پاکستان اور بھارت کی آزادی سے لے کر اب تک دونوں ملک نہ صرف متعدد چھوٹی و بڑی جنگیں لڑ چکے ہیں بلکہ ان ملکوں کے ایٹمی طاقتیں بننے کے بعد اب ماہرین اس خطہ،با لخصوص کشمیر کو ’’نیوکلےئر فلیش پوائنٹ‘‘ قرار دیتے ہیں۔پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی لڑائی کے نتیجہ میں خدانخواستہ یہ خطہ ایٹمی بربادی کا نشانہ بھی بن سکتا ہے۔ یورپ نے دو عظیم جنگوں میں چار کروڑ انسانوں کی قربانی دے کر امن کا سبق سیکھ لیا لیکن بدقسمتی سے ایشاء میں ابھی تک قیام امن کا یہ شعور پیدا نہیں ہوا۔ جنوبی ایشیاکے علاوہ پورے ایشاء بحر الکاہل کے خطہ میں سب ہی ملکوں کے درمیان علاقائی تنازعات چل رہے ہیں۔ ماضی کی تلخیاں نئے روپ میں جنم لے رہی ہیں۔زبانی تکرار کے علاوہ ہلکی پھلکی فوجی کارروائی کی نوبت بھی آتی ہے لیکن ابھی کوئی بڑی جنگ نہیں چھڑی۔ برصغیر میں برطانیہ نے مسئلہ کشمیر کی شکل میں فساد کی جڑ بوئی تو دوسری جانب امریکہ، بحر الکاہل کے خطہ میں جاپان، مشرق بعید کے ملکوں اور اور تایؤان کو چین کے خلاف اکسانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔ ان سب ہی خطوں میں متنازعہ علاقے اس کشیدگی کا سب سے بڑا سبب ہیں۔ جنوبی ایشاء میں مسئلہ کشمیر پاک بھارت تمام تنازعات کی جڑہے۔ یہ مسئلہ پر امن طریقہ سے حل ہو جائے تو پاکستان اور بھارت کے درمیان سیاچن گلیشئر، آبی تنازعات اور دیگر مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔ لیکن بھارت ہے کہ مسائل کے حل کے لئے سنجیدہ ہونے کو تیارہی نہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان بیس سال سے جامع مذاکرات کے نام سے مکالمہ جاری ہے لیکن مجال ہے کہ ان مذاکرات کا ایک بھی مثبت نتیجہ برآمد ہوا ہو۔ بھارت کے جنگجویانہ رویہ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اس متنازعہ ہمالیائی خطہ میں بیک وقت پاکستان اور چین کے ساتھ الجھا ہوا ہے۔ پاکستان کی داخلی کمزوریوں کے باعث وہ پاکستان پر چڑھ دوڑنے کی کوشش میں ہے جب کہ معاشی او ر فوجی لحاظ سے طاقتور چین سے وہ دبا ہوا ہے۔ ہر روز بھارتی میڈیا خبریں نشر کرتا ہے کہ چینی فوج بھارتی باڑ تک اکھاڑ کر لے جاتی ہے۔بھارتی بنکر تباہ کر دئیے جاتے ہیں۔ بطور قوم ہمیں بھی سوچنا ہو گا کہ صرف فوجی طاقت کسی ملک کو طاقتور نہیں بناتی بلکہ معاشی ترقی اور داخلی استحکام اب زیادہ اہم ہے۔بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے بار بار مذاکرات کی پیشکشوں کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہمیں بطور قوم متحد ہو کر دہشت گردی کے عذاب سے جان چھڑانی ہے اور کرپشن سے پاک معاشی ترقی کے پروگراموں کو عمل میں لانا ہو گا جب ہی بھارت اور دیگر اقوام عالم کی نظر میں پاکستان اہمیت اختیار کرے گا۔بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں اپنے تسلط کے دوران کشمیری عوام پر بربریت اور ننگ انسانیت جرائم کی جو داستانیں رقم کی ہیں جن میں لاکھوں بے گناہ کشمیری عوام کی جانیں اور ہزاروں عفت مآب خواتین کی عصمتیں ان مظالم کی بھینٹ چڑھی ہیں۔ یہ سارے مظالم تو پہلے ہی ظلم کی داستانوں کی شکل میں عالمی قیادتوں اور حقوق انسانی کے عالمی اداروں کے نوٹس میں آ چکے ہیں جس کیلئے خود کشمیری عوام نے دنیا بھر میں مثالی کردار ادا کیا ہے چنانچہ آج اقوام متحدہ ہی نہیں، یورپی یونین، ناوابستہ ممالک کی تنظیم ’’نام‘‘ او آئی سی، شنگھائی کانفرنس اور دوسرے عالمی فورموں پر بھارتی مظالم کے خلاف اور کشمیریوں کے حقوق کیلئے موثر آوازیں اٹھ رہی ہیں اس لئے اس صورتحال میں بھارتی سفیر اپنی چرب زبانی سے کشمیریوں کی اپنے حقوق کیلئے بے پایاں جدوجہد کے حوالے سے دنیا کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکتے۔ یہ بھارتی پالیسی شیشہ توڑ کر دنیا کی نظروں سے اپنا مکروہ چہرہ چھپانے کے مترادف ہے جبکہ دنیا اس مکروہ چہرے سے پہلے ہی واقف ہے اور اب روزانہ کی بنیاد پر کنٹرول لائن پر جس ننگی بربربت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت کی مودی سرکار بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری کے ذریعے ہمارے سرحدی علاقوں کے عوام اور سکیورٹی اہلکاروں کو چھلنی کرا رہی ہے‘ میڈیا کے فعالیت کے دور میں بھارت اپنے ان مظالم کی کیسے پردہ پوشی کر سکتا ہے۔ ابھی گزشتہ روز ہی بھارتی فوج نے آزاد کشمیر کے نکیال سیکٹر میں شادی کی ایک تقریب میں بلااشتعال فائرنگ کی ہے جس میں ایک خاتون شدید زخمی ہوئی ہے اس لئے مقبوضہ کشمیر میں عوام پر بھارتی مظالم کا نقشہ کھل کر دنیا کی آنکھوں کے سامنے آ چکا ہے چنانچہ مظالم چھپانے کی کوئی بھارتی چالبازی اسکے کام نہیں آ سکتی اور اس کیلئے عافیت اسی میں ہے کہ وہ یو این قراردادوں کا احترام کرتے ہوئے کشمیری عوام کا حقِ خودارادیت تسلیم کر لے۔ کشمیری عوام تو اپنی قربانیوں سے لبریز جدوجہد کے ذریعے بہرصورت اپنی آزادی کی منزل حاصل کرکے رہیں گے۔گزشتہ برس ایک ڈرائیور کی گرفتاری پر کنٹرول لائن کے آر پار تجارت کا رک جانا دونوں ممالک کا ایک دوسرے پر عدم اعتماد کا اظہار ہے جس کی بنیادی وجہ مسئلہ کشمیر ہے جو چار جنگوں کا سبب بنا۔ بھارت کی ہٹ دھرمی کے باعث اسکے حل کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ تقسیم ہند کے تمام قواعد اور اصولوں کے مطابق کشمیر پاکستان کا حصہ ہے جس پر بھارت نے غاصبانہ قبضہ کیا۔ اقوام متحدہ اس کا حل کشمیریوں کو استصواب کی صورت میں تجویز کر چکی ہے جسے بھارت نے بھی تسلیم کیا لیکن اس سے مکر گیا اور اب کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔ بھارت میں کوئی بھی واقعہ ہو جائے تواس کا الزام پاکستان پر لگا کر دوستی بس، سمجھوتہ ایکسپریس اور تجارت بند کر دی جاتی ہے۔ ہمارے حکمران بھارت سے بجلی و گیس خریدنے کی بات کرتے ہیں۔ اسے پسندیدہ ترین ملک قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ حقائق سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہے۔ بانی پاکستان نے کشمیر پاکستان کی شہ رگ قرار دیاہے۔ کشمیر میڈیا سیل کی رپورٹ کے مطابق 1989 سے دسمبر 2013 تک مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج نے ظلم و ستم کرتے ہوئے ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہیدکیا‘ 22 ہزار سے زائد خواتین بیوہ جبکہ ایک لاکھ سے زائد بچے یتیم ہوئے‘ دس ہزار سے زائد کشمیری خواتین کی بے حرمتی کی گئی۔ کشمیر کوبھارتی فوج نے اپنے ظلم سے جہنم میں تبدیل کررکھا ہے۔ ان حالات میں نہ تو پاکستان اور بھارت ایک دوسرے پر اعتماد کر سکتے ہیں نہ تجارت کو فروغ مل سکتا ہے اور نہ ہی دوستی ہو سکتی ہے۔ اگر ہو بھی جاتی ہے تو ناپائیدار ہو گی جس کی حیثیت کچے دھاگے سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