منگل کے روز عدالت اعظمیٰ پاکستان کے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل تین رکنی بنچ نے 26 اگست2015 ء کو محفوظ کیاگیا نفاذ اردو کا تاریخ ساز فیصلہ پڑھ کر سنا دیا۔ ملک میں اْردو زبان کو بطور قومی زبان رائج کرنے کیلئے ایڈووکیٹ کوکب اقبال اورمحمود اخترنقوی نے عدالت میں الگ الگ درخواستیں دائرکررکھی تھیں، جس پر عدالت اعظمیٰ نے اردو زبان کے نفاذ اور علاقائی زبانوں کے فروغ کے حوالے سے 9 نکاتی فیصلہ سنایا۔ تفصیلی فیصلے میں جو 9 نکات دئیے گئے وہ اس طرح سے ہیں۔ (۱)۔ آرٹیکل251 کے احکامات کو بلا غیر ضروری تاخیر فوراً نافذ کیا جائے۔(۲)۔ جو میعاد ( مراسلہ مورخہ6 جولائی 2015) میں مقرر کی گئی ہے اور جو خود حکومت نے مقرر کی ہے ، اس کی ہر حال میں پابندی کی جائے جیسا کہ اس عدالت کے رو برو عہد کیا گیا ہے۔ (۳)۔ قومی زبان کے رسم الخط میں یکسانیت پیدا کرنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتیں باہمی ہم آہنگی پیدا کریں۔ (۴)۔ تین ماہ کے اندر اندر وفاقی اور صوبائی قوانین کا قومی زبان میں ترجمہ کر لیا جائے۔ (۵)۔ بغیر کسی غیر ضروری تاخیر کے نگرانی کرنے اور باہمی ربط قائم رکھنے والے ادارے آرٹیکل251 کو نافذ کریں اور تمام متعلقہ اداروں میں اس دفعہ کا نفاذ یقینی بنائیں۔(۶)۔ وفاقی سطح پر مقابلہ کے امتحانات میں قومی زبان کے استعمال کے بارے میں حکومتی اداروں کی مندرجہ بالا سفارشات پر عمل کیا جائے۔ (۷)۔ ان عدالتی فیصلوں کا، جو عوامی مفاد سے تعلق رکھتے ہوں یا جوآرٹیکل 189کے تحت اصولِ قانون کی وضاحت کرتے ہوں، لازماً اردو میں ترجمہ کروایا جائے۔ (۸)۔ عدالتی مقدمات میں سرکاری محکمے اپنے جوابات حتیٰ الامکان اردو میں پیش کریں تا کہ شہری اس قابل ہو سکیں کہ وہ موثر طریقے سے اپنے قانونی حقوق نافذ کروا سکیں۔ (۹)۔ اس فیصلے کے اجراء کے بعد، اگر کوئی سرکاری ادارہ یا اہلکارآرٹیکل251 کے احکامات کی خلاف ورزی جاری رکھے گا تو جس شہری کو بھی اس خلاف ورزی کے نتیجے میں نقصان یا ضرر پہنچے گا، اسے قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل ہو گا۔‘‘
فیصلے میں سپریم کورٹ واضح کیا ہے کہ آئین کا اطلاق ہم سب پر فرض ہے، وفاقی اور صوبائی سطح پر حکومت چلانے کیلئے ایک غیر ملکی زبان کا استعمال غیر ضروری ہے، صدر مملکت، وزیر اعظم اور تمام وفاقی سرکاری نمائندے اور افسر ملک کے اندر اور باہر اردو میں تقاریر کریں، تین ماہ کے اندر اندر وفاقی اور صوبائی قوانین کا قومی زبان میں ترجمہ کر لیا جائے، چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت خودآئینی احکامات کی پابندی نہیں کرتی تو قانونی طور پر عوام کو بھی آئین کی پابندی پر مجبور کرنے کی مجاز نہیں سمجھی جا سکتی، پورے ملک میں چھوٹی بڑی شاہراہوں کے کناروں پر رہنمائی کی غرض سے نصب سائن بورڈ تین ماہ کے اندر انگریزی کے ساتھ اردو میں بھی نصب کیے جائیں، اردو کے نفاذ و ترویج کے سلسلے میں ادارہ فروغِ قومی زبان کو مرکزی حیثیت دی جائے۔ عمل درآمد کی رپورٹ تین ماہ کے اندر عدالت میں پیش کی جائے۔ چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی فل بینچ نے اردو کو بطور سرکاری زبان رائج کرنے سے متعلق کیس کا فیصلہ بھی اردو زبان میں سنایا۔
