کچھ عرصے سے اہل قلم حضرات نے پاکستان کی قومی زبان اردو کے نفاذ کے لئے شاندار خدمات سرانجام دیں ہیں کیونکہ یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ قوموں کی ترقی میں مادری اور قومی زبان نہایت ہی اہمیت کی حامل ہوتی ہے ، زبان سے ہی اشخاص اور معاشرے کا تہذیب و تمدن منسلک ہوتا ہے۔ قومی زبان کے نفاذ کے لئے میڈیا نے بھی اپنی زمہ داری احسن طریقے سے نبھائی ہے۔ مختلف طبقہ فکر کی جانب سے اردو کے نفاذ کے لئے پاکستان سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کیا گیا۔ پاکستان سپریم کورٹ کے ججز صاحبان نے مقدمہ کو خصوصی دلچسپی سے سنا ، اور نفاذ اردو کے لئے حکومت سے جواب طلب کیا گیا۔الحمد اللہ اہل قلم حضرات کی محنت رنگ لائی اوربالاآخر وفاقی حکومت نے پاکستان سپریم کورٹ میں جواب داخل کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ نفاد اردو کے لئے حکومتی سطح پر کوششیں کی جارہی ہیں ۔ جلد ہی پاکستان کے تمام سرکاری اداروں میں سرکاری و قومی زبان اردو نافذ کردی جائے گی۔ مگرتاحال اس میں صرف پاکستان سپریم کورٹ کی جانب سے عملی پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے کہ پاکستان سپریم کورٹ کے نومنتخب چیف جسٹس صاحب نے اردو میں حلف اٹھایا اور اردو میں تقریر کی اور مقدمات کے فیصلے اردو میں لکھے۔ اس کے علاوہ حکومتی سطح پر کوئی اقدامات قابل بیان نظر نہیں آئے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سپریم کورٹ میں جواب جمع کروانے کے بعد وفاقی حکومت اداروں میں فوری طور پر اردو کو سرکاری زبان کے طور پر نافذ کرتی اور سرکاری اداروں کی ویب سائٹس اردو زبان میں بناتی، مگر لکتا ہے کہ حکومت نفاذ اردو میں تاحال سنجیدہ نہیں۔اس لئے ابھی نفاذ اردو کی تحریک ختم نہیں ہوئی کیونکہ سرکاری طور پر انگریزی زبان کے نفاذ کے باعث ملک میں دس فیصد انگلش بولنے والے غالب اور نوے فیصد عوام مغلوب ہیں۔ گزشتہ دنوں ہمارے عزیز دوست برادرم رانا تصویر احمد صاحب کو انجمن فروغ اردو پاکستان کی جانب سے نفاذ اردو کی تحریک چلانے کے لئے پنجاب کا صدر منتخب کیا گیا ہے۔
پاکستان کی ترقی میں اردو زبان کا نفاذ بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگرچہ ریاست پاکستان کی اس بنیاد سے اختلاف کرنے اور اس بنیاد کو کھوکھلا کرنے والوں کی بھی کمی نہیں، لیکن انھیں تحریک پاکستان سے کوئی ایسا حوالہ نہیں ملتا، جس سے وہ اردو کے سوا کسی دوسری زبان کو پاکستان کی قومی زبان کے طور پر ثابت کر سکیں۔ قائداعظم نے 1948ء میں ڈھاکا میں اردو کو قومی زبان قرار دیا۔ قیام پاکستان سے پہلے سب ہی متفق تھے کہ اس مملکت کی زبان اردو ہوگی۔ مملکت خداداد پاکستان کا شمار باقاعدہ رائے شماری کے ذریعے وجود میں آنے والی ریاستوں میں ہوتا ہے۔ جب ریاست ایک ضابطے کے تحت وجود میںآئی، تو پھر اس کی بنیاد سے انحراف مناسب نہیں۔بنیادی طور اس کے قیام میں مذہب کو بھی دخل تھا۔ مذہب کے بعد دوسری اہم چیز زبان تھی۔ برصغیر میں مسلمانوں کی علیحدہ ریاست کی تحریک کے دوران ہمیشہ دو ٹوک انداز میں اردو کو نئی ریاست کی زبان قرار دیا گیا۔ گویا زبان، مذہب کے ساتھ ریاستی نظریے کی دوسری بڑی بنیاد ہے۔ریاستوں کے امور آئین کے تابع ہوتے ہیں اور آئین ریاستوں کے مقاصد پر استوار ہوتا ہے۔ آئین میں ریاست کی بنیاد کو چھیڑنے کی اجازت نہیں ہوتی، کیوں کہ آئین سے پہلے ریاست وجود میں آتی ہے، جس کا کچھ پس منظر ہوتا ہے۔
