ریڈ زون کی پراسراریت

Published on October 21, 2015 by    ·(TOTAL VIEWS 323)      No Comments

aa
مجھے کبھی ریڈ زون سے کبھی اتنی دلچسپی نہیں رہی مگرکچھ دنوں سے اسے اتنا سنا کہ اسکی کھوج میں لگ گیا، پھر جیسے جیسے بھید کھلتے گئے میری حیرت اور معلومات میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔اس اصطلاح نے عالمگیر شہرت پائی مگر دیس دیس کے سفر میں اپنی پہچان بدلنے کے ساتھ ساتھ کئی کہانیوں اور حوالوں سے منسوب ہو گئی۔دنیا کے مختلف خطوں میں الگ الگ تعریفوں وسلسلوں سے جڑا اورزون آف دی زونز کا خطاب پانے والا ریڈ زون آج زباں زد عام ہے۔ایک عورت تین کہانیاں تو سب نے پڑھ رکھی ہیں مگر ایک زون اورتیس کہانیاں تو کسی کو بھی تجسس میں مبتلاکیے بغیر نہیں رہ سکتیں۔ اگر یقین نہیں آیا تو پھر شروع کر تے ہیں تجسس کا یہ سفر۔
امریکی فٹ بال میں ریڈ زون مخالف ٹیم کی بیس یارڈ کی لائن اورگول لائن کے درمیان وہ مخصوص علاقہ ہے جہاں خصوصی طور پر دھاوابولنے کے لیے توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔اگرچہ کچھ پروفیشنل سٹیڈ یمز میں بیس یارڈ کی لائن لگائی جاتی ہے مگرسرکاری طور پر اس کی کوئی تعریف وضع ہے نہ ہی اس کے لیے کھیل کے دوران کوئی لکیر کھینچی جاتی ہے۔یہ اصطلاح اعداد و شمار، نفسیاتی اور تجارتی تشہیری مقاصد کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ریڈ یو نیٹ ورکس ہوم ٹیم کے ریڈ زون میں داخل ہونے کے وقت کے نشر یاتی حقوق بھی فروخت کرتے ہیں۔ یہ وہ جگہ تصور کی جاتی ہے جہاں شماریاتی طور پر گول کرنے کے امکانات زیادہ ہوں۔ 1990اوراس کے بعدکے فٹ بال کے مطابق یہ فیلڈ کا وہ علاقہ ہے جو دفاعی گول لائن کے قریب ہوتاہے چنانچہ اس حوالے سے مشہورہے کہ یہاں سستی کرنے والاسکون اور اعتماد دونوں ہی گنوا دیتا ہے۔
دنیا بھر میں معروف ایک تعریف کے مطابق ریڈ زون خطرناک اور ممنوعہ خطے یاکہیں مخصوص فعل سے رکنے یا پابندی کا نام ہے۔جبکہ ہم اگر آلات کی بات کریں تویہ کسی گیج یا ڈائل پر سرخ حصے کو بھی ظا ہر کرتا ہے جوغیر معمولی یاحفاظتی حد سے تجاوز کو ظاہر کرتا ہے۔
ایک اور پہلو سے دیکھیں جو اہم بھی ہے اور تاریخی بھی، عراق میں 2003 کی امریکی ، برطانوی اور اتحادیوں کی چڑھائی کے بعدغیر محفوظ علاقوں کو ریڈ زون کا نام دیا گیا۔اسے بغداد کے انتہائی سکیورٹی والے سیکٹر (گرین زون)کے تقابل میں یہ نام دیا گیا، جو بہت ہی چھوٹے سے علاقے کے لیے مستعمل تھا جبکہ با قی سارے بغداد کے لیے ریڈ زون کا لفظ استعمال کیا جاتا تھا۔ امریکی صحافی سٹیون ونسٹ جو اگست 2005 میں بصرہ میں قتل ہوا نے ’ریڈ زون میں، عراق کی روح میں ایک سفر‘ کے عنوان سے ایک کتاب بھی لکھی۔ جس سے ظا ہر ہوتا ہے کہ یہ علاقہ اس وقت کتنی اہمیت کا حامل تھا، اور اپنے اندر کتنے راز چھپائے ہوئے تھا۔
