ویسے تو حکمرانِ اعلیٰ اوراعلیٰ حاکمیت اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے، مگر اللہ تعالیٰ نے جب اس دنیا میں انسان کو پیدا کرنا چاہا تو اسی انسان کو اپنا خلیفہ اور نائب مقرر کر لیاتاکہ وہ زمین میں فساد کرنے والے لوگوں کی اصلاح کرتے رہے اور لوگوں کو فساد سے بچاتے رہے اور وقتاً فوقتاً لوگوں کو اپنی اصلاح کی ترغیب دیتے رہے،مگر جب انسان نے اس دنیامیں آنکھ کھولی تو وہ سب کچھ بھول چکا تھا،اور اپنے مقصدِ زندگی کوئی اور چیز بنا چکا تھا،مگر پھر بھی انسانوں میں کچھ انسان ایسے گزرے ہیں کہ اس دنیا میں بھی اپنے رب کو راضی کرنے میں لگے رہے تھے،یہاں تک کہ دنیا میں ان کو جنت کی ڈگری مل گئی اور یوں بھی نہیں کہ دنیا میں ان کا اور کچھ کام نہیں تھابلکہ صرف اور صرف عبادت میں لگے رہے تھے،نہیں نہیں ہر گز نہیں،دنیامیں بھی ان کے بال بچے تھے ،اہل وعیال تھی اور اس کے علاوہ قیصر وکسریٰ اور ڈیروں مربع میل پر ان کی حکمرانی تھی اور اپنے حکمرانی میں جس کو قاضی مقرر کیا تو پھر اسی کو خود بھی قاضی تسلیم کیا،اس زمانے میں تو رشوت نام کی کوئی چیز تھی ہی نہیں،ہوا یوں کہ حضرت عمرؓ مسجد نبوی ﷺ میں تشریف فرما تھے،بادشاہِ وقت تھے تو لوگ اپنے مسائل مسجد نبویﷺ لیکر آتے تھے،تو ایک دفعہ بارش برس رہی تھی حضرت عباسؓ کا گھر چونکہ مسجد نبوی ﷺ سے متصل تھا تو ان کے گھر کا پرنالہ مسجد نبویﷺ کی طرف تھااس سے پانی آتے تھے تو نمازیوں کو تکلیف ہوتی تھی،تو حضرت عمرؓ نے اس پرنالہ کو اکھاڑ پھینکا،حضرت عباسؓ اس وقت موجود نہیں تھے،جب ان کو پتہ چلا تو سخت برہم ہو گئے،اور قاضی وقت حضرت ابی ابن کعبؓ کے ہاں مقدمہ درج کر کے انصاف چاہا،تو حضرت ابی ابن کعبؓ نے دنیا کے سب سے بڑے حکمران حضرت عمرؓ کو ایک خط روانہ کیا کہ عم رسول اللہﷺ نے آپ پر شکایت دائر کر کے انصاف چاہا ہے،لہٰذاآپ فلاں دن حاضر ہو کر مقدمہ کی پیروی کرے،اگر یہ ہمارے اس دنیا کا کوئی بادشاہ یا حکمران ہوتا تو یہ اپنے لیے سخت توہین سمجھتا،مگر خلیفہ وقت سادہ لبادہ پہن کر مقررہ تاریخ پر حاضر ہوئے،جب ابی ابن کعبؓ کے گھر میں جانا چاہا تو اجازت نہیں ملی کیونکہ وہ فیصلوں میں بہت مصروف تھے،اور جوب ملا کہ باہر انتظار کرلو!خلیفہ وقت حضرت عمرؓ نے گھر کے باہر کافی وقت انتظار کیاجب داخل ہونے کی اجازت مل گئی تو حضرت عمرؓ نے کچھ کہنا چاہا مگر ابی ابن کعبؓ نے منع کیا اور کہا کہ بات اُصولوں کی بناء پر ہوگی کہ پہلے مدعی کاحق ہے کہ وہ اپنا دعویٰ پیش کرے،تو حضرت عباسؓ نے سارا واقعہ سنایا کہ اس پرنالے کے نصب کرنے کے لیے مجھے نبی اکرم ﷺ نے خود حکم کیا تھا کہ یہاں نصب کرلو اور یہ پرنالہ نبی ﷺ کی عہدِمبارک میں یہی پر تھا ،حضرت ابو بکرؓ کے زمانہ میں بھی یہی پر تھا،کسی نے کچھ نہیں کہامگر اب حضرت عمرؓ نے اس کو اکھاڑا ہے۔پھر حضرت عمرؓ نے فرمایاکہ میں نے اس لئے اکھاڑا ہے کہ اس سے نمازیوں کو تکلیف تھی۔پھر حضرت عباسؓ نے فرمایاکہ حضورﷺ نے مھجے کہاتھا کہ میرے کندھوں پر چڑھ کر اس پرنالہ کو لگاؤلیکن میں نے نہیں مانا جب نبیﷺ نے بہت اصرار کر لیا تو میں نبیﷺ کے کندھوں پر چڑھا اور اس پر نالہ کو لگالیا،اس بات پر حضرت عباسؓ سے گواہ طلب کر دےئے گئے تو انہوں نے دو انصاری صحابہ کو گواہی میں پیش کر دیا،تو فیصلہ حضرت عمرؓ کے خلاف ہوا پھر حضرت عمرؓنے بھی اپنی قصور مان لی اور کہا کہ یہ میری غلطی ہے اب اس غلطی کا ازالہ اس سے ہوگا کہ آپ میرے کندھوں پر چڑھ کر اس پرنالہ کو لگائے،تھوڑی دیر بعد لوگوں نے بھی دیکھاکہ قیصر وکسریٰ کو شکست دینے والے حضرت عمرؓ نیچے کھڑے ہیں اور حضرت عباسؓ ان کے کندھوں پر کھڑے ہو کر پرنالہ نصب کر رہے ہیں،جب پرنالہ نصب ہوچکا تو حضرت عباسؓ نیچے کود پڑے اور فرمایا کہ یہ سب کچھ ہو ااُس حق کے لیے جو واقعی میرا تھااب میں نہایت خوشی کے ساتھ اپنے اس گھر کو اللہ کے راستے میں وقف کر دیتا ہوں تو آپ اس کو مسجدِنبویﷺ کی توسیعی مراحل میں شامل کریں تاکہ نمازیوں کو جو تکلیف ہے اس میں حتی الوسع دوری آجائے۔
قارئین کرام آمدم برسر مقصد: دنیا بھر کی تاریخ اگر ٹٹول ڈالو ،اپنے مطاع کی ایسی اطاعت و محبت،انصاف و عدل،اور مساوات کا ایسا محیر العقول کارنامہ تمہیں کہیں بھی نہیں ملے گا،یہ کوئی فرضی واقعہ نہیں بلکہ یہ ایک مستند تاریخی واقعہ ہے،اس دنیا کے حکمرانوں سے بھی پشاوری کی یہ اپیل ہے کہاگر دنیا میں ایسا نظامِ امن،عدل وانصاف اور مساوات کا نظام قائم کر لو گے تو مملکت خداد کے سارے مسائل حل ہو جائینگے،اللہ تعالیٰ ہمارے اس مملکت خداداد تو قائم دائم اور شرپسندوں سے امن میں رکھے(آمین)۔