو گا مجھے یہ کہتے ہوئے سب دوستوں نے سن لیااور وہ سب کالج کی عمارت میں داخل ہو گئیں میری سب سے پیاری دوست کرن اب بھی میرے پاس موجود تھی۔اور وہ خاموش مجھے غور سے دیکھے جا رہی تھی اس وقت میری آنکھیں نہ بند تھیں اور نہ ہی کھلیں ہوئی اور نہ جانے میں کن سوچوں میں گم تھی جو کلاس فیلو واپس کالج کی عمارت میں چلی گئیں تھیں ان میں سے ایک دوست پرنسپل صوفیہ میڈم کو جا کرساری صورت حال سے آگاہ کردیا جس پر میڈم نے کہا کہ تم جاؤ میں آتی ہوں پرنسپل صوفیہ میڈم نے میرے گھر فون کیا اور کہا کہ صائمہ کی طبعیت ٹھیک نہیں ہے اس نے ایک لڑکی کو زخمی کر دیا ہے اس کی آج تک کو ئی کمپلین نہیں ہے مگر آج۔ آپ آکر اسے لے جائیں ۔فون بند کرتے ہی صوفیہ میڈم میرے پاس آگئیں آتے ہی مجھے بڑے غور سے دیکھنے لگیں مجھ سے بات کرنے کی کوشش کی مگر میں سن تو سکتی تھی مگر بات کرنے کی ہمت نہیں تھی میری شکل دیکھ کر صوفیہ میڈم بھی کچھ ڈر سی گئیں تھیں ۔۔ میری ایک اور دوست کو بولا کہ اب عالیہ ( جس کا سر پھٹ گیا تھا ) کیسی ہے مجھے عالیہ کے پاس لے چلو پرنسپل صوفیہ کے ساتھ کچھ لڑکیا ں میڈیکل سٹاف روم کی طرف جانے لگیں جہاں پر عالیہ موجود تھی میڈم عالیہ کو دیکھتے ہی دوبارہ اپنے آفس میں چلی گئیں اور دوبارہ میرے گھر فون کیا اور کہا کہ آپ لوگ جلدی آکر صائمہ کو لے جائیں میں ابھی صائمہ کو دیکھ کر آئی ہوں مجھے اس کی آنکھوں میں بہت خوف نظر آرہا ہے یہ بات کہتے ہیں میڈم نے فون بند کر دیا میرا گھر کالج سے تھوڑا ہی دور تھا اس لیے میری امی ، بھابی ، اور چھوٹا بھائی آگئے
جیسے ہی میرے گھر والے کالج میں داخل ہوئے تو کرن نے مجھے کہا کہ صائمہ آپ کی امی اور بھابی آئیں ہیں میرا خیال ہے کہ صوفیہ میڈم نے آپ کے گھر والوں کو کال کی ہو گی کرن بات کر ہی رہی تھی کہ امی اور بھابی میرے پاس آگئیں میری حالت دیکھتے ہی جیسے امی جان رونا ہی شروع ہی ہو گئیں بھابی بہت پریشان ہو گئیں اور سوچا آخر صائمہ کو ہوا کیا ہے بھابی نے میرے سر پر پیار کرتے ہوئے کہا کہ صائمہ بیٹا آپ کو کیا ہواہے یہ کیا حالت بنائی ہے میری گڑیا نے ۔مگر میں ان کو دیکھ تو رہی تھی کچھ کہنے کے قابل نہیں تھی بھابی نے جلدی سے بھائی کو کہا کہ جا کر ٹھنڈا پانی لاؤ کرن کے بتانے پر کہ کنٹین وہاں ہے بھائی نے کنٹین سے ٹھنڈے پانی کی بوتل لے کر آیا بھائی کیونکہ چھوٹا تھا اس لیے اسے کالج میں آنے کی اجازت مل گئی تھی بھابی نے پانی پلانے کی کوشش کی تو اس میں سے میں نے کچھ تھورا سا ہی پیا ہو گا ۔بھابی نے امی کو کہا کہ آپ صائمہ کے پاس رہیں میں پرنسپل کے پاس جا کر آتی ہوں بھابی نے بھائی ثاقب کو ساتھ لیا اور پرنسپل کے آفس کی طرف چلیں گئیں آفس میں داخل ہوتے ہی سلام کیا اورپرنسپل نے کرسی پر بیٹھنے کااشارہ کیا اور بھابی اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ میں صائمہ کی بھابی ہوں میرا نام نبیلہ آصف ہے صائمہ کو کیا ہوا ہے آج ۔ ایساصائمہ کو کتنی دیر پہلے ہوا ہے پرنسپل نے کہا مجھے یہاں شفٹ ہوئے تقریبا 6 ما ہ ہو گئے ہیں آج تک صائمہ کی مجھے کوئی کمپلین نہیں ہے یہ بہت اچھی اور ہو نہار بچی ہے مگر یہ سب کچھ میری سمجھ میں نہیں آرہا آخر صائمہ کو ہوا کیا ہے میں آپ سے کچھ جاننا چاہتی ہوں کہ صائمہ کو کہیں پہلے بھی دورے وغیرے تو نہیں پڑتے تھے آپ لوگوں نے کبھی صائمہ کو ماہر نفسیات کو دیکھایا ہے کیا ۔ ہو سکتا ہے کہ صائمہ کو باہر کی چیز ( جنات وغیرہ ) کا اثر ہو ۔ یہ سننے کی دیر تھی کہ بھابی کو بہت سخت غصہ آیا اور پرنسپل پر برس پڑیں کہ آپ کا دماغ ٹھیک ہے آپ یہ کسیی باتیں کر رہے ہیں بھابی کی آواز اونچی تھی اس لیے جہاں ہم لوگ بیٹھے ہوئے تھے بھابی کی آوازوہاں تک آرہی تھی کرن بھاگ صوفیہ میڈم کی آفس کی طرف گئی اور بھابی کو چلنے کا کہا ۔ بھابی آپ صائمہ کو گھر لے جائیں اسے آرام اور علاج کی سخت ضرورت ہے بھابی اور کرن جلدی سے میرے پاس آئیں اور مجھے گاڑی میں بیٹھایا اور بھابی گاڑی کو لے کر گھر کی کالج سے نکل آئیں امی مجھے مسلسل دیکھے جا رہیں تھیں کالج سے نکلتے ہی کرن نے بھابی کو کہا کہ کالج کے بعد میں آپ کے گھر آؤں گی ۔ ہمارا گھر کالج سے 5 منٹ کی دوری پرتھا بھابی نے گھر آتے ہی کمرے کی بجائے اپنے بیڈ روم میں لے جانا مناسب سمجھا مجھے بیڈ پر بیٹھا نے کے بعد کہا کہ میری گڑیا اب تم لیٹ جاؤ میں تمھارے لیے جوس بنا کر لاتیں ہوں بھابی کچن کی طرف چلیں گئیں اور میں بیڈ پر لیٹ گئی بھابی میرے لیے آم کا جوس بنا کر لائیں تھیں میں نے بمشکل دو ، تین گھونٹ لیے ہوں گے میرے میں ہمت نہیں تھی میں دوبارہ لیٹ گئی۔امی نے بھابی کو پوچھا کی آخر پرنسپل نے کیا کہا تھا کہ تم اتنے غصے میں بول رہی تھی۔امی جان کچھ نہیں ہوا بس ہماری گڑیا تھوڑا سا آرام کر لے گی کو ٹھیک ہو جائے گی ۔امی ایک بار پھر بھابی سے پوچھا کہ پرنسپل نے کیا کہا صائمہ کے بارے میں ۔بس وہ پاگل ہے کچھ بھی بولتی ہے بھابی دھیمی آوازمیں بھڑبڑاتی ہوئی بولیں ۔ امی کے اصرار پر بھابی نے پرنسپل کے الفاظ کو دہرا دیا کہا کہہو سکتا ہے کہ صائمہ کو باہر کی چیز ( جنات وغیرہ ) کا اثر ہو اس لیے صائمہ نے ایساکیا ہو یہسننے کی دیر تھی کہ امی اور پریشان ہوگئیں ۔امی : یا اللہ ہماری بچی کو آرام اور صحت عطا کر اور اسے اپنے حفظ امان میں رکھ امی ایک دم سے کھڑی ہو گئیں بھابی نے پوچھا کہ امی کیا ہو امی نے کہا کہ میں ساتھ والی ہمسائی کے گھر جا رہی ہوں اس کے جاننے والے ایک بابا جی ہیں میں اسے کہتی ہوں کہ بابا جی کو جلدی سے بلائے
