آج کل ہم تفکرات و بد سکونی کا شکار ہیں اور اس کے ظاہری اسباب پر غور کرتے ہو ئے ڈاکٹرز،حکما ء اور عاملوں کا رخ کرتے ہیں ڈاکٹرز اپنی رپورٹ کے مطا بق حکما ء اپنی طب و حکمت کے تحت اور عامل اپنے عملیات اور اپنی روحانیت کو سامنے رکھتے ہو ئے تشخیص کرتے ہیں اور پھر ہمیں ٹرک کی لال بتی کے پیچھے ایسے لگاتے ہیں کہ سفر اپنے اختتام کو نہیں پہنچتا البتہ انسان اپنے انجام کو پہنچ جاتا ہے مگر کبھی ہم نے یہ نہیں سوچا کہ کہیں یہ ہمارے اعمالِ بد کا نتیجہ تو نہیں ؟؟؟کہیں ایسا تو نہیں ہم نے دین و مذ ہب کو بھول کرخود ہی اپنے لیے مسائل و مشکلات کا انبار کھڑا کر رکھا ہے کیا کبھی ہم نے اپنے آپ کو خود احتسابی کے آئینہ کے سا منے کھڑا کیا ہے ؟؟؟ آخرہم ہر طرف سے زیرِ اعتاب کیوں ہیں ؟؟؟آ ج کامیابی وکا مرانی ہمارا مقدر کیوں نہیں ؟؟؟آ ج ہماری منزل ہم سے کیوں روٹھ گئی ہے ؟؟؟۔ آ ج ہم عالمی سامراجی طاقتوں کے سامنے بے بسی کا بت کیوں بنے ہوئے ہیں؟؟؟وہ کون سے سنہری اصول ہیں جن کو ہم پسِ پشت ڈال کرزمانے میں ذلیل و خوار ہو رہے ہیں اور ہمارے آ با و اجدادکن اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر معزز و کا میا ب ہو ئے وہ عدل و انصاف اور اسلامی مساوات پر اس قدر سختی سے کار بند تھے کہ اقوا م عالم ان کی کا میا بی پر رشک کر تی ہےِ چشم فلک نے وہ منا ظر بھی دیکھے جب حضورِ اقدسﷺکے آزاد کردہ غلام کا عرب کے اشراف القبا ئل قریش کی معزز لڑکی زینب بن حجش سے نکا ح ہورہا ہے۔یہ اس نبی اعظم کا نظام ہے جس کے اعجاز نے اتنا بھاری انقلا بی اقدام فر ما یا ۔ مکہ مکر مہ سے ہجرت کے بعد نبی کر یم ﷺمہاجرین اور انصار میں مواخات قائم فرما تے ہیں ۔ایک مہاجر ایک انصاری کا بھائی بن جا ئے ۔تو بلال بن رباح حبشی کو خالد بن رویحہ کا بھائی بنا دیا ۔خارجہ بن زید اور حضرت ابو بکر بھائی بن گئے ۔اور یہ بھائی چا رگی صرف الفاظ کی حد تک نہیں تھی بلکہ حقیقی بھا ئیوں کی طرح ایک دوسر ے کے درد و غم اور مسرت و شادمانی میں ہمیشہ شریک رہے ۔غزوہ موتہ میں حضرت زید ؓ کو امیرلشکر بنایا اور ان کے صاحبزادے حضرت اسامہؓ کو روم بھیجنے والے لشکر کا کمانڈر مقرر فر مایا ۔جس لشکر میں صف اول کے جلیل القدر صحابہ کرامؓ تھے۔کہ حضرت شیخین ابو بکر اور عمر فاروقؓ جیسے بھی تھے۔سعد بن ابی وقاص بھی تھے۔جو کے حضور اقدس کے رشتہ دار ہونے کے ساتھ ساتھ عشرہ مبشرہ میں بھی شامل تھے۔ابھی لشکر روانہ نہ ہو پایا کہ رسول اللہ ﷺ کا وصال ہو جاتا ہے اور آ پ اپنے رفیق اعلی کے جوار کرم میں منتقل ہو جاتے ہیں۔اور حضرت
