جمہوری ریاست کو ہمیشہ مذہب ،ذات پات،نسل اور علاقائی پسِ منظر سے بالاتر ہو کر مساوی شہری حقوق کے اصولوں پر عمل پیر ا ہونا پڑتا ہے اور خالص جمہوری نظام میں یہ چند خصوصیات لازم شامل ہوتی ہیں جیساکہ شفاف اور منصفانہ انتخابات ،آئین کی بالادستی ،قانون کی حکمرانی اور لوگوں کو ان کے اظہار کی مکمل آزادی وغیر ہ۔ جمہوریت کو ملکی معاملات کو بہتر طریقے سے چلانے اور معاشرتی امور کو منظم کرنے کے لئے ایک بنیا دی عنصر سمجھا جاتا ہے۔دوسرے لفظوں میں یہ ایک ایسا فارمولا ہے کہ جس کی وجہ سے ایک ملک سنوربھی سکتا ہے نیز ترقی کی راہوں پر گامزن بھی ہو سکتا ہے ۔ اس فارمولے کے استعمال کی سب سے اچھی شکل بلاشبہ ہمیں صرف ترقی یافتہ ممالک میں ہی ملتی ہے۔
جمہوریت کا عالمی دن ہر سال کی طرح اس سال بھی 15ستمبر کو پاکستان سمیت دنیا کے دیگر ممالک میں منایا جارہاہے جس کا بڑا مقصد جمہوریت یا جمہوری نظام کی اہمیت بارے عوام میں آگاہی کو بڑھانا ہے۔اس دن کو سالانہ طور پر منانے کا حتمی فیصلہ یونائیٹڈ نیشن جنرل اسمبلی نے 2007ء میں کیا تھا۔ اگر ماضی میں نظر دوڑایں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ پاکستان کے شروع میں تو حکمرانوں نے ڈیموکریسی پر ذیادہ توجہ نہیں دی کیونکہ اس وقت ملک کو بہت سے اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا تھا۔تاریخ بھی بتاتی ہے کہ پاکستان کے سیاسی نظام کو ہمیشہ سے ہی فوجی آمریت نے متاثر کیا ہے اور یوں کسی بھی دور میں جمہوریت کو پاکستان جیسے ملک میں مکمل نشونما کا موقعہ ہی نہیں مل سکا۔ یہ حقیقت ہے کہ سماجی ،سیاسی اور اقتصادی ترقی کے لئے جمہوری نظام ایک اہم حیثیت رکھتا ہے۔اس نظام کو ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے اور اس کے بغیر ایک بہتر سسٹم چلانا ناممکن نظر آتاہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ صد افسوس کہ پاکستان میں بیچاری جمہوریت بہت ہی بدنام ہو چکی ہے ۔قومی اسمبلی کا اجلاس ہو یا ٹی وی پر کوئی انٹرویو ہمارے سیاستدانوں نے ہر جگہ جمہوریت ،جمہوریت کی رٹ لگا ئی ہوتی ہے ۔ یہ لفظ تو بس ان کا تکیہ کلام بن چکا ہے ۔ ان کی مثال بھی ایک اس طوطے کی طرح ہے جو خود سے کہہ رہا ہوتا ہے ’میاں مٹھو چوری کھانی ہے‘ ۔ اس طرح پاکستان میں جمہوریت صرف حکمرانوں کو ہی نظر آ رہی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عوام اس سے مکمل طور پر محروم ہے اور شائد عوام سے پنہاں ہے یہ جمہوریت۔شائد جمہوریت کا سورج صرف پارلیمنٹ کی حدود میں ہی طلوع ہوتا ہے اور یقیناًوہی غروب ہو جاتا ہے اور اس کی آب و تاب صرف اور صر ف پارلیمنٹ کی چار دیواری تک ہی محدود رہتی ہے۔حیرانگی ہے ایسے حکمرانوں پہ ان کے نزدیک نہ جانے کس شے کا نام ہے جمہوریت ۔یہ کس کو کہتے یا سمجھتے ہیں ڈیموکریسی۔ دیکھیں جس ملک میں قانون بکتا ہو ۔انصاف کی بولی لگتی ہو،بدعنوانی کا راج ہو ،ناجائز ٹیکسوں اور بلوں بلخصوص بجلی کے بلوں کے زریعے عوام کو لوٹا جاتا ہو۔ناجائز منافع خوری کی جاتی ہو۔مظلوم انصاف کے لئے در بدر کی ٹھوکریں کھاتا ہو ۔مہنگائی و بے روزگاری کی انتہا ہو۔صحت کی سہولیات کا فقدان ہو۔جہاں سرکاری ہسپتالوں کی دوائیاں باہر میڈیکل سٹوروں پر بکتی ہوں۔میٹر لگوانے کے لئے سرکاری فیس کے ساتھ رشوت شرط ہو۔لوگ غربت کے ہاتھوں خود کشیاں کر رہے ہوں ۔