صحافت ایک مقدس اور عظیم الشان پیشہ ہونے کے ساتھ ساتھ ملک و ملت کی خدمت کا بہترین ذریعہ بھی ہے،یہ ہمارے لیے ابلاغیات کا ایک اہم راستہ ہے جس کے ذریعے ہم اپنے مسلمان بھائیوں کو دینِ اسلام کی طرف راغب کرتے ہیں کیونکہ صحافتِ اسلامی کا نقطۂ نظر اور محورِ عمل امر بالمعروف و نہی عن المنکر پر مبنی ہے،صحافت کے محورِعمل امر بالمعروف و نہی عن المنکرہونے کامطلب بھی یہی ہے کہ اپنے لکھائی کے ذریعے لوگوں کو راہِ راست کی طرف لایا جائے،اب اگر کوئی یہ کہے کہ ہر صحافی کا نقطۂ نظر امر بالمعروف و نہی عن المنکرنہیں ہوتا اور نہ ہی ہر کالم یا ہر اخبار کا مقصد امر بالمعروف و نہی عن المنکرہوتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ صحیح اور سچی خبر پھیلانا اور نشر کرنا بھی امر بالمعروف و نہی عن المنکرہے مثلاًاگر یہ کہا جائے کہ’’ بھارت نے نیوٹران بم بنانے کی صلاحیت حاصل کرلی‘‘تو اس میں بھی امر بالمعروف و نہی عن المنکراس طور پر ہے کہ مملکتِ خداد کے سائنسدانوں اور دانشور حضرات کو متنبہ کرنا ہے کہ انہوں نے تو یہ صلاحیت حاصل کر لی اب تم اس سے خلاصی اور جان چھوڑانے یا ان کے اس صلاحیت کو ناکارہ بنانے کے لیے بھی کوئی پیش رفت کرلو۔
صحافت کے اس میدان میں روزنامہ مشرق ایک اہم کردار ادا کر رہی ہے ،میں بہت پہلے سے روزنامہ مشرق کا قاری ہوں،میں جب بھی کسی اخبار فروش کے پاس جاتا ہوں تو روزنامہ مشرق کا پوچھ کر خرید لیتا ہوں،میں ہر روز روزنامہ مشرق کو خوب لگن کے ساتھ پڑھتا ہوں،یہاں تک کہ وہ ہاکر میرے سے اتنے واقف ہو چکے ہیں کہ میں جب بھی اُس کے سامنے ہو جاتا ہوں تو وہ بغیر کسی پوچھے روزنامہ مشرق کو ہاتھ میں لیکر مجھے پکڑا دیتے ہیں،میرا ایک مشغلہ یہ ہے کہ میں جب بھی اخبار کو اُٹھا لیتا ہوں تو سب سے پہلے لیڈ اور سُپر لیڈ پڑھ لیتا ہوں کیونکہ روزنامہ مشرق کے ٹیم کو اللہ تعالیٰ نے چُن چُن کر جمع کیا ہے اور ان کو استعداد وقابلیت کی اعلیٰ معیار سے نوازا ہے،ان میں خبر لگانے کی صلاحیت اعلیٰ درجے کی ہیں اور ان کی یہ ٹیم بالکل قرآن کریم کی اس آیت یٰاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِنْ جَآءَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْا۔۔۔۔الخ کے مصداق ہیں، کہ اے ایمان والوں تمہارے پاس جب کوئی فاسق خبر لیکر آجائے تو تم اس کی چھان بین کرو۔روزنامہ مشرق کو اللہ تعالیٰ نے اس صفت سے منور کر رکھا ہے۔
یہاں تک تو صحافت کے متعلق لکھا گیا،اب صحافی کے لیے بھی چند گزارشات عرض کردیتا ہوں کہ صحافی کی افادیت کے لیے اس میں چند خوبیاں ہونی چاہئے۔
اول یہ کہ صحافی کو ناسازگار حالات سے مایوس نہیں ہونا چاہئے کیونکہ یہ تو بمنزلہ ایک داعی کے ہے اور داعی کو ہر حالت میں ثابت قدم رہنا چاہئے۔
دوسری یہ کہ صحافی جو بات لکھے تو آپ کی یہ لکھائی سچ ہونے کے ساتھ ساتھ حقیقت پر بھی مبنی ہو نہ کہ اس میں اپنی طرف سے کچھ رنگا رنگی داخل کرے۔
تیسری یہ کہ صحافی جو بھی لکھے تو اس لکھائی کے وقت نیت کی درستگی کرے کہ جب نیت درست ہوگی کوئی دنیاوی طمع اور لالچ نہیں ہوگا تو آپ کی یہ لکھائی خیر خواہی پر مبنی ہوگی۔
چوتھی یہ کہ وہ اختیار کیا گیا طریقہ بھی حق ہو ،طریقہ حق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ سنّت انبیاء کے مطابق ہوکیونکہ امر بالمعروف و نہی عن المنکرکے فریضے کی ادائیگی میں انبیاء کرام نے حکمت واعتدال کے بہترین نمونے چھوڑے ہیں۔