ریڈ زون کے حوالے سے ایک اور بظاہر ناقابل یقین مگر ناقابل تر دید حوالہ یہ ہے کہ ہے حکومت فرانس نے پہلی جنگ عظیم کے بعد ملک کے تمام شمال مشرقی علاقوں کو الگ کر کے ممنوعہ مگر غیر متصل علاقوں کا وہ سلسلہ بنا دیا تھاجو بارہ سو مربع کلو میٹر سے زائد علاقے پر مشتمل تھا مگر سکونت پذیر ی کے تنازعہ کے باعث مادی و ما حو لیاتی طور پرشدید متاثر ہوا۔ اگرچہ کنٹرول علاقے کافی کم ہو چکے ہیں مگر آج بھی ریڈ زون میں پابندیاں برقرار ہیں۔
بات قانون کی کی جائے توفرانسیسی قانون کے مطابق ریڈ زون میں مکان بنانا، فارمنگ اورشجر کاری عارضی یا مستقل طور پر ممنوع تھی۔زمین میں انسانوں اور جانوروں کے کثیر مقدار میں باقیات اورتباہی نہ پھیلا سکنے والے لاکھوں ہتھیارہونے کے باعث ایسا کیا گیا۔چناچہ جنگ کے بعد بعض دیہاتوں اور قصبوں میں دوبارہ تعمیرات پر پابندی عائد کر دی گئی۔
آفات کے تناظر میں جب تحقیق کی گئی تو پتا چلا کہ دی سینٹرل سٹی ریڈ زو ن جسے سی بی ڈی ریڈ زون بھی کہاجاتا ہے ،ایسی جگہ تھی جہاں کرسٹ چرچ سینٹرل سٹی میں لوگوں کی آمد و رفت ممنوع تھی۔یہ اصطلاح 22 فروری 2011کے کرسٹ چرچ زلزلوں کے بعد مستعمل ہوئی۔ فروری 2013 کے بعد حکومتی اداروں نے اسے سرکاری طور پر سی بی ڈی نو تعمیر شدہ ریڈ زون کانیا نام دیا گیامگربعد ازاں اسے ریڈ زون کے نام سے ہی جانا گیا۔وقت کے ساتھ ساتھ اسکا رقبہ کم سے کم ہوتا گیااورزلزلے کے859دنوں کے بعد 30جون 2013 کو آخری سرخ فیتہ ہٹایا گیا۔
اگر آپ اس دیو مالائی اصطلاح کو رہائشی ریڈزون کہنے پر راضی ہو جائیں تو بھی اسکی ایک تعریف کی جا سکتی ہے ، ہموار زمین پر اس رہائشی جائیدادکو سرخ کیا جاتا ہے جو زلزلوں کے بعد بری طرح160تباہ ہو گئی ہو۔ جسے طویل عرصہ تک قابل تعمیرو کاشت نہیں بنایاجاسکتا۔ کسی علاقے کو رہائشی ریڈزون گرداننے کا بھی مخصو ص طریقہ کار ہے،اگر بڑے پیمانے پراور شدیدطور پر اراضی متاثرہوتو بھی انجینئرنگ کے حل میں کامیابی کی صورت میں منصوبے کی شرائط غیر یقینی ہی ہوں گی، کیونکہ سارے پہلوؤں کو مد نظر رکھے بغیر کام شروع کرنے کی صورت میں زلزلے کی حر کا ت شروع ہونے کا خد شہ رہے گا، اور کوئی خود ساختہ درستی یااصلاح اراضی کے مالکان کے لیے طویل، پیچیدہ اور خطر ناک عمل بن سکتا ہے۔
اس معمہ کے حوالے سے یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ ریڈ زون 2006 میں ریلیز ہونے والی سٹیل بریگیڈکے اربن اسالٹ ٹروپرکے ایکشن فگر لیوک الیز ن کا خفیہ نام تھا۔ جی آئی جو ٹیم نے بھی اس میں دلچسپی لی جب وہ ایف بی آئی کے حوالے سے تھوڑے پرجوش تھے۔
