لاہور۔۔۔ یوں تو ہر کوئی جانتا ہے کہ1965 میں پاکستان اور بھارت کے مابین ہونے والی جنگ میں بی آر بی نہر کے مقام پر خونریز معرکہ ہوا اور پاکستانی افواج نے بھارتی حملہ آور افواج کو ناکوں چنے چبوائے تاہم بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ بی آر بی نہر کو ’بی آر بی‘ کیوں کہا جاتا ہے اورپاکستان کیلئے اس نہر کی دفاعی حیثیت کیا ہے۔
تاریخی مواد اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ اس نہر کو ’اچھوگل نہر ‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے جبکہ اس کو بی آر بی نہر کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کو ’بمباں والی – راوی- بیدیاں نہر‘ کا نام بھی دیا گیا ہے۔
جسطرح اس نہر کے نام کے پیچھے دل چسپ حقائق کارفرما ہیں اسی طرح اس نہر کو کھودے جانے کے پیچھے بھی انتہائی دل چسپ امر کارفرما تھے۔ قارئین کیلئے یہ بات تجسس سے خالی نہیں ہو گی کہ پاکستان اور بھارت کی سرحد پر واقع یہ نہر لاہور کی عوام کی جانب سے 1948 میں کھودی گئی تھی۔
زندہ دلان لاہور نے صوبہ پنجاب کے پہلے وزیر اعلیٰ افتخار حسین ممڈوٹ کی اپیل پر اس وقت کھودی گئی جب انہوں نے اعلان کیا کہ اس مقام پر نہر کھودنے سے پاکستان کو بھارتی افواج کی جانب سے ممکنہ شر انگیزی سے نجات حاصل ہو جائے گی۔ ان کی اپیل پر شہریوں نے آٹھ کلومیٹر فاصلے پر محیط یہ نہر محض چند دنوں میں بلا معاوضہ ہی کھود ڈالی 1965 کی پاک بھارت جنگ میں بھی اس نہر کی وجہ سے ہی بھارتی افواج کا لاہور میں ناشتہ کرنے کا خواب تکمیل نہ پا سکا کیونکہ پاکستانی فوج نے کامیابی سے اس نہر پر موجود پلوں کی حفاظت کی اور جہاں ان کی پوزیشن کمزور تھی ان پلوں کو تباہ کر دیا گیا۔ یوں پاکستانی جوانوں نے بھارتی افواج کو اس وقت تک روکے رکھا جب تک کہ انہیں فوجی کمک نہ پہنچ گئی۔ جس کے بعد بھارتی افواج کو مجبوراً پیچھے ہٹنا پڑا۔ میجر عزیز بھٹی نے اسی نہر پر جنگ لڑتے ہوئے شہادت کا مرتبہ حاصل کیا اور نشان حیدر کے حق دار ٹھہرے۔
آج اس نہر میں سے نکالی جانے والی ایک اور چھوٹی نہر شہر لاہور کے بیچوں بیچ جلو موڑ سے ٹھوکر نیاز بیگ تک بہتی ہے اور شہر کو قدرتی خوبصورتی بخشتی ہے۔