چیف جسٹس نے کہاکہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 184(3) کے تحت دائر کردہ اِن دوآئینی درخواستوں میں ایک انتہائی اہم مسئلے کو اْجاگر کیا گیا ہے جس کا براہِ راست تعلق ہر اْس عام شخص سے ہے جو پاکستان کا باسی ہے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے جاری بیان میں کے مطابق چونکہ معاملہ آئین کے آرٹیکل 251 کے نفاذ سے متعلق ہے لہٰذا بغرضِ آسانی مذکورہ آرٹیکل کا متن بھی ذیل میں دیا جا رہا ہے ’’قومی زبان: 251(1) پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور آغاز سے پندرہ سال کے اندر اندر یہ انتظام کیا جائے گا کہ اس کو سرکاری اور دیگر مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے۔ ذیلی دفعہ (1) کے اندر رہتے ہوئے انگریزی زبان اس وقت تک سرکاری زبان کے طور پر استعمال کی جا سکے گی جب تک اس کے انتظامات نہیں کیے جاتے کہ اس کی جگہ اردو لے لے۔ قومی زبان کے مرتبہ پر اثر انداز ہوئے بغیر ایک صوبائی اسمبلی بذریعہ قانون ایسے اقدامات کر سکتی ہے جس کے ذریعہ صوبائی زبان کے فروغ، تدریس اور قومی زبان کے ساتھ ساتھ اس کے استعمال کا بھی بندوبست کیا جا سکے‘‘۔
بیان میں کہا گیا کہ ایک غیر ملکی زبان میں لوگوں پر حکم صادر کرنا محض اتفاق نہیں یہ سامراجیت کا ایک پرانا اور آزمودہ نسخہ ہے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ یورپ میں ایک عرصے تک کلیسائی عدالتوں کا راج رہا جہاں شرع و قانون کا بیان صرف لاطینی زبان میں ہوتا تھا، جو راہبوں اور شہزادوں کے سوا کسی کی زبان نہیں تھی۔ یہاں برِ صغیر پاک و ہند میں آریائی عہد میں حکمران طبقے نے قانون کو سنسکرت کے حصار میں محدود کر دیا تا کہ برہمنوں، شاستریوں اور پنڈتوں کے سوا کسی کے پلے کچھ نہ پڑے۔ بیان کے مطابق فی الواقع اس معاملے کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا تاہم جس انداز میں حکومت پاکستان نے اِس معاملے کو لیاہے وہ بہت ہی سرسری اور غیر سنجیدہ ہے۔ بیان کے مطابق سماعت کے دور ان جاری کر دہ حکم ناموں سے عیاں ہے کہ آئین کے احکامات کے نفاذ کیلئے زبانی خاطر جمع سے بڑھ کر کوئی ٹھوس عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ جیسے اسے آئین کے آرٹیکل 251 پر عمل نہ کرنے کا حق یا اجازت حاصل ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ یہاں ہم آئین کے آرٹیکل5 کا حوالہ دینا چاہیں گے جس کے تحت آئین کی پابندی ہر شہری کا لازمی و بلا استثناء فریضہ ہے۔ اگر حکومت خود آئینی احکامات کی پابندی نہیں کرتی تو وہ قانونی طور پر عوام کو بھی آئین کی پابندی پر مجبور کرنے کی مجاز نہیں سمجھی جا سکتی۔ فیصلے میں مذید کہا گیاکہ ہم یہاں حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ کے واقعہ سے سبق لے سکتے ہیں۔ ایک ماں ان کی خدمت میں اپنے بچے کو لائی اور شکایت کی کہ اس کا یہ بیٹا شکر بہت کھاتا ہے اس لیے اس کو اس عادت پر تنبیہ کی جائے۔ بابا صاحب نے خاتون سے کہا کہ وہ بچے کو ایک ہفتے بعد دوبارہ لے کر آئے۔ جب وہ دوبارہ بچے کو لے کر آئی تو بابا صاحب نے بچے کو شکر کھانے سے منع فرمایا اور وہ باز آ گیا۔ خاتون نے بابا صاحبؒ سے پوچھا کہ جب وہ پہلی مرتبہ بچے کو لے کر آئی تھی تب ہی منع کیوں نہ فرمادیا؟ بابا صاحبؒ نے فرمایا کہ اس وقت وہ خود بھی شکر کا بہت استعمال کرتے تھے لہٰذا وہ بچے کو کس طرح اسے چھوڑنے کی تلقین کر سکتے تھے؟ ایسا لگتا ہے کہ ار باب حکومت اس دانش کی معنویت کو نہیں پا سکے ہیں۔ فیصلے میں کہا گیا کہ اگر دستور کو ایک کل کے طور پر پڑھا جائے تو یہ بات فوراً واضح ہوجائے گی کہ دفعہ 251 کوئی ایسی چیز نہیں جو باقی دستور سے الگ تھلگ ہو۔ فیصلے کے مطابق(i) مقابلے کے امتحانات میں عملی اردو کا ایک لازمی پرچہ ہونا چاہیے جس کے کل نمبر50 ہوں۔