محترم قارئین !بلدیا تی الیکشن کے حوا لے سے آئے روز ہو نے والے فیصلوں نے جہاں امیدواروں کو تذبذب کا شکار کیا ہوا ہے وہاں عوام بھی پریشان ہے کہ کس طرف جا ئیں ۔ کیو نکہ کبھی کیا فیصلہ آتا ہے تو کبھی کیا افواء گردش کر تی ہے ۔ اکثر عوامی حلقوں میں تو یہ بھی بات سننے کو ملتی ہے کہ ن لیگ کی اعلیٰ قیادت کبھی بھی اختیارات و سہولیات نچلے طبقے کو منتقل نہیں کر تے جس وجہ سے ان کا مزاج بتا تا ہے کہ بلدیا تی ماحول نہ ہی بنے تو اچھا ہو گا ۔ یوں کہ سکتے ہیں کہ بلدیاتی الیکشن ن لیگ کی اعلیٰ قیادت کے مزاج میں شامل ہی نہیں ۔
اس بلدیا تی بگل کے بجتے ہیں حلقہ این اے اکسٹھ میں ہم نے پارٹیوں کے ٹکٹ کے حصول اور پھر تقسیم کی جنگ کو دیکھا ۔ خاص کر ن لیگ کے ٹکٹوں نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی بہت زیادہ ڈراما ئی سین ریکارڈ کرا ئے ۔ جہاں اس تقسیم نے امیدواروں کی امیدوں پر پا نی پھیرا تو وہاں ہی عوام کو بھی منتشر ہو نے کا موقع فرا ہم کیا ۔ ن لیگ کے ساتھ ساتھ تھوڑا سا ماحول کا اثر لیتے ہو ئے تحریک انصاف کے اتھرے جیا لوں نے بھی ٹکٹ کی دوڑ میں” گو منصو رگو ” کے نعرے تک لگا دئے ۔
تحریک انصاف نے تو ٹکٹ تقسیم کے وقت ہو نے وا لی بدنظمی کو روک لیا تھا اور اتنی زیا دہ پریشان کن پوزیشن پر نہیں پہنچے لیکن ن لیگ کے کا رکنوں اور امیدواروں میں بہت بڑا اپ سیٹ دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ خاص کر تلہ گنگ کے ٹکٹوں کی تقسیم میں ایم پی اے سردار ذوالفقار علی خان دلہہ اور معاون خصوصی وزیر اعلیٰ پنجاب ملک سلیم اقبال میں مقا بلہ کی فضا ء دیکھنے کو ملی ۔ اس میں کو ئی دوسری را ئے نہیں کہ ملک سلیم اقبال کا دیا گیا پینل پرا نے پا پییوں کا پینل تھا اور ہر حوا لے سے مضبوط اور کامیاب پینل تھا اور مقا بلے کی صلا حیت رکھتا تھا ۔ اور دوسری طرف ایم پی اے سردار ذوالفقار علی خان دلہہ کا پینل کمزور ترین تھا ۔
لیکن ایم پی اے سردار ذوالفقار علی خان دلہہ کا موقف جب دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ سب کچھ کس وجہ سے کر رہا تھا ۔ اس کی خواہش تھی کی ن لیگ کی سیٹوں پر نئے چہر وں کو بھی متعا رف کرا یا جا ئے ۔ ان پرا نے پا پیوں نے جو تلہ گنگ کو دیا ہے وہ بہت نہیں اب نیا جوش نیا ولولہ عوام میں ہے اور مقا بلے کی فضاء ہے اس لئے اس دوڑ میں پرا نے ن لیگیوں کو چا ہیے کہ وہ نئے چہروں کو روشناس کرا ئیں اور ان کو ووٹ دلا کر علا قے کی تعمیرو ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں ۔
اس پر عوامی حلقوں میں ابھی تک یہ چہ مہ گوئیاں ہو رہی ہیں کہ ن لیگ کے موجودہ امیدوار کمزور ہیں صرف ملک سلیم اقبال کے دئے گئے تین چار امیدوار مضبوط پوزیشن پر ہیں اور ان کو وننگ کینڈیڈیٹ گردانہ جا رہا ہے ۔ اس میں کو ئی شک نہیں کہ اس وقت ن لیگ کی ظا ہر ی پو زیشن کمزور ہے ۔ اور ایم پی اے سردار ذوالفقار علی خان دلہہ کے دیے گئے امیدوار زیادہ مضبوط پوزیشن پر نہیں ہیں لیکن اس تمام تر فضا ء سے یہ بات واضع ہو رہی ہے کہ کو ئی بھی ن لیگ کے ساتھ مخلص نہیں تھا سبھی ٹکٹ کے چکر میں تھے جس کو ٹکٹ نہیں ملا ان کا کام تواصو لی طور پر یہ بنتا تھا کہ وہ اپنے دوسرے ن لیگی امیدوار کی کمپین چلا ئے ۔ لیکن سب اس کے مخالف چل رہا ہے ۔ جو کہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ ن لیگی نہیں بلکہ ٹکٹ کے متلا شی تھے ۔جن کی خواہش تھی کہ اقتدار کی ہو ائیں لوٹیں گے ۔
