میر پور(یو این پی) مسئلہ کشمیر پر پاک بھارت تناؤ اپنے عروج پر پہنچ چکا ہے ،مسئلہ کشمیر شروع ہی سے دونوں ممالک میں تناؤ کا باعث رہا ہے۔تاہم دونوں ممالک میں مزاکراتی عمل بحال کرانے کیلئے عالمی کانفرنسوں کی سائیڈ لائن میں ہونیوالی ملاقاتوں اور کرکٹ ڈپلومیسی نے اہم کردار ادا کیا۔تفصیلات کےمطابق1989 میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف آزادی کی جدو جہد شروع ہوئی،،1998 میں بھارت نے ایٹمی دھماکے کیے جس کے جواب میں پاکستان نے بھی ایٹمی دھماکے کر کے خطے میں طاقت کا توازن برابر کردیا جس کے بعد 1999 میں بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی بس پر بیٹھ کر لاہور آئے اور پاکستانی ہم منصب میاں نواز شریف سے مذاکرات کیے 2004 میں پاکستان اور بھارت میں امن عمل کا آغاز ہوا ۔پاکستان اور بھارت کے مابین کشمیر کے معاملے پر تناو 68 سالہ تاریخ میں انتہائی شدت اختیار کرگیا ہے جبکہ مودی سرکار کے دورمیں دوسری مرتبہ پاک بھارت مذاکرات کھٹائی میں پڑ گئے۔جون 2009 میں بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ اور صدر آصف علی زرداری کے مابین روس میں ملاقات ہوئی اور جولائی 2009 میں مصر میں شرم الشیخ میں من موہن سنگھ اور یوسف رضا گیلانی کے درمیان ملاقات ہوئی لیکن من موہن سنگھ نے مذاکرات کا عمل بحال کرنے سے انکار کردیا،، مارچ 2011 میں من موہن سنگھ نے پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو ورلڈ کپ کے سیمی فائنل دیکھنے کے دعوت دی اور دونوں ممالک میں امن عمل کی بحالی پر بات کی۔اپریل 2012 میں اس وقت کے صدر آصف زرداری نے نئی دہلی میں من موہن سنگھ سے ملاقات کی27 مئی 2014 کو پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے نئی دہلی میں بے جے پی حکومت کے وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کیگذشتہ سال اگست میں بھی خارجہ سیکریٹری کی سطح پر نئی دھلی میں ہونیوالے مذاکرات منسوخ ہوگئے تھے جب بی جے پی حکومت نے پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کی جانب سے حریت رہنمائوں کو دی جانیوالی دعوت کو بہانہ بنا کر مذاکرات سے راہ فرار اختیار کی تھی