اردو اور ہندی کے تنازع نے متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں میں شدید تشویش کی لہر پیدا کی۔ یہی وجہ ہے کہ 1906 میںآل انڈیا مسلم لیگ کے قیام کے وقت سے ہی اردو کو مسلمانوں کے ثقافتی ورثے کی حیثیت سے اپنے منشور میں شامل کیے رکھا۔ 1946 میں پاک و ہند کی پہلی عبوری حکومت میں سردار عبدالرب نشتر وزیر ڈاک وتار بنائے گئے تو پہلی بار ریلوے کے نظام الاوقات، ٹکٹوں اور فارم پر اردوکو اختیار کیا گیا۔ 1946 میں مسلم لیگ کے اجلاس میں فیروز خان نون نے انگریزی میں تقریر شروع کی تو ہر طرف سے ’’اردو۔اردو‘‘ کی آوازیں آئیں۔ جس پر انھوں نے چند جملے اردو میں کہے اور پھر انگریزی میں شروع ہو گئے، مجمع سے پھر اردو اردو کا مطالبہ ہوا، تو انھوں نے کہا کہ ’’مسٹر جناح بھی تو انگریزی میں تقریر کرتے ہیں۔‘‘ یہ سننا تھا کہ قائداعظم کھڑے ہوئے اور فرمایا ’’فیروز خان نے میرے پیچھے پناہ لی ہے، لہٰذا میں اعلان کرتا ہوں کہ پاکستان کی زبان اردو ہو گی۔ ‘‘
پاکستان کے قیام کے ذریعے مسلمانان برصغیر نے ایک ایسی ریاست کی جدوجہد کی، جس کی زبان اردو تھی۔ آئین کی دفعہ 251 کے تحت اردو کو پاکستان کی واحد قومی زبان کا درجہ تو حاصل ہے، لیکن اسے آئین میں دی گئی مقررہ مدت (1988ء تک )میں نافذ نہیں کیا جا سکا، الٹا کچھ ناعاقبت اندیش اسے قومی زبان کے رتبے سے پیچھے دھکیلنے کے درپے رہے ہیں۔ لوگوں کو جوڑنے والی شیریں زبان ’’ اردو‘‘ کو لوگوں میں دوریاں پیدا کرنے کا سبب قرار دیا جا رہا ہے۔
آج کل کچھ قوتیں اردو کو قومی زبان کا درجہ نہ دینے کے لیے سر جوڑے بیٹھی ہیں۔ اور انتہائی غیر مناسب طور پر اردو کو بھی دیگر زبانوں کی طرح لوگوں کی ایک مادری زبان قرار دیاجا رہا ہے۔ ماہرین لسانیات کا ماننا ہے کہ آج گھر وں میں اردو بولنے والوں میں بہت کم لوگوں کا پس منظر اردو کا ہے۔ اردو کے ساتھ ان کا ناتا فقط چند نسلوں پرانا ہے۔ اس کے علاوہ اردو ہی وہ زبان ہے جسے تقریباً ہر فرد ہی اپنی مادری زبان کے بعد سب سے زیادہ بہتر طریقے سے بول، سمجھ اور لکھ سکتا ہے، لہٰذا اردو کو محض مادری زبان قرار دے کر محدود کرنا نرم سے نرم الفاظ میں نا عاقبت اندیشی کے سوا کچھ نہیں۔ قائداعظم نے 24مارچ 1948ء کو ڈھاکہ یونیورسٹی میں طلبہ سے خطاب میں فرمایا کہ اگر پاکستان کے مختلف حصوں کو باہم متحد ہو کر ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے تو اس کی سرکاری زبان اردو ہی ہو سکتی ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں قومی زبان اردو کو اس کے تاریخی اور آئینی مقام سے بے دخل کرنے کی باتیں کی جا تی رہی ہیں، جو نہایت تشویش ناک امر ہے۔ جبکہ پاکستانی عوام ایک عرصے سے زور دے رہے ہیں کہ قومی زبان اردو کو تمام تر سرکاری اداروں اور عدلیہ میں نافذ العمل کیا جائے۔ نفاذ اردو کے لیے ہمارے دوست ادیبوں اور صحافیوں کی خدمات بھی لائق تحسین ہیں ۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ سست روی ترک کرتے ہوئے پاکستان کی قومی زبان ’’اردو‘‘ کو پورے ملک میں عملی طور پر نا فذ العمل کرے ۔ سرکاری دفاتر میں بولنے اور لکھنے میں اردو استعمال کی جائے ، اور سرکاری اداروں کی ویب سائٹس اردو زبان میں بنائی جائے تاکہ عوام پاکستان بھرپور طریقے سے ان سے استفادہ کرسکیں اور ملک و ملت ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