اللہ تعالےٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بناکر زمین پر اپنا نائب مقرر فرمایا طرح طرح نعمتوں سے انسان کو نوازا ۔رہنمائی کے لیے ہر دور میں پیغمبر بھیجے اور نبی اکرم ﷺکو آخری نبی اور قرآن کو آخری الہامی کتاب کو بنی نوع انسان کے لیے ہدایت کا سر چشمہ بنایا حضور پاکؐ کی سیرت طیبہ کو زندگی گزارنے کا عملی نمونہ کے طور پر پیش کیا اور ہم پر سب سے بڑھ کر یہ احسان کیا کہ آپؐ کا امتی بنا کر دنیا میں بھیجا اور بہترین اُمت قرار دیا وہ اُمت جس کی نبی اکرمؐ کو بہت فکر تھی جس کے لیے آپ نے رو رو کر دعائیں فرمائیں۔لیکن ہم لوگ آج جو کام کر رہے ہیں کیا وہ اُمت محمدیؐ کا شیوہ ہے؟کیا بے گناہوں کو قتل کرنا اُمت محمدی کا وطیرہ ہے؟کیا جھوٹ،دھوکہ دہی،چوری،غیبت،راہزنی،شراب خوری،سود خوری،زنا،بے حیائی ،بد اخلاقی،بد دیانتی جیسی برائیوں کا درس ہمیں آپؐ کی تعلیمات نے دیا ہے؟کیا تفرقہ بازی کی دعوت ہمیں قرآن نے دی ہے؟ہر گز نہیں!ہر گز نہیں!!ہمیں تو ہمارے نبیؐ نے اعلیٰ اخلاق،اخوت،رواداری،محبت،حسن سلوک،امانت داری،سچائی،حیاء،برائی سے روکنے اور بھلائی کی ترغیب دینے جیسی اعلیٰ تعلیمات کا درس دیا ہے اور اپنی حیات مبارکہ میں اس کا عملی نمونہ ہمارے سامنے پیش کیا ہے اپنی سنت اور قرآن کو ہمارے لیے مشعل راہ قرار دیا ۔اللہ تعالیٰ اور بنی اکرم ؐ نے قرآن کو مضبوطی سے تھامے رکھنے اور تفرقے سے بچنے کاحکم دیا ۔مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہم نے اپنے اوپر صرف اُمت محمدیؐ کا لیبل لگا رکھا ہے ہمارے اعمال سیرت طیبہ کے بالکل برعکس ہیں خود کو ہم نے فرقوں میں تقسیم کر رکھا ہے اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بنے ہوئے ہیں قرآن و سیرت نبویؐ کا مطالعہ خود کرنے کی بجائے سُنی سنائی باتوں کے پیچھے لگ کر لکیر کے فقیر بنے ہوئے ہیں عفو و در گذر،صبر و تحمل اور رواداری ہم میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ان فرقوں کی تقسیم سے بڑی تقسیم جو ہم نے پیدا کر رکھی ہے وہ دین دار اور دنیادار کی تقسیم ہے نمازیں پڑھنے والوں،روزے رکھنے والوں،حج کرنے والوں،زکوٰۃ دینے والوں،قرآن پاک کی تلاوت کرنے والوں کو دین دار کا لقب دے دیا جاتا ہے جس سے لا شعوری طور پر اُن میں غرور و تکبر آ جاتا ہے اور وہ دوسروں کو خود سے حقیر سمجھنے لگتے ہیں کاروبار زندگی میں مصروف لوگوں کو دنیا دار کا خطاب دے دیا جاتا ہے جس سے وہ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ نیکی اور بھلائی کے کام تو دینداروں کے ذمے ہیں۔دنیا داری جھوٹ ،مکر و فریب،بد دیانتی،حرام کمائی اور دھوکہ دہی کا نام نہیں بلکہ دنیاداری کا مطلب رزق حلال کمانا اور حسن معاشرت ہے ہماری بنی اکرمؐ نے اپنی حیات مبارکہ میں کاروباری امور بھی سر انجام دیے اور عبادت الہٰی بھی۔آپؐ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا،کبھی رزق حرام نہیں کمایا،کبھی کسی کا دل نہیں دُکھایا،کبھی ظلم نہیں کیا ۔تمام اچھے اخلاق کا عملی نمونہ آپ ؐ کی حیات مبارکہ ہے ایک سچا اُمت محمدی وہ ہے جواللہ اور اُس کے رسول ؐ کے احکامات کے مطابق دین دار بھی ہو اور دنیا دار بھی۔جہاں ظلم کی مثال دی جاتی ہے وہاں یزید کا نام سر فہرست ہوتا ہے کیوں کہ اُس سے بڑھ کر ظالم کوئی نہیں اور حضرت امام حسینؓ سے بڑھ کر مظلوم کوئی نہیں ہم محبت تو حضرت امام حسینؓ سے کرتے ہیں جب کہ اعمال کی پیروی یزید کی کر رہے ہیںیہ کیسا محبت کا دوہرا معیار ہے ہر بُرائی ہم میں رچ بس گئی ہے کسی پر ظلم کرتے ذرا دل میں ملال نہیں لاتے۔ آج اگر ہم اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ سیرت طیبہ کے مطابق نہ ہم دین دار ہیں اور نہ ہی دنیا دار۔ہم نے صلہ رحمی چھوڑ دی،ترک تعلق کو ترجیح دی،ظالم کی مدد کرتے ہیں مظلوم کا ساتھ نہیں دیتے،حق بات کہنے سے ڈرتے ہیں،جھوٹ اور مکر و فریب کو اپنا وطیرہ بنا لیاہے،حرام کو حلال پر ترجیح دیتے ہیں،عفو و در گذر کو پس پشت ڈال دیا ہے،اللہ کی رضا کی خاطر مال خرچنے کی بجائے جمع کرنا شروع کر دیا ہے۔والدین،رشتہ داروں،پڑوسیوں اور مہمانوں کے حقوق کو فراموش کر دیا ہے،یتیموں کی کفالت چھوڑ دی ہے،صدق دل اور خلوص کی بجائے ریا کاری کو اپنا لیا ہے۔ان سب اعمال کو سر انجام دے کر بھی ہم یہ سوچتے ہیں کہ ہم ایک کامیاب زندگی گزار رہے ہیں اور پھر فخر کرتے پھرتے ہیں کہ ہم اُمت محمدی ہیں ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سوچتے کہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں کیا یہ اُمت محمدی کا شیوہ ہے؟کیا ایسی تعلیمات کا درس ہمیں اسلام نے دیا ہے؟کیا انہی اعمال کی بدولت ہم اللہ کی خوشنودی اوربنی اکرمؐ کی شفاعت کے دعوے دار ہیں؟ہمارے اعمال ہر گزرتے وقت کے ساتھ ہمیں تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں قوموں پر زوال اخلاقی گراوٹ کی وجہ سے آتا ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم اُمت محمدی ہونے کا ثبوت اپنے اچھے اعمال اور اخلاق سے دیں فرقہ واریت اور بُرائی کے کاموں سے بچیں محبت اور اخوت اپنے درمیان پیدا کریں ایک اُمت بنیں نفرت کو اپنے اندر سے نکال پھینکیں ۔ایسے اعمال کریں کہ جن سے ہمارے پیارے نبیؐ کو ہم پر فخر ہو کہ یہ ہے میری اُمت ۔۔۔مجھ پر فدا ہونے والی اور میری پیروی کرنے والی۔۔