قارئین اس تمام تر صورت حال کا فا ئدہ ق لیگ کو ہو گا ۔ اس سے قطعہ نظر کہ حا فظ عما ر یا سر کو ن ہے ؟ یا ق لیگ کیا ہے ؟وغیرہ ق لیگ کا دھڑہ تلہ گنگ سٹی میں بہت مضبوط ہے اور ن لیگ کو ٹف ٹائم دینے کیلئے ق لیگ کے امیدوار بہت شاطر انداز سے اپنی کمپین کر تے دیکھا ئی دیتے ہیں ۔جبکہ ن لیگ کے امیدوار ابھی تک تقسیم ہو تے دیکھا ئی دیتے ہیں ۔ ہاں اک بات ضرور کہوں گا کہ اگر حا فظ عمار یا سر پجارو سے اتر کر ڈور ٹو ڈور کمپین کریں تو یہ نا ممکن نہیں کہ وہ تلہ گنگ کی سیٹوں پر اکثریت حاصل نہ کر سکیں اور اگر ن لیگی آج ٹکٹ کے لا لچ کو چھوڑ کر صرف ن لیگی ہو نے کا ثبوت دیں تو یہ بھی ممکن نہیں کہ وہ ق لیگ کو ٹف ٹائم نہ دیں ۔
تلہ گنگ کی 12 وارڈز میں مقا بلہ ق اور ن لیگ کا ہی دیکھا ئی دیتا ہے ۔ کیو نکہ تحریک انصاف کے امیدوار ان تمام سیٹوں پر کمزور پوزیشن پر دیکھا ئی دے رہے ہیں ۔ ق لیگ کو محنت اور ن لیگ کو اتفاق کی ضرورت ہے ۔ تب جا کر دونوں کو مقا بلے کر نے کا معلوم ہو گا ۔ میں زیا دہ دور نہیں جا تا ۔
بات کروں گا ملک فلک شیر اعوان کی کہ جن کے ساتھ ن لیگ کی اعلیٰ قیادت نے وفا نہیں کی ، گو کہ ن لیگ کی اعلیٰ قیادت نے کسی سے بھی وفا نہیں کی کیو نکہ ان کی گردن کا سر یا ہی بہت سخت ہے جو ان کو ادھر ا’دھر دیکھنے دیتا ہی نہیں ۔اعلیٰ قیادت کو چا ہیے تھا کہ کم از کم دوچار ٹکٹ تو ملک فلک شیر کی نظر کر دیتے کیو نکہ ان کی میاں برادران سے ملا قاتوں کی خبریں ، کبھی ضلع کی پیش رفت میں ان کا کردار سا منے آتا رہتا تھا جس سے معلوم ہوتا تھا کہ ان کی قربت اعلیٰ قیاد ت سے بہت گہری ہے ۔ لیکن اس ٹکٹ تقسیم نے تو سب کو ہلا کے رکھ دیا ۔
جہاں ملک سلیم ا قبال کو پریشانی میں مبتلا کر دیا وہاں ملک فلک شیر اعوان کو بھی یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ تم کہاں کو چلے تھے را ہی ۔ یہ ن لیگ کی قیادت ہے جو بڑے بڑے برجوں کو کچھ نہیں جا نتی ۔ ملک فلک شیر اعوان کو چاہیے کہ اس ن لیگ سے تو بہتر ہے ق لیگ کے ساتھ یا تحریک انصاف سے ساتھ کھڑ ے ہو جا ئیں جہاں ان جیسے اچھے اور مخلص کا رکن کی عزت تو ہو گی ۔ اس بات پر سبھی اتفاق کر تے ہیں کہ ملک فلک شیر اعوان عوامی آدمی ہے اور جس کے ساتھ بھی اس کا تعلق ہے وہ مخلص پن کی وجہ سے ہے لیکن ن لیگ نے ان کی قدر نہیں کی اس لئے بہتر ہے کہ را ہیں بدل دی جا ئیں اور کو ئی اچھا را شتہ تلا ش کیا جا ئے جس پر کو ئی بات سننے والا اور ماننے والا بھی ہو ۔
قارئین ! کالم لکھتے وقت میرا مقصد ہو تا کہ حقیقت کو اور گراؤنڈ ریالٹی کو اپنے دوستوں تک پہنچا ؤں میرا مقصد ہر گز کسی کی دل آزاری کر نا نہیں ۔ کیو نکہ کسی ملک سلیم اقبال ، حافظ عمار یاسر ،ایم پی اے سردار ذوالفقار علی خان دلہہ یا ملک فلک شیروغیرہ نے مجھے کچھ نہیں دینا نہ میں کسی سے کچھ لینے کا روادار ہوں ۔ اک شوق ہے کہ عوام کو اچھی آگا ہی دیتا رہوں اورانشاء اللہ دیتا رہوں گا ۔ اللہ میرا اور آپ کا حا می و نا صر ہو ۔