(ii) اردو ادب کا ایک اختیاری پرچہ متعارف کرایا جائے جس کے200 نمبر ہوں۔(iii) مقابلے کے امتحانات کے لیے اردو کو فوری طور پر زبان کے طور پر اپنایا جائے اور تمام پرچہ جات اردو اور انگریزی میں دیے جائیں‘‘۔ فیصلے میں کہا گیا کہ اور بھی کئی کمیٹیاں بنائی گئیں اور وہ وقتاً فوقتاً اپنی سفارشات پیش کرتی رہیں۔ بذریعہ مراسلہ ہذا گزارش ہے کہ منسلکہ لائحہ عمل پر عمل درآمد کرنے کے لئے فوری طور پر اقدامات شروع کر دئیے جائیں۔ فیصلے میں جوائنٹ سیکرٹری کابینہ وتمام وزارتوں اور ڈویژ ن کے سیکرٹریز اور ایڈیشنل سیکرٹریز ،انچارج صاحبان ، سیکرٹری برائے وزیر اعظم ، وزیر اعظم آفس ، سیکرٹری وزارتِ اطلاعات، نشریات و قومی ورثہ حکومتِ پاکستان اسلام آبادسمیت دیگر اداروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ وفاق کے زیر انتظام کام کرنے والے تمام ادارے (سرکاری و نیم سرکاری) اپنی پالیسیوں کا تین ماہ کے اندر اردو ترجمہ شائع کریں۔ وفاق کے زیر انتظام کام کرنے والے ادارے(سرکاری و نیم سرکاری) تمام قوانین کا اردو ترجمہ تین ماہ میں شائع کریں۔ وفاقی حکومت کے زیر انتظام کام کرنے والے تمام ادارے(سرکاری و نیم سرکاری) ہر طرح کے فارم تین ماہ میں انگریزی کے ساتھ اردو میں بھی فراہم کریں۔ تمام عوامی اہمیت کی جگہوں مثلا عدالتوں، تھانوں، ہسپتالوں، پارکوں، تعلیمی اداروں، بینکوں وغیرہ میں رہنمائی کے لیے انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی بورڈ تین ماہ کے اندر آویزاں کیے جائیں گے۔ پاسپورٹ آفس، محکمہ انکم ٹیکس، اے جی پی آر، آڈیٹر جنرل آف پاکستان، واپڈا، سوئی گیس، الیکشن کمشن آف پاکستان، ڈرائیونگ لائسنس اور یوٹیلٹی بلوں سمیت تمام دستاویزات تین ماہ میں اردو میں فراہم کریں۔ پاسپورٹ کے تمام اندراجات انگریزی کے ساتھ اردو میں بھی منتقل کیے جائیں۔ وفاقی حکومت کے زیر انتظام کام کرنے والے تمام ادارے(سرکاری و نیم سرکاری) اپنی ویب سائٹ تین ماہ کے اندر اردو میں منتقل کریں۔ پورے ملک میں چھوٹی بڑی شاہراہوں کے کناروں پر راہ نمائی کی غرض سے نصب سائن بورڈ تین ماہ کے اندر انگریزی کے ساتھ اردو میں بھی نصب کیے جائیں۔ فیصلے کے مطابق تمام سرکاری تقریبات/ استقبالیوں کی کارروائی مراحلہ وار تین ماہ کے اندر اردو میں شروع کی جائے۔‘‘
بلاشبہ عدالت اعظمیٰ پاکستان کا یہ مفصل اور تاریخ ساز فیصلہ پاکستان او رعوام پاکستان کی ترقی میں ممدون ثابت ہوگا، اس تاریخ ساز فیصلے پر عمل درآمد سے ہم دنیا بھر میں خود کو ایک بہترین اور مثالی قوم ثابت کرپائیں گی۔عدالت اعظمیٰ کے اس فیصلے سے عوام پاکستان میں نہایت خوشی پائی جاتی ہے۔الحمد اللہ پاکستان کے دانشوروں، اہل قلم حضرات، وکلاء ، صحافیوں ، تاجروں اور سول سوسائٹی کے افراد اور پاکستان بھر کے محنت کشوں، کسانوں کی دعائیں رنگ لائیں کہ ہمیں قیام پاکستان کے ارسٹھ سال بعد ظالم انگریزوں کی مسلط کردہ زبان سے نجات میسر آرہی ہے، عدالت اعظمیٰ کے اس تاریخی فیصلے سے ظلم کا اندھیرا چھٹا ہے اور روشنی کی کونپل پھوٹی ہے کہ اب اپنی زبان ہوگی، ملک کا مضبوط نظام ہوگا ، کہ ہر شہری قانون سے واقف ہوگا، ہر شہری قانون پاسدار ہوگا۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ حکو مت پاکستان کو چاہیے کہ وہ عدالت اعظمیٰ کے فیصلے پر فوری طور پر عمل درآمد کرتے ہوئے تمام سرکاری اداروں میں مکمل طور پر اردو زبان نا فذ العمل کرے ، اداروں میں کمپیوٹرز کا اردو سافٹ ویئر بنوایا جائے، تاکہ عوام پاکستان کو نفاذ اردو کے ثمرات جلد از جلد میسر آسکیں۔