ان تمام گزارشات کے علاوہ ایک اہم بات یہ ہے کہ آپ جوبھی لکھے یا کہے تو وہ دلخراش انداز میں نہ کی جائے بلکہ شائستگی اور نرمی سے کی جائے،دلخراش اور سخت کلامی ہوگی تو بات بااثر ثابت نہ ہوگی بلکہ بعض اوقات اس کا مضر اثر بھی ظاہر ہوتا ہے مثلاً جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کو فرعون کے پاس بھیجا تو ان سے فرمایاگیا تھا کہ آپ ان سے نرم بات کیجئے۔مفتی محمدشفیعؒ لکھتے ہیں کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام جیسے جلیل القدر انبیاء کو فرعون جیسے گمراہ انسان کے سامنے سخت کلامی کی اجازت نہیں دی گئی تو نہ ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام سے بڑے مصلح ہیں اور نہ ہمارے مخاطبین فرعون سے زیادہ گمراہ ہیں، تو ہمیں اپنے مخاطبین کے سامنے سخت کلامی کی اجازت کیسے ہوسکتی ہے؟
قارئین کرام اس تحریر کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’وقولوا للناس حسنا‘‘(عام لوگوں کو نرمی سے بات کہو)اس آیت کریمہ پر ایک واقعہ یاد آیا کہ پاکستان کے قیام کے بعدجب ریڈیو پاکستان کراچی موجودہ عمارت کی نئی تعمیر ہوئی تو اس وقت کے ریڈیو پاکستان کراچی کے ڈائریکٹر جنرل ذوالفقار علی بخاری نے آکر مفتی محمد شفیعؒ سے درخواست کی کہ ریڈیو پاکستان کے مونوگرام کے لیے کوئی قرآنی آیت تجویز فرمائے تو مفتی محمد شفیعؒ نے قرآن کریم کی یہ آیت’’وقولوا للناس حسنا‘‘تجویز فرمایا تھا،چنانچہ اسی وقت سے قرآن کریم کا یہ جملہ ریڈیو پاکستان کے مونوگرام کے طور پر چلا آرہا ہے۔
روزنامہ مشرق کو بھی اللہ تعالیٰ نے بہت مخلص، دیندار اور اچھے صفات والے صحافی اور کالم نگار دیئے ہیں جن کی وساطت سے روزنامہ مشرق تقریباً49 سال کے لگ بھگ عرصہ دراز سے کامیابی کے ساتھ منظر عام پر آرہا ہے۔
میں چونکہ ایک ابتدائی لکھاری ہوں،میں روز ڈیلی مشرق کے ایڈیٹوریل پیج کا مطالعہ کرتا ہوں تو میں نے بھی انہی حضرات سے لکھنا سیکھا،روزنامہ مشرق کا ہر کالم نگار ایک منفرد انداز رکھتا ہے،مگر ان میں میرا سب سے بسٹ اور جن کے لکھنے سے مجھے بھی لکھنے کی شعور حاصل ہوئی،تنویر احمد،مسعود سلمان،ظفرسلطان اور عزیز چترالی صاحب کی اداریہ بھی شامل ہے۔
میں جب بھی ان حضرات کی کالمز یا اداریہ پڑھتا تھا تو یہی سوچتا تھا کہ وہ کونسا دن ہوگا کہ میں بھی ان جیسے تحریر لکھ لوں،مگر اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتا رہتا تھاآخر کار اس دعاؤں اور روزنامہ مشرق کے ٹیم کی
ان گنت محنتوں نے رنگ لایا اور یہ اس کے نتیجہ میں یہ تحریر منظرعام پر آگئی۔
آخر میں میں اور ایڈیٹرز حضرات سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ بھی اپنے لیے روزنامہ مشرق جیسے مخلص ٹیم کو تیار کرلیں،اس سے نہ صرف ایڈٹرز حضرات کو آسانی ہوگی بلکہ ان کا اخبار دن بدن ترقی کے منازل کو چھومے گا۔
اسی روزنامہ کو اپنے لیے ایک ماڈل رول بنا لیں،کیونکہ جب ہمارے مسلمان صحافی بھائی ان مذکورہ ہدایات کو اپنا لے اور وہ اپنا صحیح مقام پہچان لے کہ ان کا درجہ حقیقت میں داعئی حق کا درجہ ہے،تو وہ اپنے بہترین کردار کے ذریعے دنیا کو یہ بتائیں گے کہ ایک مسلم صحافی کا کیا مقام ہوتا ہے اور اسلامی صحافت اور موجودہ صحافت میں کتنا بڑا فرق ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمارے اربابِ بست وکشاد کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور روزنامہ مشرق کو عمر دراز نصیب فرما کر مزید ترقی سے نوازیں۔(آمین) ۔