اتنی بات کہتے ہوئے امی گھر سے باہر چلیں گئیں بھابی نے آصف بھائی کو بھی کال کر دی کہ صائمہ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے آپ جلدی گھر آجائیں بھابی ایک بار پھر مجھے دیکھنے کے لیے آئیں ۔پریشانی کی وجہ سے میری آنکھ لگ گئی ۔تھوڑی دیر میں امی جان بھی واپس آگئیں ۔ آتے ہی بھابی کو کہا کہ نبیلہ کمرے کی صفائی کر دوبس تھوڑی دیر میں بابا جی آجائیں گئے امی اور بھابی نے مل کر کمرے کی صفائی کی کالج سے گھر آئے ہوئے مجھے ابھی دو گھنٹے ہی ہوئے ہی ہوں گے کہ دروازے پر گھنٹی بجی ۔امی دروازے پر گئیں توکرن دروازے پر تھی امی کو سلام کرتے ہی امی اسے اس کمرے میں لے آئیں جس کمرے میں تھی مجھے آرام کرتے دیکھ کر کرن نے بھا بی کو پوچھا کہ اب صائمہ کیسی ہے اور صائمہ کو کیا ہو ا تھا ۔ بھابی نے کہا کہ ہمیں پتہ نہیں چل رہا کہ صائمہ کو کیا ہوا ہے امی نے ہمسائی سے کہ کر ایک بابا جی سے بات کی ہے صائمہ کو دم وغیرہ کروانے کے لیے۔ابھی کرن اور بھابی بات کر ہی رہیں تھیں کہ پھر دروازے پر دستک ہوئی اس وقت دروازے پر ہماری ہمسائی حمیدہ اور اس کے ساتھ ایک بابا جی تھے جو تقریبا 40 یا 50 سال کے ہوں گے ۔ گھر کے اندر آتے ہی سب گھر والوں کو غور غور سے دیکھنا شروع کر دیا تھا وہ بابا جی حمیدہ سے آہستہ آہستہ باتیں کر رہے تھے ہمسائی کبھی امی جان کو کبھی باباجی کو دیکھے جا رہی تھی امی پہلے ہی میری وجہ سے پریشان تھیں حمیدہ کی ان حرکتوں کی وجہ سے اور پریشان ہو گئیں خیر جس کمرے کو صاف کیا گیا تھا اس میں بابا جی اورحمیدہ کو بیٹھا دیا گیا تھا بابا جی نے ہر طرف دیکھنا شروع کر دیا تھا امی نے بھابی کو کہا کہ باباجی آئے ہیں ان کے لیے پانی کا بندوبست کرو۔بھابی جوں ہی کمرے میں داخل ہوئیں اور باباجی کو سلام کیا تو بابا جی نے زور زور سے اللہ ھو ، اللہ ھو کا ذکر کرنا شروع کر دیا حمیدہ بولی کہ باباجی اس وقت تک نہ کھاتے ہیں اور نہ ہی پیتے ہیں جب تک کوئی حل نہ ہو جائے آپ کھانے پینے کو رہنے دو آپ بس صائمہ کو لے آئیں ۔ امی نے بھابی کو اشارہ کیا کہ صائمہ کو لے آؤبھابی دوسرے کمرے میں آئیں جہاں میں سو رہی تھی بھابی نے آواز دی کہ صائمہ اٹھو ۔بھابیکی آواز سنتے ہی میری آنکھ کھل گئی بھابی نے کہا کہ اپنا حلیہ درست کرو امی نے ایک بابا جی کو بلایا ہے دم کرنے کے لیے۔ میں بڑے غور سے بھابی کو دیکھنے لگ گئی بھابی نے میرا بازو پکڑا اور بیڈ سے نیچے اتارااور میرے سر پر چادر ڈالی اور میرا کچھ حلیہ درست کیا اس کمرے میں لے آئیں جس کمرے میں بابا جی تھے ۔