اپنے حق کے لئے ریلیاں و جلوس نکالے جاتے ہوں اور دھرنے دیئے جاتے ہو۔ہر سو بغاوت کی فضاء ہو۔مفاد پرستی اور لوٹ کھسوٹ کا بازار سرگرم ہو۔عزت اور جان و مال محفوظ نہ ہو۔جہاں نہ انصاف ہو نہ ہی احتساب ہو۔جہاں حکمران تو عیاشی کی ذندگی گزارتے ہوں لیکن ایک غریب اپنی تقدیر کوکوستا ہو۔تو کیا ان تمام مسائل کے ہوتے ہوئے کسی ملک میں جمہوریت ذندہ رہ سکتی ہے۔اب نہ جانے یہ حکمران کس جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں ۔کہیں عوام کی تذلیل ہی جمہوریت تو نہیں اگر یہ سب جمہوریت ہے تو اس ملک کی عوام ایسی جمہوریت سے اللہ کی پناہ چاہتی ہے۔قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ ’ ’ جمہوریت مسلمانوں کے خون میں شامل ہے جو انسانوں کی مکمل برابری ،برادری ،مساوات اور آزادی میں یقین رکھتے ہیں‘‘۔جمہوریت کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ شفاف اور منصفانہ انتخابات کی یقین دہانی ، ۔لیکن جس ملک میں الیکشن ہی مشکوک ہوں بلکہ دھاندلی زدہ ہوں تو پھر وہاں ایک غیر جمہوری طریقے سے آنے والا حکمران جمہوریت کا کیا خاک نفاذ کرے گا۔جب چوروں اور لٹیروں کو ہی محافظ بنا دیا جائے تو نتیجہ کیا نکلے گا اس کا اندازہ قبل از وقت بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔ یار رہے کہ جس ملک میں حقیقی جمہوریت ہوتی ہے تو وہاں کی عوام حکومت سے نہیں بلکہ حکومت عوام سے خوفزدہ ہوتی ہے اور ان کے حقوق کے لئے ہر وقت کوشاں رہتی ہے لیکن ہمارے ملک میں جو سسٹم رائج ہے وہ عوامی مسائل کو حل کرنے میں مکلمل طور پر ناکام ہو چکاہے۔
پاکستان میں جمہوریت کو شباب کی منزل تک نہ پہنچانے والے چند بڑے عوامل یہ ہیں جیساکہ ہمارے حکمرانوں کا شاہانہ طرزِذندگی ، اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال،اقرباء پروری کی روایت کا وجود،چیک اینڈ بیلنس کا کوئی رواج نہیں اور احتساب نہ ہونے کے برابر ہونا۔کرپٹ لیڈران اور افسران کی تعیناتی وغیرہ ۔ایک اچھا لیڈر حکمرانی کرنے نہیں بلکہ عوام کی خدمت کے لئے آتا ہے۔اگر عوام اپنی طاقت سے کسی کو تخت پر بٹھاتی تو اس کا تختہ الٹا نے کی طاقت بھی عوام ہی کے پاس ہوتی ہے۔توآج اگر پاکستانی عوام یہ سمجھتی ہے کہ وہ واقعی اپنے حقوق سے محروم ہے توآؤ اپنی اس طاقت کا پھر سے استعمال کریں ایک بار پھر سے متحد ہو جائیں ۔اس وطن کے مفاد کا سوچیں ۔آؤ ایک نئی دنیا کے لئے لڑیں ایک ایسی مہذب دنیا کے لئے جس میں ایک بہتر ین نظام رائج ہو۔جہاں لوگوں کو روزگار ملے۔نوجوانوں کو ان کا مستقبل اور بوڑھوں کوبڑھاپے میں مالی تحفظ۔ہمیں سب سے پہلے اس ملک سے نفرت و لالچ کا خاتمہ کرنا ہو گا، عوام کی رائے کو ترجیح دینا ہوگی اور ہمیں ایک بامقصد دنیا کے لئے پھر سے ایک ایسی کوشیش کرنا ہو گی جس میں ہر انسان کو ہر خوشی باآسانی میسر ہو سکے۔پاکستان کو اگر ایک حقیقی جمہوری ریاست بنانا چاہتے ہیں تو سب سے اول قدم یہ ہو کہ یہاں میرٹ کی بنیاد پر ایماندار اور باصلاحیت لوگوں کو منتخب کیا جائے دوسرا قانون کی حکمرانی ہو نی چاہئے کیونکہ قانون کی نظر میں سب شہری برابر ہوتے ہیں لہذا ہر جرم کرنے والے کو اس کی ذاتی شخصیت کو نظرانداز کر کے سزا ملنی چاہیے اور کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہونا چاہیے۔اگر ملک میں واقعی جمہوریت ہوتی توشائد وزیراعظم کو کبھی ’’گو نواز گو‘ ‘ کے نعرے نہ سننے پڑتے۔