ابو بکر صدیقؓ حضور اقدس ﷺکے جانشین مقرر ہوتے ہیں ۔اور جیش اسامہ کوروانہ کیا جاتا ہے ۔ دنیا عبرت کی نگاہ سے دیکھے کہ ا سامہ بن زید گھوڑے پر سوار مدینے سے نکل رہے ہیں ۔اور امیرالمومنین جا نشین رسول اکرم جناب صدیق اکبرؓ رکاب کے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں اور غبار اڑ رہا ہے ۔حضرت اسامہ ادب سے رک کر گھوڑے سے اترنا چا ہتے ہیں تو ابو بکر فر ما تے ہیں کہ تمہیں خدا کی قسم ہے ہر گز نہ اترنا میں تمہاری سو اری کے ساتھ چل کرراہ خدامیں خود کو غبار آلود کر لوں تو میرا کچھ نقصان نہ ہو گا۔خلیفتہ الرسول اللہ حضرت ابو بکر صدیقؓ دیر تک جیش اسامہ کے ساتھ پیدل چلتے رہے۔اسی اثنا میں انھیں خیال آیا کہ امور خلا فت کے سلسلے میں مجھے عمر فاروقؓ کی ضرورت ہے ۔تو یہ نہیں کرتے کہ انھیں رکنے کا حکم کرتے بلکہ وہ چو نکہ جیش اسامہ کے ایک سپاہی کی حیثیت سے اس لشکر میں شامل تھے اس لیے حضرت ابو بکر صدیقؓ حضرت اسامہؓ سے فرما تے ہیں ،،اگرآپ مناسب خیال کریں تو عمر کو میری معا ونت کے لیے مدینہ چھوڑ جائیں کوئی اندازہ لگا ئے !اسلامی مساوات اور انسانی عظمت کا ایک نو عمر غلا م زادہ اسلا م کے دامن میں آ کر صدیقؓ و عمر کے لیے لا ئقِ احتر ام بن جاتا ہے ۔اسی طرح امیر المومنین فاروق اعظم اپنے دورِ خلافت میں عمار بن یا سر کو کو فہ کا گو ر نر مقرر فر ما تے ہیں ۔انقلاب اسلا م سے قبل جاہل عرب بدمعا شوں کی غلامی میں شدید تکا لیف کا شکا ہو چکے تھے۔کیا آپ نے نہیں سنا؟ کہ حضرت عمر فارو ق نے اخیر وقت چھ آ د میوں کی شو ری مقرر کر دی تھی کہ یہ اپنے مشورے سے خلیفہ مقرر کر لیں اسی کے ساتھ یہ بھی فر مایا کہ اگر ابو حذ یفہ کے غلام سا لم زندہ ہوتے تو میں انہیں منصب خلا فت سو نپتا ۔سلطنت غسان کا شہزادہ جبلہ بن الیم عہدہ فاروقی میں عسا ئیت چھو ڑکر مسلمان ہو گیا۔امیر المومنین اور تمام مسلما نوں کی بہت خا طر داری کر تے تھے ۔وہ ایک بار خا نہ کعبہ کے طو اف میں مشغول تھا اس کا شاہی لباس طواف کے دوران کسی بدوی کے پا ؤ ں تلے دب گیا یہ دیکھ کر جبلہ کو بڑا غصہ آیا کہ ایک معمو لی شخص نے میرے چغہ کو پا ؤں سے دبا دیا ہے ۔اس نے بدوی کو تھپڑ مارا ۔امیر المومنین بھی موجود تھے ۔بدوی مسلمان نے ان سے شکایت کی ۔شہزادے سے جواب طلب ہوا کے تم نے خا نہ کعبہ میں ایک مسلمان کو بغیر کسی وجہ کے تھپڑ کیوں ما را ہے تو اس نے جواب دیا کہ اس نے میرے لباس پر پا ؤ ں رکھا ہے ۔اس لیے میں نے تھپڑ مارا ہے تو میں نے کون سا ظلم کیا ہے ؟۔تو امیر المومنین نے فر مایا کہ اسلا م میں ہر انسان برابر ہے ۔اور برابری کا درجہ رکھتا ہے ۔اور طواف کے دوران ایساہو جا تا ہے ۔اور یہ عین ممکن ہے تم نے اس پر زیا دتی کی ہے ۔اسے راضی کرو ورنہ قانونی لحاظ سے بد لہ لیا جا ئے گا ۔جبلہ