باباجی میرے جاتے ہی کھڑے ہو گئے اور زور زور سے اللہ ھو ، اللہ ھو کرنے لگے سونے کی وجہ سے میرا حلیہ کافی بگڑا ہوا تھا جس سے لگ رہا تھا کہ جیسے مجھ پر کسی چیز کا سایہ وغیرہ ہو بابا جی نے مجھے سرپر پیار دیتے ہوئے اپنے سامنے بیٹھنے کو کہا باباجی اپنے بیگ سے کچھ سامان نکال کر اپنے سامنے رکھ رہے تھے اور کچھ پڑھ بھی رہے تھے جیسا کہ وہ مجھے دم کر رہے ہوں اور بہت سے ایسے الفاظ بول رہے تھے جن کی مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی ناجانے وہ کون سی زبان تھی کچھ دیر کے بعد بابا جی نے اپنا ( ڈرامہ ) یعنی اپنا دم شروع کر دیا تھوڑی دیر کے بعد بابا جی بولے کہ آپ کی بیٹی پر جن کا سایہ ہے اس لیے مجھے ایک عمل کرنا پڑھے گا عمل تو تھوری دیر کا ہے اس عمل کے لیے کچھ خرچہ ہو گا جو چیزیں عمل کے لیے چاہیں وہ عمل کے دوران میرے پاس ہوں اور میں اپنا عمل باآسانی کر سکوں ۔ اس پر امی جان بولیں کہ کتنا خرچہ ہو گا باباجی بولے مجھے کچھ نہیں چاہے میں اپنے موقلوں( جنات ) سے معلوم کرتا ہوں تھوڑی دیر بابا جی چپ رہنے کے بعد بولے کہ تقریبا 20000 کا خرچہ ہو گا اس پر امی نے بھابی کو کو اشارہ کیا دونوں دوسرے کمرے میں چلیں گئیں ۔جہاں میری دوست کرن موجود تھی کرن نے بھابی سے پوچھا کہ باباجی کیا کہتے ہیں اس پر بھابی نے بتایا کہ باباجی کہتے ہیں کہ اس پر کسی جن کا سایہ ہے میری دوست جوپہلے ہی پریشان تھی اور پریشان ہو گئی ۔ بھابی نے کہا کہ پریشان نہ ہو کیوں کہ باباجی نے کہا ہے کہ میں ایک عمل کروں گا جس سے صائمہ پر سے جن کا سایہ ختم ہو جائے گا ۔کرن کچھ سوچنے لگ گئی اس پر بھابی نے کہا کہ کرن کیا ہوا کرن نے کہا کہ اگر بھابی صائمہ پر جن کا سایہ ہوتا تو اس سے پہلے بھی صائمہ ایسا کرتی مگر اس نے یہ پہلی دفعہ کیا ہے یہ بات بھابی کے بھی دل کو لگ گئی بھابی نے کہا کہ اگر صائمہ کو جن کا سایہ ہوتا تو پہلے بھی ایساکرتی ۔ کرن اور بھابی کی باتیں امی جان بھی سن رہیں تھیں
امی نے بھابی کو پوچھا کہ تمھارے پاس کتنے پیسے ہیں بھابی نے جھوٹ بول دیا کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں کچھ پیسے تھے صائمہ کے بھائی صبع جاتے ہوئے لے گئے تھے کہ ان کو کوئی کام تھا اس لیے ساتھ لے گئے ہیں امی نے کہا خیر ہے میرے پاس دس ہزار ہیں وہ میں دے دیتی ہوں اور ہمسائی کو کہتی ہوں کہ باقی کل مل جائیں گئے امی ، بھابی اور کرن وہاں آگئیں جس کمرے میں موجود تھی امی کو دیکھ کر جو بابا جی آہستی آہستہ بول رہے تھے جو میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا آخر بابا جی کیا بول رہے تھے ۔نیند سے بیدار ہونے کی وجہ سے جو تھکاوٹ تھی کافی حد تک ٹھیک ہو گئی تھی اور میں پہلے سے کافی بہتر محسوس کر رہی تھی اچھی طرح تو نہیں میں دیکھ اور سمجھ پا رہی تھی ۔امی جان نے باباجی کو پیسے دے اور کہا کہ اس وقت میرے پاس صرف دس ہزار روپے ہیں میرا بیٹا گھر میں نہیں ہے شام تک وہ آجائے گا میں اس سے لے کر حمیدہ جو کہ ہماری ہمسائی ہے اسے دے دوں گی صبع تک آپ کو باقی دس ہزار مل جائیں گئے یہ سنتے ہی میرے میں عجیب سی کفیت پیدا ہوئی ۔ کہ باباجی تھوڑی دیر کے لیے آتے ہیں دم کے بہانے کتنے کتنے پیسے لیتے ہیں لوگوں سے ۔ ابھی میں سوچ ہی رہی تھی کہ باباجی بولے کہ میری کوئی بات نہیں ان باتوں میرے موقل ( جنات ) نہیں مانتے۔اگر اس وقت پیسے نہیں ہیں تو میں کل آجاؤں گا مگر میں اس وقت جنات کو خاضر نہیں کر سکتا اس دوران اگر آپ کی بیٹی کے ساتھ کچھ ہوا اس کے زمہ دار آپ خود ہوں گئے ابھی یہ بات چل ہی رہی تھی کہ دروازے پر پھر دستک ہوئی امی تو بابا جی سے بات کر رہی تھیں تو بھابی نے دروازے پر دیکھا کہ ہماری پرنسپل صوفیہ میڈم اور کچھ میری دوست تھیں بھابی ان کو جس کمرے میں بیٹھی ہوئی تھی اسی کمرے میں لے آئیں وہ سب میرے پیچھے آکر بیٹھ گئیں امی کہہ رہیں تھیں کہ بابا جی میرا یقین کرو میرا بیٹا جوں ہی گھر واپس آئے گا میں اس سے پیسے لے کرحمیدہ کو دے دوں گی میں آپ کے سامنے ہاتھ جوڑتی ہوں خدا کے لیے اس سایے سے میری بیٹی کو نجات دلا دو بابا جی تھے کہ ماننے کا نام ہی نہیں لے پا رہے تھے بابا جی کو بس اپنے پیسے چاہیں امی جان نے بابا جی کے پاؤں پکڑنے کی بھی کوشش کی اس پر مجھے بہت سخت غصہ آیا ۔ باباجی اٹھ کر جانے لگے تو امی جان نے دوبارہ باباجی کے پاؤں پکڑنے کی کوشش کی اس پر میرا دماغ ہی گھوم گیا دل میں آنے لگا کہ ماں باپ بھی کیا چیز ہوتے ہیں اپنی اولاد کی خاطر کس حد تک چلے جاتے ہیں مگر بچے بڑے ہو کر ماں باپ کی عزت اخترام نہیں کرتے ان سب باتوں کی وجہ سے میر دماغ بہت گھوما ہوا تھا ۔ میں نے کھڑے ہونے کی کوشش کی جس میں ناکام رہی ۔میری دوست جو میرے پاس بیٹھی ہوئیں تھیں انہوں نے مدد کی تو میں کھڑی ہوگئی میں نے امی کو پکڑ کر ایک طرف کیا اور بابا جی کو غصے سے مخاطب ہوئی اور کہا کہ اسلام آپ کو یہی سیکھاتا ہے کہ آپ ایک عورت کی اتنی تذلیل کریں ۔آپ ہو کیا مجھے کیا مسلہ ہے اگر آپ کے پاس کوئی جنات وغیرہ ہیں ان سے پوچھ کر بتائیں کہ مجھے کیا مسلہ ہے بابا جی غصے میں آگئے کہنے لگے کہ میں ابھی جنات کو خاضر کر کے سب کچھ فنا کر سکتا ہوں اور تیری ساری کہانی بھی ختم کر سکتا ہوں میں کوئی عام عامل نہیں ہوں میں نے بڑے بڑے کام کئے ہیں عاملوں کی دنیا میں میرا بڑا نام ہے میرے پاس جو جنات ہیں ان سے میں یہ سب کچھ کر سکتا ہوں ایک منٹ میں تمھاری سارے گھر کو تباہ برباد کر سکتا ہوں میں نے تمھاری جیسی بہت ٹھیک کئی ہیں تمھارا کام تو بس ایک منٹ کا کھیل ہے میرے لیے۔ تمھارے ساتھ جو کچھ ہونے والا ہے وہ سب میں جانتا ہوں ایک ایک پل کی خبر ہے جیسے ہی بابے نے یہ الفاظ بولے تو میں نے بابے کے منہ پر ایک زور دار تھپڑ مار دیا اور کہا تمھارے جنات نے یہ کیوں نہیں تمھیں بتایا کہ تمھیں تھپڑ لگنے والا ہے نکال جو بھی جنات ہیں تمھارے پاس