اگر آ پ یہ سوچ رہے ہیں کہ ریڈ زون ایک ویڈیو گیم کا نام ہے توآپ غلط نہیں ہیں۔1994میں اسے زائیر نکس نے ڈویلپ کیا اور ٹائم وارنر، انٹر ٹائم وارنر انٹرایکٹونے اسے جینیسسکونسول کے لیے پبلش کیا۔تقسیم بہ غرض تشہیر ڈویلپر(متوفی) نے اسکے ریلیز سے قبل کے ورڑن ہارڈ وائرڈ کو ہی کافی سمجھا اور اس حوالے سے مخصوص کاوش منظر عام پر نہیں آئی۔
ریڈ زون کیوبا کو بھی اپنی یادداشت میں محفوظ کر نا مت بھولیے گا۔امریکی ڈرامہ اور فلم نگار کولمین فرانسس نے1966 میں ریڈ زون کیوبا نامی فلم کی ہدایت دی جسے نائٹ ٹرین ٹو منڈوکے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ فرانسس نہ صر ف لکھاری تھا بلکہ مرکزی کردار میں بھی شامل تھا۔یہ اسکے اور دو پرانے ملزموں کے فرارکی پیچیدہ مہم جوئی پر مبنی تھی جواس نے سر راہ اپنے ساتھ طے شدہ معاوضے کے عوض شامل کیے تھے کیو نکہ وہ 1961کی بے آف پگزکی عسکری چڑھائی میں ملوث تھے۔ اس سارے عمل میں ٹنگسٹن مائن میں چھپے خزانے کی تلاش کار فرما تھی۔دسمبر 1994 میں مسٹر ی سائنس تھیٹر 3000کے نام سے ٹی وی کی مزاحیہ سیریز بنائی گئی۔کولمین کی یہ بطور ڈائیریکٹر اور سٹار آ خری فلم تھی۔اس کے علاوہ دو فلموں میں اس کے کردار ثانوی نوعیت کے تھے اور بیسٹ آف یو سا فلیٹس میں وہ محض مختصر کردا ر تک محدو د رہا۔ اگرچہ جان کیراڈ ان چوتھا شر یک تھا اور وہ تشہیری وابلاغی مہم میں بھی کا فی نما یا ں تھامگر فلم میں صرف اسے ابتدائی طور پر شا مل کیا گیا۔ کیراڈ ان نے ایک اور فلم بھی سائن کی جسکا ابتدائی گانا نائٹ ٹرین ٹو منڈوفائن تھا۔
ہنگامی حالت اور ناگہانی صورت حال کو ذہن میں رکھا جائے تو آپ ریڈ زون کو فائر لین بھی تصور کرسکتے ہیں ، یہ نام پبلک سٹریٹ میں مخصوص جگہ کے لیے مستعمل ہے جہاں ایمر جنسی سروس والے براجمان ہوتے ہیں اور آگ بجھانے والی گاڑیاں کھڑی کی جاتی ہیں۔
میرا پر تجسس ادراک مجھے مادی اشیاکی دنیا میں بھی لے گیاکچھ کمپیوٹر، اعداد و شمار اور ریاضیاتی سی کیفیت میں شاید، ریڈ زون میموری میں اس مخصوص سائز کی جگہ کوبھی کہتے ہیں جومتعینہ ڈیٹا سٹور اور تجزیاتی اعشاریے سے الگ ہو۔ حافظہ ویاداشت کا یہ مخصوص ایریا کسی امر کے واضح تسلسل، رعایت یاسگنل کی مدد سے تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ یہ سٹیک پوا ئنٹر کوکسی اضافی بوجھ کے بغیر عا رضی ڈیٹا کو محفوظ کر نے کے لیے مزید جگہ دیتا ہے۔ x86۔64 ABI ریڈ زون کو128بائیٹس دیتا ہے۔کھلی آر آئی ایس سی ٹول چین128بائیٹس کی ریڈ زون تصور کی جاتی ہے۔
ٹیکنالوجی کی ہی ایک اور بات کہی جائے تو کچھ غلط نہیں ہو گی کہ ٹیکنالوجی ایکسپینڈ نیٹ ورکنگ میں ریڈزون کو گر د و پیش کی اس کیفیت اور ماحول سے موسو م کیا جاتا ہے جو اند رونی اور بیرونی فائر والز کے درمیان ہوتا ہے، جہاں سوفٹ ویئر اور ہارڈ ویئر کو بیرونی یعنی نیٹ کے علاوہ ایپلیکیشن کی رسائی روکنے کے لیے لگایا گیا ہوتا ہے۔