نے کہا کہ مجھے ایک یوم کی مہلت دی جا ئے تو اسے ایک دن کا مو قع دیا گیا اور وہ راتوں رات بھاگ گیا اور مرتدہو گیا انسانی مساوات کا قانون اتنا پختہ ہے کہ اس کے نز دیک شاہ گدائی میں کوئی امتیاز نہیں ۔جبلہ کی شہزادگی کے تیور پریہ قانون گراں گزار اور اس بد نصیب نے اسلا م کا قلا وہ گلے سے اتار پھینکا اور مستحقِ نارہوا۔ملک شام کے علاقے میں مجاہدین اسلام کفار سے نبر د آز ماہیں۔دشمن زیر ہو رہے ہیں ۔اسی اثنا میں دشمن کی جا نب سے پیش کش ہو ئی کہ ہم لوگ بیت المقدس کی کنجیاں بغیر کسی حرب وضرب کے آپ لوگوں کے حوالے کرنے کو تیار ہیں مگر ہم خود مسلمانوں کے خلیفہ اور امیر المومینن سے معا ملہ کرنا چا ہتے ہیں ۔مدینہ طیبہ حضرت عمر فاروق کے پا س قا صد بھیجا گیا امیر المومنین آنے کو تیار ہو گئے ۔شام اور علا قہ بیت المقدس میں خلیفتہ المومنین والمسلمین کی آمد کا غلغلہ مچ گیا ۔وقت مقرر پر اہل شام گھروں سے باہر نکل آ ئے اور مسلمانوں کے با عزت اور با عظمت خلیفہ کی زیارت کے منتظر ہو گئے ۔کچھ دیر بعد گردوغبار کا دامن چاک ہوااور ایک اونٹ پر ایک سوار اور مہار پکڑے ہوئے ایک شخص برآ مد ہوئے ۔یہ بھلہ کون تھے جن کو خلیفہ دوم ہونے کا شرف حاصل ہواجو کہ رسول ﷺکے سسر بھی تھے جو کہ چلتے پھرتے جنتی تھے یہ میرا اہل دنیا سے چیلنج ہے ؟آ ج انسان نے ترقی کی ہے بہت کی ہے انسان نے ہواؤ ں کو زیر کرنے کا دعوی کیا ہے ۔آ ج کے سا ئنسدان نے طرح طرح کے ہتھیار بنائے ہیں قسم قسم کے آلات بنائے ہیں مگر اسلا م کے آ ئینہ کو سا منے رکھ کر میرا چیلنج قبول کیجیے اور جواب دیجیے کہ جب زلز لہ آئے تو انسان کے بنائے ہوئے ہتھیار کہاں جاتے ہیں اس کی طاقت کیوں ختم ہو جاتی ہے مانہ کہ ترقی کی ہے بہت کی ہے جب زلز لہ آ تا ہے تو زمین تھر تھرا اٹھتی ہے اس کی کپکپا ہٹ کے با عث اس کی تھر تھراہٹ کے با عث لا کھوں لوگ بے گھر ہو جا تے ہیں تو مو جو دہ دور کا عقلمند انسان کہتا ہے کہ زمین کی پلیٹوں میں تبدیلی رو نما ہو ئی جس کی ہجہ سے زلزلہ آ یا ہے ۔ تو میرا چیلنج ہے کہ انسان نے ہوائی جہاز بنایا یا چاند کی سیر کی مریخ پر پہنچا اور دو سرے سیاروں پر قدم جمائے تو وہ زمین کی نئی پلیٹیں کیوں نہیں بنا لیتا تا کہ لوگ اس مصیبت سے بچ جا ئیں مگر قربان جا ؤں نبی کے اس ولی پر بنی کے اس نا ئب پر جس کی ٹھوکر کے با عث زمین کانپنا چھوڑ دیتی ہے ۔