آج یہ سب لوگ تمھارے جنات دیکھیں اور تمھاری اصلیت سب کے سامنے آجائے گئی میں اونچی اونچی آواز میں بول رہی تھی اتنے میں میرے بڑے بھائی آصف بھی آگئے بھائی میری اس طرح کی آواز سن کر پہلے تو ڈر گئے پھر میرے پاس آئے سر پر پیار دیا اور مجھے پوچھنے لگے کہ صائمہ میری گڑیا کیا ہوا ہے اور یہ سب ڈرامہ کیا ہو رہا ہے یہ باباجی کون ہیں اور ان کو گھر میں کون لے کر آیا اتنی دیر میں امی جان بولیں یہ بابا جی دم درود کرنے والے ہیں میں نے حمیدہ کو کہا کہ میری گڑیا کو اس طرح کا معاملہ ہو گیا ہے تو اس نے ان باباجی کو لے کر آئی ہے بھائی بولے کوئی تو بتائے آخر صائمہ کو ہوا کیا ہے یہ سب ہو کیا رہا ہے اس پر میں بولی یہ جو صاحب اپنے آپ کو بابا جی کہتے ہیں یہ سب ڈرامہ ہے اور ہمیں دھمکی دے رہا ہے کہ وہ اپنے جنات بلا کر ہمارے گھر کو تباہ برباد کردوں گا اس پر بھائی نے باباجی کو گریبان سے پکڑ لیا اور مارنا شروع کر دیا بھائی اسے کہتا رہا نکال اپنے جنات میں بھی دیکھوں تیرے جنات ۔بھائی کی آواز اونچی تھی اس لیے محلے کے چند لوگ بھی وہاں آ گئے بھائی نے اسے مار مار کر اس کی حالت خراب کر دی تھی اب وہ کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا وہ بھائی سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ رہا تھامجھے معاف کر دو میں تو صرف دم وغیرہ کرتا ہوں میرے پاس کوئی جنات وغیرہ نہیں ہیں جو کچھ پڑھ کر دم کرتا ہوں اس کے پیسے لیتا ہوں میں نے بھائی کو کہا کہ اس نے مجھے دم کرنے کے بہانے امی سے دس ہزار روپے لیے ہیں بھائی نے ایک اور زور دار طمانچہ مارتے ہوئے کہا کہ نکال وہ پیسے جو امی جان نے تمھیں دیے ہیں بھائی نے اس ڈرامے باز کو رسی سے باندھ دیا ۔ اور پولیس کو فون بھی کر دیا اور کہا کہ اس ڈرامے باز کو آکر لے جائیں بھائی بڑبھڑانے لگے نہ جانے اس نے کتنے لوگوں کو بے وقوف بنا کر پیسے لوٹے ہوں گئے بھائی دوبارہ اس کی طرف مخاطب ہوئے ، باباجی بتاؤ ہمارا اسلام ہمیں یہی سیکھاتا ہے کہ کسی کی مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھایا جائے آخر تم لوگ آخرت کو کیوں نہیں یاد رکھتے آخر تم لوگ پیسوں کے لیے کتنے لوگوں کو بے وقوف بناتے ہو اس کا احساس ہونا چاہے کہ ہمیں ایک دن اللہ کے پاس خاضر ہونا ہے جو عمل ہم نے دنیا میں کئے ہیں اس کا حساب بھی دینا ہو گا ۔ تم جیسے لوگوں نے ہی اسلام کو بدنام کر کے رکھ دیا ہے۔ اتنی دیر میں پولیس ہمارے دروازے تک پہنچ گئی بھائی نے سب کو اپنے دوپٹے درست کرنے کو کہا پولیس والوں میں سے کچھ اہلکاروں نے دروازے پر دستک دی ۔ بھائی نے دروازہ کھولا بھائی نے اپنا تعارف کروایا ، پولیس والوں میں سے جو آفسیر تھا اس نے اپنا تعارف کروایا ، میرا نام آوانی ہے اور میں اس علاقے کا ۔۔ ایس ۔ایچ۔آو۔ ہوں بھائی نے ان کو اندر آنے کا کہا اندر آتے ہی بھائی نے ساری صورت حال سے آگاہ کیا تو جناب آوانی صاھب نے اپنی تفتیش شروع کرنے سے پہلے اس ڈرامے باز کو بڑے غور سے دیکھااور کہا کہ یہ بندہ کافی عرصہ سے پولیس کو مطلوب تھا یہ ایک اشتہاری مجرم ہے اس پر دولاکھ کی رقم بھی مقرر کی گئی تھی ۔ آپ لوگوں کی مہربانی کہ آپ لوگوں نے ہمیں کال کر کے بلا لیا باقی ہم دیکھتے ہیں یہ کیا کیا کر سکتا ہے اور اس کے جنات ہم لوگ تھانے لے جا کر نکالتے ہیں سر آوانی نے اپنے ایک ماتحت کو حکم دیا کہ اسے گرفتار کر لیا جائے آوانی صاحب جانے لگے تو میں نے کہا کہ سر مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے آوانی صاحب پاس آئے اور کہا بیٹا کیا کہنا چاہتی ہو سب مجھے دیکھنا شروع ہو گئے صائمہ اب پتہ نہیں پولیس والے کو کیا کہے گی۔
میں دل میں سوچ ہی رہی تھی کہ کیا بولوں اتنے میں سر آوانی بولے بیٹی کیا کہنا چاہتی ہو، بیٹی جو بھی بولنا چاہتی ہو بے خوف اور ڈرے بغیر بتاؤآوانی سر نے بھائی عاطف کو پانی کا کہا بھائی نے بھابی کو اشارہ کیا بھابی جلدی سے کچن میں گئیں اور پانی کا ایک گلاس لائیں اور بھائی کو دیا بھائی نے ایس ایچ او سر آوانی کی طرف کیا تو سرآوانی نے کہا مجھے نہیں صائمہ بیٹی کو دیں بیٹی آپ پانی پیو اور آرام سے کہو کیا کہنا چاہتی ہو میں نے پانی پی کر گہرا سانس لیا اور بولنے کی کوشش کرنے لگی میں نے بڑی مشکل سے بولنا شروع کیا میں ایک کالج میں سٹوڈینٹ ہوں آج صبع جب میں کالج گئی تو میری طبیعت بلکل نارمل تھی کالج میں ایک دو لیکچر لینے کے بعد فری تھی تو میں لائبریری میں چلی گئی تاکہ میں اپنے دوسرے مضامین کی تیاری کر سکوں ۔میری ایک دوست نے آکر مجھے بتایا کہ آج پشاور میں آرمی پبلک سکول میں کچھ دہشت گردوں نے حملہ کر دیا ہے جس میں بہت سے بچے شہید اور بہت سے زخمی بھی ہوئے ہیں یہ سنتے ہی مجھے معلوم نہیں کیا ہوا میرا سر درد میں شروع ہو گیامیری کچھ دوستیں اصرار کر کے کنٹین میں لے آئیں۔جہاں انہوں نے مجھے جوس پلایامیرے کالج کی اور کچھ سٹوڈینٹ بھی وہاں آگئیں اور میری طیبعت کا پوچھنے لگیں میری ایک اور کلاس فیلو عالیہ بھی وہاں آگئی اس نے دوبارہ آرمی پبلک سکول کا زکر کیا جس سے میرا سردرد معلوم نہیں کیا ہوا میں نے عالیہ کو زور دار دھکا دے دیا جس سے اس کا سر ٹیبل کے ایک کونے پر لگا اور اس کا سر زخمی ہو گیا میری کچھ دوستوں نے مجھے کنٹین سے باہر ایک پارک کی طرف لے آئیں جو کہ ہمارے کالج کی ایک طرف تھا ۔ایک سٹوڈینٹ نے جا کر پرنسپل صوفیہ میڈم کو بتایاصوفیہ میڈم نے میرے گھر فون کر کے میرے گھر والوں کو بلایاکہ وہ آکر مجھے لے جائیں ہماری پرنسپل نے میرے گھر والوں کو شک دلایا کہ ہو سکتا ہے کہ مجھے کسی جن بھوت وغیرہ کا سایہ ہو گیا ہے گھر آتے ہی میری امی جان ہماری ہمسائی جو کہ حمیدہ بی بی ہیں ان کو بتایا حمیدہ نے ایک باباجی کا بتایا جس پر وہ ایک باباجی کو لے کر ہمارے گھر آئیں باباجی نے دم کرنے کے امی جان سے بیس ہزار روپے مانگے اس طرح یہ ڈرامہ شروع ہوا باقی آپ کے سامنے ہے جو کچھ ہواابھی میں بول رہی تھی کہ ہماری پرنسپل صوفیہ میڈم بولیں صائمہ بیٹی میں آپ سے اور آپ کے گھر والوں سے معافی مانگتی ہوں ۔ میں نے میڈم کے الفاظ کاٹتے ہوئے کہا کہ میڈم آپ ہمیں شرمندہ نہ کریں آگے کی آپ نے ہی ہمیں آگے کی تعلیمات دینی ہیں آپ ہمیں شرمندہ نہ کریں ۔اور جو بھی میڈم ہوتا ہے اللہ کی طرف سے ہوتا ہے مگر آپ سب کو ایک بات بتانا چاہتی ہوں آج صبع پشاور میں آرمی پبلک سکول میں جو واقع رونما ہوا ہے اس میں بہت سارے بچے جو شہید ہوئے ہیں بہت بچے نہ جانے کتنے گھروں کے چراغ تھے جو بجھا دیے گئے ہیں جہاں بھی کوئی ایسا واقع رونما ہوتا ہے ۔
تو غیر مسلم تو غیر مسلم اپنے مسلمان لوگ بھی یہ کہنا شروع ہو جاتے ہیں یہ کام فلاں تنظیم نے کیا ہو گا ۔ میں کہنا چاہتی ہوں کوئی بھی مسلمان ایسا کام نہیں کر سکتا مسلمانوں نے اللہ کے خوف سے داڑھیاں رکھیں ہوئیں ہیں یہ مسلمان کسی کے گلے تو لگ سکتا ہے کسی کا گلہ نہیں کاٹ سکتا بس ہمارے ہی ایمان کی کمزوری ہے جو ہم غیر مسلوں کے ہاتھ پیسوں کا نشہ دیکھ کر اپنے پیارے دین سے دور ہو کر ایساکام کرتے ہیں ہمیں کسی غیر کے نہیں اپنے دین اسلام کی تعلیمات پر عمل پیراہ ہونا چاہیے یہ جو کچھ آج ہمارے درمیان ہو رہا ہے یہ سب دین اسلام سے دوری کے سبب ہو رہا ہے آج سے ہم نماز ، روزہ ، حج ، زکواۃ ، قرآن مجید پر عمل کرنا شروع ہوں جائیں تو یہ معاملات ٹھیک ہو جائیں گئے ہم سب کو مل کر رہنا چاہے اپنا کون ہے اور پرایا کون ہے اس میں تمیز کرنی ہو گی۔میری دلی خواہیش اور دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں نیک اور ایک ہونے کی توفیق عطا فرمائے میری بات ختم ہوتے ہی سب نے میری حوصلہ افزائی میں تالیاں بجائیں اور ایس ایچ او آوانی نے کہا اگر بیٹی تمھارے جیسا اگر سب کا نظریہ ہو جائے ۔ ہمارے ملک میں کبھی بھی ایسا نہ ہو اس پر ایس ایچ او میرے بھائی اور امی کو کہنے لگے آپ لوگ پریشان نہ ہوں یہ بچی بلکل ٹھیک ہے ۔ اللہ تعالی سب کو ایسی بیٹیوں سے نوازے ۔ ابھی بات چل ہی رہی تھی کہ صوفیہ میڈم جو کہ ہمارے کالج کی پرنسپل ہے بولیں یہ بچی ہمارے کالج کی سٹوڈینٹ ہے اس کی عجیب و غریب حرکت کی وجہ سے میں بھی بہت پریشان ہو گئی ۔سر آوانی بولے یہ بچی بہت اچھی ہے باتیں بھی بہت اچھی کرتی ہے اور یہ بلکل ٹھیک ہے ۔مگر آپ لوگوں نے ہمارا بھی کام کر دیا جس مجرم کی ہمیں کافی عرصہ سے تلاش تھی اب ہماری گرفت میں ہے
آپ کوشش کیا کریں کہ کالج میں سب مثبت رویہ اختیار کریں اور اچھی سوچ بنائیں ۔اللہ تعالی آپ سب کو صحت اور تندرستی عطا فرمائے اور کامیابیوں سے ہم کنار کرے امین

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

Free WordPress Theme