دنیا بھر میں مختلف تناظر میں الگ الگ توجیہات،تعریفوں اور حالات و وا قعات کے ساتھ ریڈزو ن مختلف ناموں اور کاموں سے جاناجاتا ہے ، مگر ایک پاکستانی شہری ہونیکی حیثیت سے یہاں یہ جاننا تو ایک طرف مگر ریڈ زون پر جوش،جانا پہچانا اور سنسنی سے بھر پور معاملہ ضرور رہا ہے جس میں ہر ایک کی دلچسپی سے شروع ہونے والا تجسس انتہاؤں سے بھی آگے جاچکاتھاکیونکہ پاکستان کی ایک بڑی ، قابل ذکر اور متنازعہ تحریک نے مہم جوئی اوراجتماع کی صورت دھاری تھی۔جی ہاں14 اگست 2014 کوعین پاکستان کے یوم آزادی کے دن و فاقی دار الحکومت میں دو سیاسی جماعتوں کی جانب سے لانگ مارچ کے آخر میں دیے جانے والے دھرنے نے اور تو کچھ کیا یا نہیں مگر ریڈ زون کی بھر پور رونمائی یا بد نمائی کی۔یہ دھرنا بظا ہر تو منتخب جمہوری حکومت کی پالیسیوں اوراس کے اقتدار میں آنے سے متعلق سوالات پر مبنی تھا مگر دن بہ دن اس کی نئی پرتیں کھلتی گئیں۔ لانگ مارچ کے پہلے پاور پلے میں تو دونوں ٹیموں نے بھر پور کھیل دکھایا مگر دوسرے پاور پلے میں تو گھنٹوں کی کہانی دنوں اور ہفتوں میں بدلنے کے بعد مہینے کی حد بھی عبور کر گئی اور چلّے سے بھی آگے کی جانب گامزن نظر آئی تھی۔اس سارے فسانے میں ،جو تاریخ کے سینے میں حقیقت بن کر محفوظ ہو گیا، ریڈ زون کی پامالی ، خلاف ورزی اور قبضے کو اس لیے بر داشت کیا گیاتھا کہ عوام کی بڑی تعداد شریک دھرنا تھی۔ہزاروں نامانوس قدموں نے اس ممنوعہ علاقے کو روندا،اور اس کے ساتھ وہ سلوک کیا جو بیان سے باہر ہے۔اس سارے معاملے کے پہلو توموجودہ عنوان کے تحت احاطہ تحریرمیں نہیں لائے جا سکتے مگر محافظوں کی موجودگی میں طویل تر،اعصاب شکن ،قانون شکنی کی یہ عجیب مگر بد ترین مثال کم از کم ہمارے ہاں چشم فلک نے اس سے قبل نہیں دیکھی تھی۔ریڈ زون کو ہائیڈ پارک بنا کر دل کی وہ بھڑاس نکالی گئی کہ حد ہو گئی۔ترانوں اور موسیقی کی دھنوں نے وہاں وہ ماحول گرمایاکہ جس کی حد نہیں،جہاں چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی تھی و ہاں پر اک شہر سا آباد ہو گیاتھا۔در اصل یہ وہ علاقہ ہے جہاں سفارتخانے،پارلیمنٹ ہاؤس، ایوان صدر، وزیر اعظم ہاؤس ، ورلڈ بنک کا دفتر، الیکشن کمیشن آفس،ریڈیو پاکستان، پی ٹی وی،سپریم کورٹ سمیت درجنوں حساس اور اہم ترین عمارات واقع تھیں۔ اس وقت ڈپلومیٹک اینکلیو میں ا ٹھہتر سفارتی مشن تھے۔تمام سٹیک ہولڈرز کا اس حوالے سے فعال کردار بھی دارالحکومت میں اس مہنگے،طویل ہنگامے کو روک نہیں سکاتھا۔نو گو ایریا کہلانے والا علاقہ اپنی نفسیاتی برتری اور خاص مقام گنوا بیٹھا۔نیا پاکستان اور انقلاب کے نعروں نے حکومتی رٹ کو خو ب خوب آزمایا ،متوالوں،جیالوں اور کارکنوں نے ریڈ زون کو فری زون اور اسلام آباد کو اپنے گھر کا لان بنا ڈالا۔