جس کے حکم پردریا بہنا شروع ہو جا تے ہیں جس کے حکم سے زمین کی زر خیزی بڑھ جا تی ہے ۔زمین تیل اگل دیتی ہے ۔ جس کے خوف سے انسان تو کیا بکری اور شیر ایک گھاٹ سے پانی پی رہے ہیں۔ و ہ کون تھا جس کا حکم انسانوں، مسلمانوں اور جمادات و حیوانات
سب پر بھاری تھا وہ تھا مسلمانو ں کا خلیفہ دوم نام جس کا عمر فارو قؓ تھا تو عرض کر رہی تھی کہ جب عمرفارو قؓ اور ان کا غلام بیت المقدس کے قریب پہنچے ہیں تو غلا م او نٹ پر سو ار ہے اور خود امیر المومنین مہار پکڑے
آ رہے ہیں جب مستقر قریب آ یا تو غلا م نے عرض کی کہ یا امیر المومنین لوگ آ پ کے استقبال کے لیے آ رہے ہیں اور آپ پیدل چل رہے ہیں آ پ اونٹ پر تشریف رکھیں اور میں پیدل چلتا ہو ںآ پ نے
قبول نہ فر مایا اور کہا کہ میری اونٹ پر سواری کی باری ختم ہو چکی ہے ۔اب تمہارے سوار ہونے کی باری ہے ۔اور عمر سے یہ نہیں ہو سکتا کہ دوسرے کی حق تلفی کرے۔اہل شام نے اونٹ پر سوارغلام کو مسلما نوں کا امیر سمجھامگر غا زیان اسلا م نے بتایا کہ امیر المومنین وہ ہیں جو غلام کو اونٹ پر بٹھائے ہو ئے آ رہے ہیں ۔مساوات اور ادائے حق کی اس تا بندہ مثال کو دیکھ کر اہل شام نے اپنا سر خم کر دیا اور بیت المقدس کی کنجیا ںآپ کے قدموں میں ڈال دیں۔قانونِ اسلا می اپنے اندر مسا وات کا مستحکم اصول رکھتا ہے ۔ اور یہ صرف کتا بوں کی مرقوم باتیں نہیں بلکہ روئے زمین کے سچے حقائق ہیں ۔ تا ریخ اس بات کی شہادت دیتی ہے
کہ جب قرآن و حدیث ،اسلامی قانون او رشریعت محمدیﷺ نا فذ تھی تو راعی اور رعا یاسب پر احساس غا لب تھا کہ ہم سب کو رب العا لمین احکم الحا کمین جیسی عظیم طاقت و قوت کے سا منے پیش ہو نا ہے ۔ اسی جذبے ،احساسِ ذمہ داری،اور قانونِ مسا وات نے سب کو ایک ہی صف میں لا کر کھڑ اکر دیا تھااور ثا بت کیا تھاکہ قانون کی نگاہ کو ئی ممتاز نہیں ۔سب برابر اور مسا وی ہیں۔ کا میا ب زند گی گز ارنے کے لیے ان اصو لو ں کو اپنا نا ہو گا بحثیت قوم بلند اور ممتاز مقام حاصل کرنے کے لیے ہمیں ان سنہری اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ہو گا ۔اگر سا مراجی طاقتوں کے سا منے سینہ تان کر کھڑے ہو نا ہے ۔تو پھر مساواتِ محمدی ﷺاور قرآن و حد یث کے بتا ئے ہو ئے عدل وانصاف کا قانون اپنے اوپر نا فذ کر نا ہو گا ورنہ ہم یہ ہی کہہ سکیں گے
وہ زما نے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
ہم خار ہو ئے طارق قر آں ہو کر