یکم اگست 2015ء سے ڈسکوری چینل پر بصورت اشتہار مندرجہ بالا عنوان دکھایا جاتا رہا تھا ا سی طرح پندرہ اگست 2015ء کو انڈیا کا ہر چینل تاریخی واقعات دکھاتا رہا مثلاً ایک چینل پر کارگل سے متعلق ڈرامہ دکھایا گیا اور یہ تاریخی جھوٹا دعویٰ کیا گیا کہ انڈیا کارگل کی جنگ جیت چکا ہے ۔ اب ٹی وی سکرین کے آگے بیٹھ کر یہ سب فرضی داستانیں دیکھنے والوں کو تیس مجاہدین کے مقابلے میں تین سو ہندوستانی سورماؤں کی حیثیت کون ظاہر کرتا ۔ لکڑی اور دھاتی تابوتوں پر ہندوؤں کی آپس کی لڑائیوں کی اندرونی کہانی کون بتاتا ۔بے خبر اٹھائے گئے ہندو فوجی سرینگر پہنچ کر حقیقت حال سے واقفیت کے بعد خودکشی کرنے کی کہانیاں کون ان کو سناتا ۔جعلی یا نقلی پاکستانی پوسٹ بناکر اس پر حملہ اور قبضہ کی جعلی فلم بنا کر ترقی پانے والے ہندو سورماؤں کی اصلیت واضح ہونے کے بعد اس فلم یا ڈرامہ کے کرداروں کے انجام سے دنیا کو کون آگاہ کرتا؟یہ چند سوالات ہیں ورنہ واقعات اور سوالات سیکڑوں نہیں ہزارہا ہیں ۔ لیکن کوئی پاکستانی مدعی چینل ہوتا تو انڈیا کے جھوٹ کا جواب دیتا۔ ایک اور انڈین چینل نے قندھار لے جائے گئے طیارے پرایک مکمل فلم دکھا کر طیارے کے کیپٹن کے یہ الفاظ حب الوطنی کے حوالے سے Golden Words بناکر پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ اگرچہ اغوا کار طیارہ لاہور میں اتارنا چاہتے تھے مگر کارگل لڑائی کے دُکھ یا غم کی وجہ سے اس کا ضمیر اسے لاہور جانے نہیں دے رہا تھا لہذا طیارہ افغانستان کے شہر قندھار لے جایا گیا اور اغواکاروں کے مطالبات ماننے کی بجائے ہندوستان کی عزت اور عظمت کے جذبے سے معاملہ نمٹایا گیا ۔ اس پر بھی انڈین ذلت کاجواب چاہئے تھا مگر پھر وہی رونا کہ پاکستان یاپاکستانی نہیں جبکہ Discovery چینل پر دوسری جنگ عظیم کے جنگی مناظر اور ساتھ ساتھ تبصروں کے ذریعے اپنی نئی نسل کو یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ سبھاش چندربوس نے ہندوستان کی آزادی کے لئے جو فوج بنائی تھی اس فوج نے بہ ظاہر برطانوی جھنڈے تلے جرمن اتحادی یعنی جاپانی فوج کو شکست فاش دے کر اپنے آپ کو منوایا ۔دوسری جانب ان کے مقابلے میں 14 اگست کو پاکستانی چینلز پر بازاروں کی سجاؤٹ کے مناظر ،بچوں کے جھنڈوں کی خریداری اور سٹوڈیوز میں مزاحیہ پروگرام پیش کئے گئے ایک چینل نے آپریشن ضرب عضب کے حوالے سے تیراہ کے علاقے میں پاک فوج کے جوانوں سے ملاقات ، گفتگواور تفصیلات پیش کیں۔لیکن تحریک پاکستان ، دو قومی نظریہ کی وضاحت کی روح سے خالی بے جان نمائشی پروگرام دیکھ کر اندازہ ہورہا تھا کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں ایسے لوگ براجمان ہیں جنہیں تقسیم ہند کے بنیادی مقصد کا یا تو خبرہی نہیں یا وہ دانستہ طورپر ایسے پروگرام پیش کرتے ہیں کہ بالآخر اکھنڈ بھارت کا راستہ ہموار ہو اور جشن آزادی’’ اقدار‘‘ سے آزادی ناچ گانوں اور تفریح تک محدود ہوجائے۔ ایک پاکستانی چینل پر کارٹون یا کٹھ پتلی کرداروں کے ذریعے جشن آزادی کا پروگرام دیکھ کر تو دل خون کے آنسو رویا ۔ ان چند واقعات کے تذکرے کا مقصد یہ ہے کہ ریاست مدینہ کے بعد پاکستان دوسرا ملک ہے جو ایک نظرئیے پر قائم کیا گیا ہے، وہ نظریہ حکمران ہوگا ۔ سیکولر ،ہندو، سکھ، عیسائی یا کسی اور مذہب کے پیروکار اسی حکمران نظریہ کے تحت رعایا ہوں گے ۔ اس کا آئین اسلامی ہوگا آئین کی تشریح قرآن وحدیث کے مطابق ہوگی ۔ مغرب زدہ ، مادہ پرست حکمران جو طاغوتی طاقتوں کے گماشتے ہیں اب ان سے نجات کا وقت آگیا ہے ان کی خود غرضیوں اور نااہلیوں کی وجہ سے ہر کام فوج کے گلے ڈالا جارہا ہے سرحدات کی نگرانی بھی فوج کرے اور ہرشہر کی گلیوں میں مجرموں کا پیچھا بھی فوج کرے،سیلاب اور زلزلوں کے متاثرین کو بھی فوج سنبھالے اور الیکشن بھی فوج کرائے ،ویکسی نیشن کی نگرانی بھی فوج کرے حتیٰ کہ حکمرانوں اور ان کے زیر سایہ منظم بدعنوان افراد جو قومی اداروں میں کینسر کی طرح پھیلے ہوئے ہیں انہیں بھی فوج سنبھالے !وقت کا تقاضا ہے کہ فوج ایک کام اپنے ذمے از خود لے اس کام کو سرانجام دینے کے بعد فوج پر موجودہ بوجھ کم ہوجائے گا اور یہ قوم آزادی کے بنیادی مقصد کو پالے گی ۔ وہ کام یہ ہے کہ !میڈیکل کور، انجینئرنگ کور، ملٹری پولیس ، فوجی عدالتوں کی طرح ،پاکستانی عدالتی نظام کی سرپرستی بھی سنبھالے ،جرائم کی فوری فیصلوں کے لئے نظام وضع کرکے یعنی موٹر وے پولیس کی طرح نقد جرمانوں سے لے کر’’ صفورا چوک ‘‘ جیسے واقعات کے فیصلے ہفتوں اور مہینوں میں ہوں ۔ پولیس اور وکلاء کی نئی کھیپ تیار کرنے کے لئے نئے ادارے بنائے جائیں ،موجودہ پولیس کو فوج میں کھپائے اور وکلاء کو مطلوبہ سلیبس کے مطابق امتحان سے گزارا جائے ۔ جب تعلیم ، صحت ، انجینئرنگ ،پولیس ،عدلیہ اور مخلص سیاسی نظام قائم ہوگا توفوج کے کاندھو ں کا بوجھ ہلکا ہوجائے گا ۔تب آزادی کا مقصد حاصل ہوگا ۔ اور پھر جشن آزادی کارٹون یا کٹھ پتلی تماشا نہ ہوگا ۔ بلکہ ایک روحانی عید ہوگی ۔