بات ریڈ زون کی ہو رہی ہے تو اسلام آباد کی بات بھی کرتے جسے سی ڈی اے نے انتظامی اعتبار سے زون ون سے زو ن فا ئیوتک تقسیم کر رکھا ہے۔جس میں سے زون ون سب سے بڑا ہے، زون ون میں ترقی یافتہ علاقے شامل ہیں جبکہ زون ٹو میں وہ علاقے شامل ہیں جہاں تر قیاتی کام جاری ہیں۔دوسری جانب اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری آٹھ بنیادی زونز، ایڈمنسٹریٹوزون، ڈپلومیٹک اینکلیو زون ، رہائشی علاقے،تعلیمی سیکٹرز، صنعتی علاقے،کمرشل ایریاز،دیہی علاقے اور گرین ایریازمیں منقسم ہے۔
ریڈ زون کی دیو مالائی داستان ابھی ختم نہیں ہوئی، اسے بعض کمپنیوں نے اپنا برانڈ نیم بنا ر کھا ہے جسے عالمی پذیرائی حاصل ہے۔کسی نے ریڈز ون کے نام پر چینل کھول رکھا ہے تو کوئی ریسٹورنٹ کھولے بیٹھا ہے۔کوئی فین کلب اس ہاٹ زون سے مو سوم ہے تو فلم، ڈرامے والو ں نے بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔اس زبر دست نا م پہ سٹورزبھی بنے ہیں اور میگزین بھی چھپ رہے ہیں۔گلو کار بھی زون آف دی زونز پہ طبع آزمائی کر چکے۔ریڈ زون کے نام پر فوڈ سپلیمنٹ بھی بیچے جا رہے ہیں ، کئی کردار اس سے منسلک ہوکر امر ہو چکے ہیں۔ کچھ یار لوگوں نے تو اس سپیشل نام کو اپنی تنظیم کا نام بنا رکھا ہے۔ اس کے علاوہ بھی اتنی کہانیاں ہیں کہ ان پر ایک ضخیم کتاب کی تدوین کی جا سکتی ہے۔ بس ایک بات جو میری تحقیق میں ابھی تک سامنے نہیں آئی وہ یہ کہ کسی نے اپنے نورنظر،لاڈلے،لعل کا نام ریڈ زون نہیں رکھا، مگرمیں خو شگوار حیرت کے جس حسین سمند ر میں غوطے کھا رہا ہوں، میں وثوق سے کہ سکتا ہوں کہ وہ دن زیادہ دور نہیں جب ہمارے ارد گرد بھی، ہمارے احباب میں ہی ہمیں ریڈ زون مل جائیں گے۔
ارے آپ کہاں چلے!ابھی اس نام کو اپنانے پر کوئی پابندی یاٹیکس نہیں لگا،جب جہاں مرضی استعمال کر لیجیے گا۔آکری بات تو کرنے دیجیئے،دل کی بات کہوں تو ہر دل میں ایک ریڈ زون ہوتا ہے اس اہم ترین علاقے میں بڑا ہی حساس ڈیٹامحفوظ ہوتا ہے۔وہاں تک توبات ٹھیک ہے مگراپنے غصے اورنام نہاد اصولوں کو اپنی حقیقی شخصیت کے گرد ایسی فصیل مت بنانے دیجیئے جو آپ کے گرد ایسا ریڈ زون بنا دے کہ آ پ اس کے مقید ہو جائیں ،ضد و نفرت بھری انا آپ کو اتنا تنہانہ کر دے کہ آپ اپنائیت کو ہی ترس جائیں۔خلوص، محبت ،قربانی اور احساس سے اس دنیا کو ایک خوبصورت ، پر امن زون بنانا مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں،پھرچاہے اسے ریڈزون کا ہی نام دے دیں۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

WordPress Blog